پاکستان اور ہندوستان کے لوگ اس لحاظ سے خوش قسمت ہیں کہ اُنہوں نے صحیح جنگیں نہیں دیکھیں۔ ہماری جنگیں تودو اڑھائی ہفتوں پر محیط رہی ہیں‘ نہ شہروں پر بمباری‘ نہ نہتے شہریوں کا قتلِ عام۔ جنگ تو وہ ہے جو روس اور یوکرین کے درمیان لڑی جا رہی ہے۔ اتنا جانی نقصان ہوا ہے کہ پاکستانی اور بھارتی شہری سنیں تواُن کے کانوں کو یقین نہ آئے۔ تین سال کا عرصہ ہوچلا ہے اور خونریزی اور بر بادی ہنوز جاری ہے۔ جنگِ عظیم کو تو چھوڑیے‘ تین سالہ کورین جنگ میں چینی افواج کے لگ بھگ ساڑھے چار لاکھ فوجی مارے گئے تھے۔ شمالی کوریا کا کتنا نقصان ہوا وہ الگ باب ہے۔ امریکیوں کو بھی بھاری نقصان اٹھانا پڑا۔ 65ء اور 71ء کی دونوں جنگیں تقریباً سولہ سترہ دن جاری رہیں اور وہ بھی بڑے شریفانہ انداز میں اور یہ بڑی اچھی بات ہے۔
65ء کی جنگ میں شہری آبادیوں پر بمباری ہو سکتی تھی لیکن دونوں فریقین نے اس سے اجتناب کیا۔ 71ء کی جنگ میں بھی مغربی پاکستان میں بڑے سلجھے ہوئے طریقے سے جنگ لڑی گئی۔ اور پھر جب سانس پھولنے کی نوبت آئی تو شریفانہ انداز میں جنگ بندی ہو گئی۔ بنگال میں کہانی ذرا مختلف تھی لیکن جو شہری آبادی کا نقصان ہوا وہ جنگ سے پہلے کا تھا۔
یہ نہیں کہ یہاں کے عوام خونریزی سے واقف نہ تھے۔ لیکن ہولناک اور رونگٹے کھڑے کرنے والی خونریزی پنجاب میں ہوئی اور اُس کی وجہ کوئی جنگ نہیں تھی بلکہ پنجاب کی تقسیم۔ اس بھونڈے طریقے سے یہ تقسیم ہوئی کہ انسانوں کا تحفظ ممکن نہ رہا۔ پنجاب کے اس حصے میں مظالم غیر مسلموں پر ڈھائے گئے اور اُس حصے کے پنجاب میں قتلِ عام مسلمانوں کا ہوا۔ مدبرانہ سوچ کارفرما ہوتی تواس دو طرفہ خونریزی کی صورتحال پیدا نہ ہوتی یا اسے کنٹرول کیا جاسکتاتھا۔ لیکن یہ انگریزوں اور مقامی قیادتوں کی تاریخی ناکامی تھی۔ خونریزی شروع ہوئی اور پھر بے قابو ہو گئی۔ انسانیت ایسی مری اور درندگی نے اُس کی جگہ ایسی لی کہ بیسویں صدی میں ایسی مثالیں کم ہی ملتی ہیں۔ لیکن بات تو جنگوں کی ہو رہی ہے۔ یورپ اور دنیا کے دوسرے خطوں کی جنگوں کو دیکھا جائے تو پاک بھارت جنگیں بڑی مہذب رہی ہیں۔
یہ اور بات ہے کہ برصغیر کے عوام میں نکھٹو پن بہت ہے۔ یہ نہ ہوتا تو کیا یہ ممکن تھا کہ دو تین ہزار انگریز ہندوستان کے ایک کونے میں اپنے قدم جمائیں اور کچھ ہی عرصے میں فتوحات کا سلسلہ ایسا شروع کریں کہ پورے کا پورا ہندوستان اُن کے تسلط کے نیچے آ جائے؟ سات سمندر پارسے آئے ہوئے تھوڑے سے لوگ دنیا کے امیر ترین ملک پر اپنا قبضہ جما لیں۔ اور ایک ایسی حکومت قائم کریں جو لگ بھگ دو سو سال قائم رہے اور جس کے مزاج اور کلچر پر اثرات آج تک دیکھے جاسکتے ہیں۔ کیا مہاراجے اور راجے اور کیا نواب دور بیٹھے کنگ ‘ایمپرر کو سلام کریں۔ دو تین انگریز پورے کے پورے ضلعے چلائیں۔ فوج میں کمان انگریزوں کی اور سپاہ ہندوستان کے باشندے۔ ایسی ایمپائر جس کے مقامی خادمین میں تمام مذاہب کے لوگ شامل ہوں: ہندو‘ مسلمان اور سکھ۔ اور انگریزوں کی خوشنودی حاصل کرنے کیلئے آپس میں مقابلہ کر رہے ہوں۔ جیسے عرض کیا افسر انگریز اور حوالدار اور صوبیدار ہندوستانی۔ کیا برتری اُس حکومت کرنے والی قوم کی تھی اور کیا نکھٹو پن ہماری مختلف اقوام کا تھا۔
پہلی جنگِ عظیم میں چھ لاکھ ہندوستانی فوجی انگریز فوج میں بھرتی ہوئے جن میں سے ساٹھ فیصد سے زیادہ کا تعلق پنجاب سے تھا۔ ان فوجیوں میں سے بیشتر نے یورپ کے مغربی محاذ میں سروس کی۔ ہندوستانی برطانوی فوج کا پہلا وکٹوریا کراس جیتنے والا چکوال کا صوبیدار خدادادخان تھا۔ وکٹوریا کراس انگریزوں کی سروس میں حاصل کیالیکن آج بھی موٹروے پر بلکسر انٹرچینج کے قریب دونوں اطراف بورڈ لگے ہوئے ہیں کہ صوبیدار خداداد خان کا گاؤں اتنے فاصلے پر ہے۔ کوئی اس مملکتِ خداداد کے والیوں سے پوچھے کہ انگریز فوج کے ایک سپاہی کے کارناموں کا ایک آزاد مملکت سے کیا تعلق؟اس کا جواب وہ والی ہی دے سکتے ہیں۔ کچھ عرصہ قبل جب ملکہ الزیبتھ زندہ تھیں تو اُن کے یوم پیدائش پر وزیراعظم شہباز شریف کی طرف سے حکم ہوا کہ شکرپڑیاں کی یادگار پر روشنیاں جلائی جائیں۔ یوم پیدائش ملکہ برطانیہ کا اور چراغ یہاں جلائے جا رہے ہوں۔ شام کو برطانوی سفارت خانے پر کیک کاٹنے کیلئے حاضری بھی ہوئی۔
سڑکوں کے نام بدلنے سے حریت کی شمعیں روشن نہیں ہوتیں۔ نام بدلنے پر یاد آیا کہ لاہور میں ایک عجیب تماشا کچھ سالوں سے جاری ہے۔ جسے لاہور کینٹ کہتے ہیں اُس میں جو اَب سڑکوں کے نام ہیں اُن کے نیچے بریکٹس میں پرانے انگریز نام بھی درج ہیں۔ یعنی شامی یا طفیل روڈ ہے تو بریکٹ میں پرانے نام بھی لکھے ہوئے ہیں۔ پتا نہیں یہ کس ہونہار صاحب کی تجویز ہوگی لیکن کسی سے تو پوچھا جائے کہ پرانے انگریز نام لکھنے کا مقصد کیا ہے اور کس کی تربیت مقصود ہے؟
یہ جو جنگی جنون سروں پر منڈلا رہا ہے امید کرنی چاہیے کہ یہ زیادہ دیر قائم نہ رہے اور جو اس جنون کو ہوا دے رہے ہیں وہ ہوش کے ناخن لیں ۔ میرا اپنا خیال ہے کہ ہندوستان کسی ایڈونچر میں نہیں پڑے گا اور وہ اس لیے کہ طاقت کا توازن دونوں طرف تقریباً برا بر ہے۔ کچھ وہاں سے ہوگا تو جواب ضرور آئے گا۔ پاکستان حیدرآباد دکن تو ہے نہیں کہ ہندوستانی افواج پیش قدمی کریں اور فتح کے ڈھول بجنے لگیں۔
لیکن ایک بات کا خیال رکھنا ضروری ہے۔ خرم حسین نے ایک انگریزی معاصر میں بہت عمدہ مضمون لکھا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ ہندوستان کا اصل مقصد شاید سندھ طاس معاہدے کو ختم یا بے اثر کرنا تھا اور اُس مقصد کو اُس نے پورا کر لیا ہے۔ جس کا مطلب یہ نہیں کہ دریاؤں کا پانی ایک دم موڑ لیا جائے گا پر یہ مطلب ضرور ہے کہ لمبے دورانیے میں پاکستان کے حصے میں آئے ہوئے دریاؤں سے ہندوستان چھیڑ چھاڑ کر سکتا ہے۔ جیسا کہ جہلم اور چناب کے پانیوں کے ساتھ حالیہ سالوں میں ہوتا رہا ہے۔ ڈیم بنانے اور اس انداز سے بنانے کہ سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی ہو ‘ پاکستان ثالثی میں جائے اور وہاں سے کچھ حاصل نہ ہو۔ معاہدے کو بے اثر کرنے سے ثالثی کا راستہ بند ہو جائے گا۔ پھر ہمیں شکایت ہو تو کس کے سامنے کریں گے؟ میری دانست میں دیرپا خطرہ یہ ہے جس کی بنیاد ہندوستان ابھی سے رکھ رہا ہے۔ میرے خیال میں ہمیں اس بارے میں سوچ بچار کرنے کی ضرورت ہے۔
بہتری تو اسی میں ہے کہ جنون کے بادل چھٹ جائیں۔ وقت بدل چکا ہے اور قومی سوچ کے کئی زاویے فرسودہ ہو چکے ہیں۔ سعودی عرب کی ہی مثال لے لیجئے‘ کتنی تبدیلی وہاں آ چکی ہے۔ کئی اقدامات جو شہزادہ محمد بن سلمان نے کیے ہیں کچھ سال پہلے اُن کا کوئی سوچ سکتا تھا؟ آگے کے مسائل اور نوعیت کے ہوں گے۔ بڑھتی ہوئی آبادی کا مسئلہ تو ہے ہی‘ پانی کا مسئلہ بنے گا او رصرف سندھ طاس معاہدے کے ختم ہونے سے نہیں بلکہ ہمالیہ کی برفوں کے پگھلنے سے پانی کا مسئلہ مزید گمبھیر ہوگا۔ ہمالیہ کے پہاڑ اور وہاں کی برف برصغیر کے لوگوں کا مشترکہ اثاثہ ہیں۔ چاہے انڈس بیسن ہو یا گنگا کا وسیع میدانی علاقہ ان خطوں کی بقا ہمالیہ کی برفوں پر منحصر ہے۔ موسمی تبدیلیوں سے ان برفوں کی پگھلن بڑھ رہی ہے ۔ ان چیزوں کے بارے میں سوچیں ‘ جنون تو آنی جانی چیزہے۔ ہمیں دور کی سوچ رکھنی چاہیے۔