جنہیں انگریزی میں گراؤنڈ رُولز کہتے ہیں وہ بدل چکے ہیں۔ اور یہ سارا کچھ پچھلے دو اڑھائی سال میں ہوا ہے۔ اپنے پورے آب وتاب سے آئین موجود ہے لیکن کسی کے لیے رکاوٹ یا مسئلہ نہیں بنا ہوا۔ عدالتیں موجود ہیں لیکن بغیر کسی پی سی او کے نفاذ کے ایوانانِ اقتدار کیلئے کوئی مسئلہ نہیں رہیں۔ جو عدالتوں کو رام کرنے کے لیے کرنا تھا وہ چھبیسویں آئینی ترمیم کے ذریعے ہوگیا ہے۔ کوئی پریس اینڈ پبلی کیشن آرڈیننس نافذ نہیں لیکن حکمرانی کی راہ میں نہ اخبارات رکاوٹ ہیں نہ درجنوں کی تعداد میں ٹی وی چینل۔ سب کو سمجھ آ گئی ہے کہ کس راستے پر چلنے میں عافیت ہے۔ احتیاط کے پیچھے جو اصول کارفرما ہوتے ہیں وہ سب سمجھ چکے ہیں۔ سوشل میڈیا ایک پرابلم تھا کیونکہ اس بلا کا پھیلاؤ تو آسمانوں تک ہے لیکن کچھ قانون سازی سے‘ کچھ دیگر اقدامات سے سوشل میڈیا پر بھی جو نظم وضبط لانا مقصود تھا بہت حد تک حاصل ہو چکا ہے۔ کچھ سوشل میڈیا والے باہر جاچکے ہیں اور کافی ساروں نے احتیاط کے اصول سمجھ لیے ہیں۔
بیشتر عوام کو بات سمجھ نہیں آئی اور بہت کچھ ہو بھی چکا۔ شاید یہ کسی پلاننگ کے ذریعے نہیں ہوا‘ بس حالات ایسے بنتے گئے کہ جو نظم وضبط سیاست پر لاگو کرنا تھا وہ لگ چکا بغیر کسی ضیا الحقی تردد کے۔ ظاہر ہے کوئی مارشل لاء نافذ نہیں لیکن سمجھنے والے بہت کچھ سمجھ چکے ہیں۔ خوبصورتی کی بات یہ ہے کہ قومی اسمبلی ہے‘ سینیٹ ہے‘ صوبائی حکومتیں ہیں‘ دھواں دار تقریریں بھی ہوتی ہیں لیکن حالات کچھ یوں بن چکے ہیں کہ یہ سب لوازمات موجود ہوں یا نہ ہوں‘ کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ہاں دکھاوے میں فرق پڑتا ہے کیونکہ ان سب چیزوں کے ہونے سے تاثر یہی ملتا ہے کہ امن ہے‘ شانتی ہے‘ اور بھلے داغدار جمہوریت ہو‘ جمہوریت قائم تو ہے۔
اپنے اقتدار کو کچھ رنگ روغن لگانے کے لیے جنرل ضیا الحق کو دسمبر 1984ء میں ایک ریفرنڈم کرانا پڑا جو مذاق ہی بنا کیونکہ اُس مشق میں یہ انوکھی شرط لگائی گئی کہ اگر آپ اسلام کے حامی ہیں تو اگلے پانچ سال کیلئے جنرل محمد ضیا الحق اسلامی جمہوریہ پاکستان کے صدر ہوں گے۔ مذاق کی نوعیت یہ تھی۔ پھر اگلے سال یعنی 1985ء میں غیر جماعتی بنیادوں پر اُنہوں نے قومی انتخابات بھی کرائے۔ اب کا حسنِ اتفاق دیکھئے کہ نہ ریفرنڈم کی ضرورت نہ غیر جماعتی بنیادوں پر الیکشن کرانے کی۔ محسنِ قوم قاضی فائز عیسیٰ نے اور تو ہر بات مانی لیکن اس بات پر اٹکے رہے کہ آئین کے تحت آپ کو الیکشن تو کرانے ہیں۔ جو آسانیاں وہ پیدا کر سکتے تھے اُنہوں نے کیں جیسا کہ بَلّے کے نشان کو تحریک انصاف کے کھاتے سے سرے سے نکال دیا‘ اس امید سے کہ بلّے کے جانے سے پی ٹی آئی کے ووٹ ادھر اُدھر ہو جائیں گے۔ بہرحال جو بھی آسانیاں پیدا کی گئیں الیکشن تو کرانے پڑے لیکن جس دن ووٹ ڈلے اور عظیم پاکستانی قوم نے اپنا حقِ انتخاب استعمال کیا اُس شب اور اُس کی طویل رات کے دوران ایسے جمہوری کرشمات ظہور پذیر ہوئے کہ قوم ماضی کے تمام ایسے تجربات بھول گئی۔ اُس رات قوم پر یہ راز کھلا کہ فارم 47 بھی کوئی چیز ہوتی ہے اور ایسی چیز جو دیگر تمام کاغذات پر حاوی ہوتی ہے۔ اُسی فارم 47 کے انقلاب کے نتیجے میں حکومتیں قائم ہیں‘ اسمبلیاں چل رہی ہیں‘ نظام انصاف بھی چل رہا ہے اور یوں داغدار جمہوریت ہی سہی‘ دکھاوے کی جمہوریت تو نظر آتی ہے۔ اوپر سے ہندوستان سے تین چار روزہ معرکے کے نتیجے میں جذبہ و جنوں کی ایک ایسی فضا پیدا ہو ئی کہ بہت ساری سیاسی حقیقتیں اوجھل ہو گئیں اور جو ملا جلا نظام چلایا جا رہاہے اُسے ایک بہت زبردست قسم کی نفسیاتی تقویت ملی۔
ایک اچھا کام جو موجودہ حکمرانوں نے اپنے لیے کیا ہے وہ ایک ہونہار وزیر خزانہ کو چننا ہے۔ جب سے پرانی حکومت گئی اور قائم مقام آئے اور پھر یہ فارم 47 والا عجوبہ معرضِ وجود میں آیا‘ وزیر خزانہ وہی چل رہا ہے۔ زیادہ تقریریں کیے بغیر وزیر موصوف اپنے کام میں لگے ہوئے ہیں اور بھلے بنیادی معاشی حقائق میں کوئی تبدیلی نہ آئی ہو‘ اعداد وشمار تو کچھ بہتر ہوئے ہیں۔ یعنی معیشت میں کچھ استحکام آیا ہے۔ اور ظاہر ہے اس کا کریڈٹ موجودہ حکمرانوں کو جاتا ہے۔ حکمرانوں سے مراد شہباز شریف اور اُن کی کابینہ نہیں‘۔ نواز شریف وزیراعظم تھے تو اسحاق ڈار سے کبھی چھٹکارا حاصل نہ کر سکے۔ سمدھی پن بیچ میں آ جاتا تھا۔ عمران خان اپنے پورے دورِ اقتدار میں ڈھنگ کا وزیر خزانہ نہ چن سکے اور یہ اُن کے لیے ایک بڑی کمزوری ثابت ہوئی۔ محمد اورنگزیب کے بارے میں آپ یہ دیکھ سکتے ہیں کہ اُن پر براہ راست تنقید بہت کم ہوتی ہے کیونکہ اپنے کام کو ایک اسلوب سے چلا رہے ہیں۔ اس سے ہٹ کر استحکام کی بڑی وجہ یہ ہے کہ مقتدرہ نظام کے پیچھے ہے۔ پیچھے بھی کیا‘ مقتدرہ ہی نظام ہے۔ باقی تو دکھاوا ہے۔ نظام کو ٹھہراؤ وہاں سے مل رہا ہے۔
ہماری تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ کوئی بڑا حادثہ نہ ہو تو جیسا بھی نظام ہو‘ چلتا رہتا ہے بشرطیکہ مقتدرہ اُس نظام کے ساتھ ہو۔ یہ بنیادی شرط ہے۔ کچھ حادثات ایسے ہوتے ہیں جیسا کہ ایوبی دور میں 1965ء کی جنگ کا چھڑ جانا یا مشرف دور میں وکلا تحریک کا اچانک اُبھرنا۔ اور ایک بڑا حادثہ ہوتا ہے طوالتِ اقتدار۔ اُسی چہرے کو یا اُنہی چہروں کو دیکھ دیکھ کر عوام الناس اور اوپر کے حلقوں میں بھی ایک اُکتاہٹ سی پیدا ہونے لگتی ہے اور ایسی چہ مگوئیاں شروع ہو جاتی ہیں کہ فلاں چہرہ قوم کی جان کب چھوڑے گا۔ موجودہ اقتدار والے اس نہج کو ابھی نہیں پہنچے۔ بہرحال اہم قومی کرداروں میں ایک تبدیلی تو رونما ہو چکی ہے۔ قومی سیاست کے سٹیج سے نواز شریف کا عملاً ایگزٹ ہو گیا ہے۔ کہنے اور کرنے کے لیے اُن کے پاس اب کچھ نہیں رہا۔ اُن کا آخری بڑا کام اکتوبر‘ نومبر 2022ء میں اعلیٰ عہدے کا چناؤ تھا۔ وہ ایک بنیادی فیصلہ تھا اور جب وہ ہو گیا تو میاں صاحب کی پھر اتنی ریلیونس (relevance) نہ رہی۔ حالیہ پاک‘ ہند ٹکراؤ کے بعد جو ایوانِ صدر میں تقریب ہوئی اُس میں کئی چہروں پر جو خاص قسم کے تاثرات دیکھے جا سکتے تھے اُن کی وجہ بھی شاید یہی احساس تھا کہ وقت آگے گزر رہا ہے۔ اس احساس میں البتہ کوئی رونے کی بات نہیں‘ تاریخ اور وقت کے ایسے ہی بے رحم فیصلے ہوتے ہیں۔
زرداری صاحب کو ایک بات کا کریڈٹ جاتا ہے کہ اُنہوں نے اپنے بیٹے کی سیاسی تعلیم اچھی کی ہے۔ عمر زیادہ نہیں لیکن تجربہ خاصا مل رہا ہے۔ کہاں وہ شروع کی بے سروپا تقریریں جن میں چیخنا چلانا زیادہ ہوتا تھا اور کہاں اب کا نسبتاً ٹھہراؤ۔ حالیہ دورۂ امریکہ کے دوران انگریزی میں ایک دو ٹی وی انٹرویو دیکھے ہیں جن میں بلاول اچھا بولتا ہوا نظر آتا ہے۔ کچھ وزن کم ہوا ہے اور کچھ بال بھی نانا کی طرح بنتے جا رہے ہیں۔ ایک بات یاد رہے کہ جب تک موجودہ نظام قائم ہے سیاسی فیصلے فرسودہ طریقوں‘ یعنی عوام کے ووٹوں سے نہیں فارم 47 سے ہونے ہیں۔ یعنی کسی کا چناؤ ہونا ہے تو فیصلہ عوام کی عدالت کے بجائے کہیں اور ہو گا۔ (ن) لیگیوں کو یہ بات سمجھ آئے تو اُن کے لیے یہ خطرے کی گھنٹی ہے کیونکہ ان کے تقریباً سارے نوجوان رہنما آکسفورڈ قسم کی انگریزی تعلیم سے فارغ ہیں۔