کسی کی مجال کہ کوئی گستاخی کا مرتکب ہو۔ بس اتنی سی التجا ہے کہ ستائیسویں آئینی ترمیم‘ جس کا مسودہ سینیٹ میں پیش ہو گیا ہے نہایت ہی غیر ضروری عمل ہے۔قانونی ماہر تو ہم ہیں نہیں بس اتنی بات سمجھ آتی ہے کہ اس ترمیم کا ایک مقصد اعلیٰ عدلیہ یعنی سپریم کورٹ کو صحیح راستے پر ڈالنا ہے۔ اس مقصد کیلئے تجویز یہ ہے کہ ایک وفاقی آئینی عدالت بنے جس میں تمام حساس نوعیت کے آئینی معاملات دیکھے جائیں۔ اس سے بھی بڑا مقصد آئین کی شق 243 میں مجوزہ ترمیم ہے۔ جس سے عسکری اداروں کی کمان میں کچھ ردوبدل کا عندیہ دیا گیا ہے۔
آرٹیکل 243پہ تو بات بعد میں ہوتی ہے‘ پہلے آئینی عدالت کا معاملہ دیکھ لیں۔ ہماری بات کس نے ماننی ہے لیکن التجاعاً عرض کررہے ہیں کہ سپریم کورٹ مکمل اور مفصل طور پر صحیح راستے پر آ چکا ہے اور چھبیسویں آئینی ترمیم سے پہلے جو خدشات دھڑکتے دلوں میں پائے جاتے تھے وہ خدشات تو کب کے دور ہو گئے۔ چھبیسویں ترمیم پاس ہوئی اور جسٹس منصورعلی شاہ کا مسئلہ حل ہو گیا۔ چھبیسویں ترمیم سے ایک آئینی بینچ بھی تشکیل پا گیا اور جس قسم کے بھی آئینی معاملات تھے وہ اُس بینچ کے سامنے آ گئے‘ یعنی بہت ہی خوبصورت انداز سے سپریم کورٹ کے حوالے سے کوئی خطرہ باقی رہنے ہی نہ دیا گیا۔ آپ ہی پھر فرمائیں کہ اتنا کچھ ہونے کے بعد مزید کسی تردد کی کیا ضرورت رہ جاتی تھی؟ سپریم کورٹ نے کچھ کرنا ہوتا تو 2024ء کے انتخابات کے بارے میں کچھ کیا جاتا۔ لیکن عزت مآب چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے ہوتے ہوئے ایسا مسئلہ کہاں پیدا ہو سکتا تھا۔ اُن کے جانے کے بعد یہ خطرہ بجا تھا کہ جسٹس منصورعلی شاہ کے حوالے سے کچھ ہو جاتا لیکن چھبیسویں ترمیم کا کچھ ایسا کرنا تھا کہ نہ رہا بانس نہ بجی بانسری۔ جسٹس شاہ کا مسئلہ ہی گول ہو گیااور ایک نئے چیف جسٹس عہدۂ جلیلہ پر براجمان کر دیے گئے۔ اُن کے آتے جیسا کہ ہم دیکھ رہے ہیں انصاف کے تقاضے پورے کیے جار ہے ہیں کہ شکایت کی کوئی گنجائش نہیں رہی۔ استدعا پھر وہی ہے کہ ایسی صورتحال میں جب تمام متوقع خطرات کا راستہ بااحسن خوبی بند کر دیا گیا ہے تو مزید تردد کی کچھ ضرورت نہیں رہتی۔ بہرحال آپ بادشاہ ہیں‘ جو چاہیں کرسکتے ہیں۔ ہمارا کام تھا بتاناکہ ستائیسویں ترمیم بھاری بھرکم تالوں پر مزید تالہ لگانے کے مترادف کارروائی لگتی ہے۔ اس سے کیا حاصل ہوگا جو پہلے حاصل نہیں ہوسکا؟
شق 243کے بارے میں ہماری پوزیشن بھی وہی ہوسکتی ہے جو کمال دانشمندی دکھاتے ہوئے پیپلز پارٹی کی پوزیشن ہے۔ NFCایوارڈ اور اُس کے بارے میں جو خبریں اُڑرہی تھیں کہ اُس میں تبدیلیاں کی جا رہی ہیں اُن کے بارے میں پیپلز پارٹی نے اپنا مؤقف واضح کیا اور واشگاف الفا ظ میں کہا کہ صوبائی خودمختاری پر کوئی حرف آئے گا تو پیپلز پارٹی اُس کے خلاف ہوگی۔ لیکن اُسی سانس میں پیپلز پارٹی کا یہ مؤقف بھی سامنے آیا کہ شق 243کی مجوزہ ترمیم کے مکمل حق میں وہ ہے۔ جہاں اتنا مدبرانہ مؤقف اپنایا گیا ہے ہم کون ہیں اُس کے بارے میں کچھ کہیں۔ شق 243 کی ترمیم میں یہ درج ہے کہ چیئرمین جوائنٹ چیف آف سٹاف کمیٹی کا عہدہ ختم ہوتا ہے اور اُس کی جگہ آرمی چیف اپنے عہدے کے ساتھ چیف آف ڈیفنس فورسز بھی کہلائیں گے۔ مزید یہ کہ فوج میں سے اگر کسی شخص کو فیلڈ مارشل کا عہدہ دیا جاتا ہے تو وہ عہدہ معہ تمام مراعات تاحیات رہے گا اور ایسا شخص تاحیات یونیفارم میں رہے گا۔یہ تبدیلی 27نومبر2025ء کو عمل میں آئے گی یعنی ٹھیک3 سال بعد اُس تاریخ سے جب حال فیلڈ مارشل آرمی چیف کے عہدے پر تعینات ہوئے تھے۔ اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ اُن کی تعیناتی بطور چیف آف ڈیفنس فورسز27نومبر2025ء سے شروع ہو گی۔ پانچ سال کی معیاد تو چھبیسویں ترمیم میں تعین کی جا چکی ہے۔ جس کا مطلب ہے کہ مملکت اسلامیہ کو مجوزہ چھبیسویں ترمیم کے ناتے 2030ء تک احساسِ تحفظ رہے گا۔ تاحیات یونیفارم میں رہنے والا قاعدہ صرف کسی فیلڈ مارشل تک محدود نہیں ہوگا بلکہ کوئی مارشل آف دی ایئرفورس یا ایڈمرل آف دی فلیٹ مقرر ہو تو وہ عہدہ معہ سہولیات تاحیات برقرار رہے گا۔ اس ضمن میں یہی التماس کی جاسکتی ہے کہ موجودہ ایئرچیف کوجلد مارشل آف دی ایئرفورس مقررہونا چاہیے اور موجودہ امیرِبحریہ کو جلد ایڈمرل آف دی فلیٹ کا عہدہ ملنا چاہیے۔ شق میں یہ تشریح بھی موجود ہے کہ فیلڈ مارشل‘ مارشل آف دی ایئرفورس اور ایڈمرل آف دی فلیٹ کیونکہ قومی ہیرو مانے جائیں گے‘ اُن کو عہدہ سے نہیں ہٹایا جاسکے گا۔ ہماری دانست میں یہ احتیاط بھی کچھ غیر ضروری لگتی ہے کیونکہ قومی ہیرو ہونے کا اعزاز ہو تو کس کمبخت کی مجال کہ وہ ہٹانے کا سوچے بھی۔ بہرحال یہ نازک مسئلے ہیں اور ہم جیسو ں کی رائے کا کوئی وزن نہیں۔
ان بہت ہی خوبصورت ترامیم کے بعد قوم کو یہ جاننے میں کوئی ہچکچاہٹ نہیں ہونی چاہیے کہ موجودہ آئین کو 73ء کا آئین کہنا ایک تکلف ہی رہ گیا ہے۔ اس بے چارے آئین کے ساتھ پہلے ہی بہت ہو چکا ہے لیکن چھبیسویں ترمیم اور پھر اس ترمیم کے بعد اس آئین نے کچھ اور حلیہ ہی اختیار کر لیا ہے۔ ہمارے آئین مرتب کرنے والے بڑے بھولے اور سادہ ثابت ہوئے ہیں۔ آئین میں اُنہوں نے جو فصیلیں کھڑی کی تھیں وہ الفاظ پر مبنی تھیں۔ یعنی شق 6جو آئین سے غداری اور اُس پر سزا کے بارے میں ہے‘ ڈال کر آئین بنانے والوں نے یہ سمجھا کہ اُنہوں نے بڑا تیر مار لیا ہے اور اس شق کے ہوتے ہوئے آئین اور آئینی حکمرانی سے کھلواڑ کرنے کا راستہ ہمیشہ کیلئے بند ہوگیا ہے۔ جنرل ضیا الحق نے 5جولائی 1977ء کو جب آئین پر چڑھائی کی تویقین سے کہا جاسکتا ہے کہ شق 6پڑھنے کی زحمت اُنہوں نے گوارا نہ کی ہوگی۔ ایک دفعہ آئین کے بارے میں کسی نے سوال اٹھایا تواُنہوں نے وہ نہ بھولنے والے الفاظ ادا کیے کہ آئین چند صفحات کا کتابچہ ہے جسے جب چاہوں پھاڑ سکتاہوں۔ اپنی دورِ حکمرانی میں اُنہوں نے کچھ ایسا ہی ثابت کیا۔
نصرت بھٹو کیس میں جب چیف جسٹس انوارالحق نے فیصلہ لکھ دیا اُسی رات ایک دعوت تھی جس میں تب کے اٹارنی جنرل شریف الدین پیرزادہ نے چیف جسٹس صاحب سے پوچھا کہ فیصلے میں چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر کو آئین میں ترمیم کرنے کا حق تو ضرور دیا ہوگا۔ گھبرا کر چیف جسٹس نے کہا کہ ایسا تو کچھ نہیں کیا اور شریف الدین پیرزادہ نے کہا کہ ایک پی سی او آ رہا ہے جس میں جج صاحبان کو نیا حلف لینا ہوگا۔ دعوت سے چیف جسٹس سیدھا سپریم کورٹ گئے جو تب پشاور روڈ راولپنڈی پر واقع تھی۔ دفتر کھلوایا‘ ٹائپ شدہ فیصلہ منگوایا اور مارجن میں ہاتھ سے لکھا کہCMLA کو انتخابات منعقد کرنے کی خاطر آئین میں ترمیم کرنے کا حق دیا جاتا ہے۔ ہماری آئینی تاریخ کچھ ایسی ہی ہے۔
چیئرمین جوائنٹ چیف آف سٹاف کمیٹی کے عہدے کا بھی ایک بیک گراؤنڈ ہے۔ 73ء کے آئین میں یہ نیا عہدہ بنایا گیا تھا۔ اس غرض سے کہ آرمی چیف کے عہدے کی وقعت کو کچھ کم کیا جائے۔ مقصد حاصل نہ ہوا کیونکہ ذوالفقارعلی بھٹو کی زندگی میں ہی طاقت کا سرچشمہ پرانا عہدہ ہی رہا۔ ستائیسویں ترمیم سے چیئرمین کے عہدے کا تکلف تاریخ کے کوڑے دان میں ڈالا جا رہا ہے۔