ہر ملک‘ ہر قبیلے کو اپنے دفاع کا اختیار ہے۔ یہاں تک تو ٹھیک لیکن یہ جو جنگی اور جنونی ماحول پاکستان اور ہندوستان میں پیدا ہوتا رہتا ہے کبھی دل کو نہیں بھایا۔ بڑا تنازع تو ہماری قوموں میں تقسیمِ ہند کا تھا‘ جب تقسیم ہو گئی تو آپس میں امن اور شانتی سے رہنے کے ڈھنگ سیکھنے چاہئیں تھے۔ وہ ہم سے ہوئے نہ اور یہ ہم دونوں ممالک کا المیہ ہے۔
مانا کہ کشمیر کا تنازع ہمارے درمیان کھڑا ہے لیکن ستتر سال بعد اتنا تو سمجھ آ جانا چاہیے کہ کشمیر کا مسئلہ زورِ بازو سے حل نہیں ہو سکتا۔ کبھی کوئی امن کا سمجھوتا ہوا بھی تو موجودہ لائن آف کنٹرول کو بنیاد رکھ کر ہی ہو گا۔ اگر دونوں اطراف کچھ سمجھ رکھنے والے حضرات یہ جان چکے ہیں تو پھر ایسے حل کی طرف جانا چاہیے جہاں لائن آف کنٹرول کے ہوتے ہوئے بھی آنا جانا اور تجارت آسان ہو جائے۔ کارگل اور لیہہ سے لے کر سیالکوٹ اور جموں تک کراسنگ پوائنٹ ہوں جہاں دونوں اطراف سے کشمیر کے بسنے والے آ جا سکیں اور پاکستانی اور بھارتی شہریوں کیلئے بھی کشمیر کے دونوں حصوں میں جانا آسان ہو۔ سپیشل سٹیٹس اُس کشمیر کا بھی رہے اور اِس طرف کے کشمیر کا بھی۔ ایسا اگر ہو تو دونوں اطراف فوجوں کی ڈپلائمنٹ کم ہو جائے۔ لیکن لگتا نہیں کہ اگلے پچاس سالوں میں بھی ایسا ہو سکے۔
پر ایسا کون کرے گا؟ یہ ہماری بدبختی ہے خاص کرکے تاریخ کے تناظر میں کیونکہ تمام تفرقات کے باوجود مغل سلطنت کے نتیجے میں ہندوستان میں ایک مشترکہ تہذیب جنم لے چکی تھی۔ اکبر اعظم کے زمانے میں کئی مغل فوجوں کی کمان راجہ مان سنگھ جیسوں نے کی اور گو انگریزوں کی لکھی گئی تاریخوں میں اورنگزیب کو ایک متعصب حکمران گردانا گیا ہے مگر اصل میں اورنگزیب کے دربار میں ہندوؤں اور ہندو راجپوتوں کی تعداد اچھی خاصی تھی۔ تاریخ میں تو یہ بھی درج ہے کہ اورنگزیب کے زمانے میں ہندو منصب داروں کی تعداد اکبر کے دور سے زیادہ تھی۔ پروفیسر عرفان حبیب‘ جو بہت ہی ممتاز تاریخ دان ہیں‘ کہتے ہیں کہ اورنگزیب کے زمانے میں کسی ایک یورپ کے سیاح یا محقق نے ہندو آبادی پر ظلم کا قصہ بیان نہیں کیا۔ ایسی کہانیوں نے بہت بعد میں جنم لیا۔
جس تہذیب کا نقطۂ عروج بہادر شاہ ظفر کا دربار یا بہادر شاہ ظفر کی دِلّی تھی‘ اُس میں مسلمان اور ہندو شانتی سے رہتے تھے۔ زبانِ اُردو عام ہو چکی تھی اور دِلی اور دربار میں یہی بھاشا تھی۔ اُس تہذیب کے جو بڑے نمائندے تھے اُن میں مرزا غالب کا نام سرفہرست ہے۔ غالب میں کوئی تعصب تھا؟ اُن کی شاعری میں کوئی ایسی چیز ملتی ہے؟ یہ المیہ تو 1857ء کے اُس غدر سے پیدا ہوا کہ انگریزوں کے خلاف اُن کی اپنی بھرتی کی ہوئی فوج کھڑی ہو گئی اور اُس بغاوت کی ناکامی کی پاداش میں انگریزوں نے دِلی اور اُس کے باشندوں پر ظلم وبربریت کے پہاڑ توڑے گئے۔ وہ تہذیب جو مسلمان اور سنسکرتی اثرات کا ایک حسین امتزاج تھی وہ ان واقعات کے نتیجے میں تباہ ہو گئی۔ اور پھر ہندو مسلم خلیج بڑھتی گئی اور حکمران ہونے کے ناتے انگریزوں کا مفاد اسی میں تھا کہ وہ اس خلیج کو بڑھائیں اور مسلم ہندو تنازعات سے فائدہ اٹھائیں۔
جو بھی ہوا اور جیسا بھی ہوا دو آزاد مملکتیں تومعرضِ وجود میں آ گئیں۔ یہ تب کے لیڈروں کی تصوراتی ناکامی تھی کہ وہ سمجھ نہ سکے کہ تقسیمِ ہند کے نتیجے میں پنجاب کی تقسیم بھی ناگزیر ہو گی۔ لیکن آج کے پاکستانی اور ہندوستانی بھول جاتے ہیں کہ پنجاب میں غارت گری اور دونوں اطراف سے قتلِ عام کے باوجود اُن شروع کے سالوں میں دونوں ممالک کے درمیان آمدو رفت آسان تھی‘ تجارت چل رہی تھی‘ میل جول ہوتا تھا۔ حکومتیں آپس میں بات کرتی تھیں۔ اُس زمانے کی ہم نے کچھ تصاویر دیکھی ہیں کہ پاکستانی سفارت خانہ دِلی میں کوئی تقریب ہوئی اور ہندوستانی وزیراعظم پنڈت جواہر لال نہرو وہاں موجود ہیں۔ اور یہ بھی تو ہوا جو بہت کم پاکستانیوں کو معلوم ہے کہ 1955ء میں ہندوستان کے یومِ جمہوریہ کے مہمانِ خصوصی پاکستان کے گورنرجنرل غلام محمد تھے۔
65ء کی جنگ کو چھوڑیے‘ 71ء میں جو ہونا تھا ہو گیا‘ جیسا ہمارے دوست رؤف کلاسرا نے چند روز پہلے لکھا کہ مشرف دور میں ایک بار پھر ہم دونوں ممالک میں آنا جانا ہو گیا تھا۔ ہمارے دوست امتیاز عالم کی زیر صدارت سیفما (Safma) نے اُس زمانے میں اسلام آباد میں ایک سیمینار ترتیب دیا تھا جس میں ہندوستانی صحافت کے کتنے ہی بڑے نام آئے۔ اسلام آباد کے میریٹ ہوٹل میں جنرل مشرف خود تشریف لائے‘ خطاب کیا اور پھر سوال جواب کی ایک لمبی نشست ہوئی۔ کلاسرا کہتے ہیں کہ کشمیر پر چھپ چھپا کر بات چیت بھی ہو رہی تھی اور دونوں ممالک سمجھوتے کے قریب پہنچ چکے تھے لیکن بیچ میں وکلا تحریک کھڑی ہو گئی‘ چند ماہ بعد لال مسجد آپریشن بھی ہو ا اور بات وہیں ٹھپ ہو گئی۔
یہ بھی کہا جاتا ہے کہ باجوہ کے زمانے میں ہندوستان سے پیچھے پیچھے بات ہو رہی تھی اور کشمیر پر کچھ ہو بھی جاتا اگر باجوہ صاحب کے اقتدار کا سورج غروب نہ ہوتا۔ میرے ساتھ جو واقعہ پیش آیا‘ ہمارے ایک نظریاتی محافظ مجھے لاہور میں ملے۔ چائے پیسٹری کے بعد اُنہوں نے بغیر لگی لپٹی کے کہا کہ باجوہ پر ہاتھ ہولا رکھیں۔ میری آنکھوں میں تعجب دیکھا تو ازراہِ وضاحت کہا کہ بہت اچھے کام ہو رہے ہیں۔ اشارہ ہندوستان کی طرف تھا کہ بہتری کی امید پیدا ہو رہی ہے۔ کچھ روز بعد ایک ناپسندیدہ تقریر کی پاداش میں سرِ بازار ہمارے گریبان پر ہاتھ تو ڈالا گیا لیکن یہ الگ بات ہے۔ ہندوستان سے بہتری کے امکانات تھے تو پورے ہونے چاہئیں تھے۔ یہ خواہ مخواہ کا آپس کا تکرار ہم نے کیوں کھڑا کیا ہوا ہے؟
فوجوں کا ہونا ضروری ہے اور یہ بات باعثِ اطمینان ہے کہ ہماری فوج مضبوط ہے۔ ایٹمی صلاحیت کا حصول بھی ایک بڑی بات ہے۔ اتنا کچھ ہے تو بہتر تعلقات کا حوصلہ بھی پیدا ہو۔ یہ دلیل دونوں اطراف فِٹ ہوتی ہے۔ جس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ اُن کے سامنے ہم لیٹ جائیں۔ لیکن سچ تو یہ ہے کہ کوئی دماغ سے فارغ ہندوستانی بھی نہیں سوچ سکتا کہ پاکستان کبھی ہندوستان کے سامنے لیٹ سکتا ہے۔ ہندوستانی ذہنوں میں بڑے خلل ہوں گے لیکن ایسی کوئی خام خیالی نہیں۔ تو پھر بتائیے یہ ہنگامہ کیا ہے؟ نارمل تعلقات ہوں جیسا کہ بیشتر ممالک کے ایک دوسرے کے ساتھ ہیں۔ سیاحت ہو‘ آنا جانا آسان ہو‘ تجارت کا فروغ ہو۔ پاکستان اور ہندوستان کی تجارت کا بند ہونا بے وقوفانہ عمل ہے۔ کشمیر کے اپنے مؤقف سے ہم نہ ہٹیں لیکن باقی چیزیں تو چلتی رہیں۔ لائن آف کنٹرول کے دونوں اطراف کشمیریوں کی زندگیاں کچھ آسان ہوں۔ کشمیریوں کا آپس میں آنا جانا بڑھے تو لامحالہ مقبوضہ کشمیر میں ہندوستانی فوج کے ظلم وجبر میں کچھ کمی آئے۔
ایک بات تو کبھی سمجھ نہ آئی کہ ہم بھول کیوں جاتے ہیں کہ جتنے مسلمان یہاں ہیں اتنے ہی ہندوستان میں بستے ہیں۔ اُن کیلئے کیا بہتر ہے کہ آپس میں لڑتے رہیں اور ٹی وی چینلوں پر جنونی کیفیت طاری رہے یا تعلقات کی حرارت کچھ نیچے آئے؟ ہندوستان ہمیں کھا نہیں سکتا نہ ہم ہندوستان کو‘ عقل کا درمیانی راستہ نکالنے کی کوشش کیوں نہیں کی جاتی؟