کیسے ممکن ہے کہ ملک کو خطرہ درپیش ہو اور عوام فوج کے ساتھ کھڑے نہ ہوں؟ ہمیشہ ایسے ہوا ہے‘ خطرے کی گھنٹی بجی اورتمام چیزوں کو بالائے طاق رکھ کر لوگ فوج کے ساتھ کھڑے ہوگئے۔ 65ء کی جنگ تو اپنی مثال آپ ہے‘ جب عوام نے اس بات پر دھیان نہ دیا کہ شاید پورے غورو فکر کے ساتھ مقبوضہ کشمیر میں عسکری کارروائیاں شروع نہ کی گئیں تھیں۔ اکھنور محاذ کھلنے کے بعد ہندوستان نے لاہور اور سیالکوٹ پر حملہ کیا تو افواج اور قوم ایک دیوار کی مانند ہوگئے۔ حتیٰ کہ 1971ء کی جنگ میں شکست ہوئی‘ ملک دو لخت ہو گیا اور بنگال میں ہتھیار ڈالنا پڑے لیکن پاکستان کے اس حصے کے عوام اور فوج کی یگانگت میں کوئی دراڑ نہ آسکی۔
کتنی بار لکھ چکا ہوں کہ کپتانی کے ایام تھے اور طیارہ شکن توپوں کے ایک کارواں کو مجھے کئی مقامات پر لے جانا پڑا۔ جنگ کا آخری روز تھا اور صبح صبح ہمارا دستہ پتوکی کے قریب ریلوے لائن پر ایک تباہ پل کے قریب پہنچا۔ تباہ شدہ پل پر کام ہو رہا تھا اور ہماری گنوں نے پل کے گرد حفاظت کا حصار بنانا تھا۔ ہفتہ بھر راتوں کو ہمارا کارواں ادھرسے اُدھرجاتا رہا۔ جگراتوں سے تھکن سے چور ہوچکے تھے۔ اُس آخری دن راشن ختم تھا۔ گنیں اور توپیں اپنی جگہ تعینات ہوئیں اور ہم آسمانوں کی طرف دیکھنے لگے۔ چائے ناشتے کی ہمارے پاس کوئی چیز نہ رہی تھی۔ اتنے میں کیا دیکھتے ہیں کہ دسمبر کی دھند کے بیچ میں سے چادریں اُوڑھے دیہاتی نمودار ہو رہے ہیں۔ سروں پر گرم دودھ سے بھرے تانبے کے مٹکے اور تھیلوں میں رس۔ کسی نے کچھ کہا نہیں تھا‘ خودبخود وہ لوگ آ رہے تھے۔ میرے لیے خاص مہر بانی کرتے ہوئے کچھ دیر بعد آملیٹ اور پراٹھے آ ئے۔ داستان سنانے کا مقصد یہ کہ عسکری ناکامی اور شکست کے باوجود لوگوں کی یہ کیفیت تھی‘ افواج کے ساتھ ایک والہانہ قسم کی عقیدت۔
جنگ بندی اُسی دن ہوگئی اور مجھے آرڈر ہوا کہ اپنے کارواں کو لاہور کے پرانے والٹن ایئرپورٹ پر لے جاؤں۔ ایئرپورٹ کے رَن وے پر بم گرنے سے ایک گہرا گڑھا بن گیا تھا۔ رَن وے کے اردگرد توپیں ڈپلائے ہوئیں اور کچھ ایک ماہ سے زائد عرصہ ہم وہیں رہے۔ شام ہوتی تو یوں لگتا کہ سارے گلبرگ کے لوگ اُمڈ کر والٹن ایئرپورٹ آ رہے ہیں کسی اور مقصد کیلئے نہیں‘ صرف ہماری توپوں کو دیکھنے۔ پیار بھری نظروں سے لوگ ہمیں دیکھتے اور ہمدردی کا اظہار کرتے کہ جنگ تم ہارے نہیں تمہیں ہرایا گیاہے۔ لوگوں کے یہ جذبات تھے۔ تب تک جنرل یحییٰ خان اور اُن کا ٹولہ سبکدوش ہو چکا تھا اور خاص طور پر جنرل یحییٰ کی رنگ رلیوں کی کہانیاں اخبارات اور رسائل کی زینت بن رہی تھیں۔ پر ہمیں کوئی طعنہ سننے کو نہ ملتاکہ دیکھو تمہارے بڑے کیا کررہے تھے۔ ہمارے لیے پیاروعقیدت کا اظہار ہوتا۔ میری عمر تب اکیس سال تھی لیکن اُن گنوں کو کمان کرتے دیکھ کر مجھ سے لوگ بڑی عزت سے پیش آتے۔ یہ درست ہے کہ پچھلی حکومت ہٹائے جانے کے بعد بدگمانیوں نے جنم لیا اور اُن کو ہوا ملی۔ بیان بازی میں الفاظ کچھ بھاری بھی استعمال ہونے لگے مگر یہ کیسے ممکن تھا کہ پاکستان کو دھمکیاں ملیں‘ جنگ کے بادل منڈلانے لگیں اور قوم اور افواج میں کوئی دوری برقرار رہے؟ سیاسی گلے شکوے اپنی جگہ لیکن بقا کا سوال اُٹھے تو کس کمبخت نے گلے شکووں کو یاد رکھنا ہے؟
پھر معرکہ بھی ہو چند روز کا اور واضح برتری ہمارے شاہینوں کی ہو‘ خون میں ایک تپش تو آئے گی اور جذبات ابھریں گے۔ جنگوں میں ایسا ہی ہوتا ہے۔ روس یوکرین جنگ میں دونوں اطراف لاکھوں افراد مارے گئے یا زخمی ہوئے لیکن روس میں ولادیمیرپوتن کی عوامی مقبولیت بڑھی ہے کم نہیں ہوئی۔ ولودیمیر زیلنسکی تھیٹر کا ایک کامیڈین تھا‘ حالات نے اُسے یوکرین کا صدر بنادیا۔ جنگ میں یوکرین کا بھاری نقصان ہوا ہے لیکن لوگ زیلنسکی کے پیچھے کھڑے ہیں۔ 1965ء میں لوگ بھول گئے کہ ایوب خان آمر ہے اور صدارتی انتخاب میں مادرِ ملت فاطمہ جناح کو دھاندلی سے ہرایا تھا۔ ہندوستانی حملہ ہوا تو سب چیزیں بھلا دی گئیں۔ نورجہاں اور کچھ دیگر گلوکاروں نے(اس ضمن میں نسیم بیگم کا نام یاد آتا ہے) اپنے نغموں میں ایسا سماں باندھا کہ وہ نغمے قوم کی یادوں کا حصہ بن گئے۔ پر جب 65ء کی جنگ میں سکواڈرن لیڈر ایم ایم عالم نے چند ہی لمحوں میں چار پانچ بھارتی جہاز گرائے یا کیپٹن شبیر شریف اور دوسرے جوانوں اور افسروں نے شجاعت کی داستانیں رقم کیں تو اس سے یہ مطلب نہیں اخذ کیا جاسکتا تھا کہ قوم نے فیلڈ مارشل ایوب خان کی بنیادی جمہوریت کے نظام کو قبول کرلیا ہے۔ ایوبی دور کی سیاست ایک طرف رہی اور قوم کو جو خطرہ لاحق ہوا اُس کے تقاضے اور تھے۔
1971ء کے حالات ہی ایسے تھے کہ جرمن فوج بھی ہوتی تو شکست سے دوچار ہوتی۔ اس کے باوجود جہاں جہاں بھی لڑائی ہوئی ہمارے جوانوں اور نوجوان افسروں نے بہادری کے ثبوت دیے۔ مشہور ہندوستانی صحافی کَرن تھاپر نے ایک انٹرویو میں فیلڈ مارشل سیم مانک شا جوکہ ہندوستانی فوج کے کمانڈراِنچیف تھے سے پوچھا کہ آپ اس لیے جیتے کہ پاکستان فوج نااہل ثابت ہوئی؟ فیلڈ مارشل کا جواب تھا ''نہیں‘ ایسا نہیں ہے۔پاک فوج بڑی بہادری سے لڑی لیکن اُن کے پاس کوئی چانس نہیں تھا۔ وہ اپنے بیس سے ہزار میل دور تھے اور میری برتری ایک کے مقابلے میں پچاس کی تھی‘‘۔ یہ ہوئی نا ایک سولجر کی بات جو اپنے مدمقابل کی تعریف کرسکتا ہے۔
کارگل معرکے سے بین الاقوامی طور پر پاکستان کو بہت نقصان پہنچا۔ معرکے کی بیوقوفی ایک طرف ر ہی لیکن کیپٹن کرنل شیرخان کی بہادری سے انکار ممکن ہے؟ اس دلیری سے لڑا کہ ہندوستانی افسر جو کچھ فاصلے سے لڑائی دیکھ رہے تھے دادِ تحسین دینے سے نہ رہ سکے۔ کیا غضب کی بات ہے کہ ایک ہندوستانی بریگیڈیئر نے ایک نوٹ لکھ کر شہید کیپٹن کی جیب میں ڈالا کہ اس کی بہادری لاجواب تھی۔
تو حیرانی کی بات کیا کہ پاکستان کو خطرہ لاحق ہو اور عوام اور فوج ایک مکے کی مانند ہو جائیں؟ جوانوں‘ افسروں اور پائلٹوں نے اپنی جانیں ہتھیلی پر رکھی ہوں اور قوم اُنہیں سلام نہ کرے؟ یہ کیسے ممکن ہے۔ ہندوستان کے ساتھ کرکٹ میچ ہو تو لوگوں کا پارہ پتا نہیں کہاں پہنچ جاتا ہے‘ ملکی بقا داؤ پر لگی ہو تو سوچنا مشکل نہیں کہ کیفیت کیا ہوگی۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہ لیا جائے کہ ہمارے طیارے ہندوستان کے رافیل طیارے گرائیں اور پاکستانی قوم کا حسِ مزاح ختم ہو جائے اور وہ قاضی فائز عیسیٰ پر ہنسنا بند کر دیں۔ معرکہ ہمارے ہواباز ماریں اور قوم پر لازم کر دیا جائے کہ قمر جاوید باجوہ کومحسنِ ملت کا درجہ دے دیا جائے۔ یا حب الوطنی کا نیا تقاضا یہ بن جائے کہ قوم کو ماننا پڑے کہ اس چار روز معرکے میں ساری پلاننگ میاں صاحب کی زیرنگرانی کی گئی تھی۔ جنگ عظیم دوم میں ونسٹن چرچل کی اولاد نے کبھی نہیں کہا تھا کہ ہر محاذ پر ساری پلاننگ پاپا کی تھی۔ اور یہاں ہمیں یہ بھی بتایا جا رہا ہے کہ جے ایف تھنڈر کی مینوفیکچرنگ بھی حضور کا ہی کارنامہ ہے۔ معرکہ ہندوستان سے اس نوعیت کی اور روایتی مضحکہ خیزی سے باز نہ رہا جاسکے۔
یہ سطور لکھی جا رہی تھیں کہ بہت ہی بڑی خبر آئی کہ جنرل سید عاصم منیر کو وفاقی حکومت نے فیلڈ مارشل کا اعزاز عطا کر دیا ہے۔ یقینا یہ ایک بڑی خبر ہے جس پر کسی تبصرے کی ضرورت نہیں؛البتہ مستقبل کے کئی زاویوں پر روشنی کی پہلی کرنیں نظر آنے لگتی ہیں۔