ماسوائے اُن بخت آوروں کے جن کو بنا بنایا سکرپٹ ملتا ہے‘ ہائی فائی میٹنگ یا انٹرویو کے لیے‘ باقی سب کے لیے قومی مسائل پر لکھنا تقریباً ناممکن ہو گیا ہے۔ مثال کے طور پر لوگوں کا اصل مسئلہ اس وقت آٹاہے‘ روٹی ہے۔ پاکستان میں جس کے پاس روٹی ہو وہ گڑ‘ چٹنی‘ مولی یا پانی کے ساتھ بھی کھا سکتا ہے لیکن اگر روٹی ہی کم یاب یا نایاب ہوتے ہوتے آسمانی تارہ بن جائے تو لوگ کھائیں گے کیا؟
اگرچہ ایک خاتون وزیر نے عوام کو مشورہ دیا ہے کہ وہ دو روٹی کے بجائے ایک روٹی کھائیں یا بسکٹ کھا لیں‘ بندہ سلِم رہتا ہے۔ یہ سلِمنگ والی راج نیتی بھی سائفر کی کزن لگتی ہے۔ ایک بہت محترم صحافی جو آج کل ٹی وی سے بھی وابستہ ہیں‘ اگلے دن کہہ رہے تھے کہ مشکل سے مشکل حالات میں بھی اتنی گھٹن اور سنسر شپ نہیں دیکھی۔ پتا نہیں چلتا کیا کہنے کی اجازت ہے اور کیا نہیں۔ پاکستان دنیا کا واحد ایسا ملک ہے جہاں آٹے کی تھیلی کے لیے سات بچوں کے ایک باپ نے اپنی جان لڑا کر موت کو گلے لگا لیا۔ اُسی صوبے کے حکمران 46 رکنی Image Building Team کے ساتھ سوئٹزرلینڈکے دورے کر رہے ہیں۔ ظاہر ہے مرکزی حکومت میں بھی ان کی شراکت داری ہے۔ بلوچستان میں آٹے کی جدوجہد میں دھکے اور مار کھانے والے ایک مظلوم نے دل دہلا دینے والا یہ جملہ کہا کہ ''حکومت ہم سب کو مار دے‘ اگر ہم زندہ رہے تو آٹا مانگنا پڑے گا‘‘۔
75 سال میں پاکستان نے دو ڈکلیئرڈ شدہ جنگیں بھارت سے لڑی ہیں۔ تین جنگیں غیر اعلانیہ کہہ لیں۔ افغانستان کے ساتھ پاوِندہ جنگ‘ رَن آف کَچھ اور کارگل۔ 1965ء اور 1971ء کی جنگوں میں بھی آٹا کبھی غائب نہیں ہوا۔ کھاد‘ آلو‘ مرغی لوگ کیا کیا چھوڑیں گے۔ کھاد کے بغیر اناج اگائے گا کون اور اناج کے بغیر کوئی کھائے گا کیا؟
ان دنوں دو کانفرنسیں ہوئی ہیں‘ ایک میں بھارت شریک ہوا اور دوسری میں پاکستان شریک ہوا۔ بھارت کی اکانومی سب ملا کر 530 ارب ڈالرز بنتی ہے۔ ہمارے زرمبادلہ کے ذخائر سب ملا کر 4.5 ارب ڈالرز پر پہنچ چکے ہیں۔ بھارت کے کسی سیاستدان اور حکمران کے پاس اتنے اثاثے نہیں ہیں جو ہمارے سیاست کاروں کے پاس ہیں۔ ایسے ایسے لوگوں کے اثاثے نہ جن کا کوئی مستقل پیشہ ہے‘ نہ پروفیشن ہے اور نہ ہی کسی معروف ذریعے کی آمدنی۔ کو ن ہے جو نہیں جانتا کہ کیا ہو رہا ہے؟ خرابی اصلاح کا بارڈر کراس کر چکی ہے مگر ایلیٹ مافیاز کے لیے سب اچھا ہے۔ جو دو کانفرنسز ہوئی ہیں ان میں سے پہلی کانفرنس ان ممالک کی ہے جنہوں نے کم از کم ایشیا کی حد تک اپنے گلے سے ڈالر کی رسی کا پھندا تڑوا لیا ہے جس کا تازہ ترین ثبوت Brics کانفرنس سے ملتا ہے۔ یہ اصطلاح سال 2001ء میں ممتاز معیشت دان Jim o Niell نے ایجاد کی جس کا مقصد آگے بڑھتی ہوئی معاشی طاقتوں پر روشنی ڈالنا تھا۔
اس کا تازہ اجلاس سال 2022ء کے آخر میں عوامی جمہوریہ چین میں منعقد ہوا۔ اس کی میزبانی چین کے صدر شی جن پنگ نے کی جبکہ سائوتھ افریقہ کے صدر سیرل راما فوسا‘ انڈین پرائم منسٹر نریندر مودی‘ روس کے صدر ولادیمیر پوتن اور برازیل کے صدر Jair Bolsonaro اس میں شریک ہوئے۔ ستمبر 2009ء میں بننے والی یہ تنظیم اب 13 سال کی ہو چکی ہے۔ تنظیم کی بنیاد یونائیٹڈ نیشن جنرل اسمبلی کے 61 ویں سیشن میں ہوئی اور اسے Inter- Governmental Organization قرار دیا گیا۔ اسی سال چین نے اپنے سب سے بڑے صنعتی شہر شنگھائی میں اس کا ہیڈ کوراٹر برکس ٹاور کے نام سے بنا ڈالا۔ پانچ حکومتی تنظیم کی ممبر ریاستوں نے بین الاقوامی سیاست/ معیشت کو بدل دینے کے لیے تنظیم کی بنیاد رکھی تھی۔ اور 2021ء کے سال میں واقعی اس بنیاد پر Asian Giants نے عالمی سطح پر ڈالر کو چیلنج کیا ہے جس کے ملکوں کی کل آبادی 3 ارب 21 کروڑ عوام ہے۔ اس کا ٹوٹل علاقہ کرۂ ارض کا 26.7 فیصد بنتا ہے اور Brics ممالک کے 5 ملکوں کی آبادی 41.5 فیصد ہے۔
یہ ممالک اب اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ وہ آپس میں کاروبار اپنی لوکل کرنسی میں کریں گے۔ یعنی چین جس ملک سے کاروبار کرے گا اسے ادائیگی اس ملک کی کرنسی میں کرے گا اور جو ملک چین سے کاروبار کرے گا وہ چین کو ادائیگی اس کی مقامی کرنسی میں کرے گا۔ جدید معیشت میں اسے کرنسی Swap کہا جاتا ہے۔ دوسری جانب پاکستان کے سب سے بڑے معیشت دان شہباز شریف نے جنیوا کانفرنس میں شرکت کی‘ بڑے معاشی پلیئر اس سے بے تعلق رہے۔ کانفرنس کا سنگل پوائنٹ ایجنڈا بھیک مانگنا تھا۔ دنیا نے ہمارے Beggars Band کشکول میں رنگ برنگے وعدے ڈالے ہیں۔ جن کو پورا کرنے کے لیے عمرِ خضر درکار ہوگی۔
PDMکی موجودہ حکومت نئی نہیں‘ کسی نہ کسی نام سے یہ ہی حکومت ہمیشہ سے چلتی آئی ہے۔ اس حکومت کی واحد معاشی پالیسی کسی نہ کسی طرح سے مزید قرض لینا ہے۔ قرضہ اپنے ساتھ سود لے کر آتا ہے اور یہ قرضہ ڈبل ٹرپل ہو کر پاکستان کو واپس کرنا پڑتا ہے۔ آپ اسی سال کا بجٹ نکال کر دیکھ لیں‘ پاکستان کی سرکار اور سرکار کے ادارے 60 سے 70 فیصد بجٹ کھا جاتے ہیں۔ ظاہر ہے یہ قرض کا مال ہوتا ہے جو باقی 30 فیصد کے قریب بچتا ہے‘ اس میں سے ریلیف خاک عوام تک پہنچے گا۔ دو سب سے بڑے اور منظم ادارے اپنے اخراجات کا آڈٹ خود کرتے ہیں۔ اس سے آگے سوچ کے بھی پر جلتے ہیں۔ پر جلانے سے پہلے نثر کو یہاں ہی چھوڑ دیتے ہیں۔ چلئے محسن نقوی کو سن لیں:
نہ سماعتوں میں تپش کھلے‘ نہ نظر کو وقفِ عذاب کر
جو سنائی دے اسے چپ سکھا‘ جو دکھائی دے اُسے خواب کر
مرے صبر پر کوئی اجر کیا‘ مری دوپہر پہ یہ ابر کیوں؟
مجھے اوڑھنے دے اذیّتیں‘ مری عادتیں نہ خراب کر
کہیں آبلوں کے بھنور بجیں‘ کہیں دھوپ روپ بدن سجیں
کبھی دل کو تھل کا مزاج دے‘ کبھی چشمِ تر کو چناب کر
یہ ہجومِ شہرِ ستم گراں‘ نہ سنے گا تیری صدا کبھی
مری حسرتوں کو سخن سنا‘ مری خواہشوں سے خطاب کر
یہ سوال سب کے لیے ہے‘ یہاں سے آگے پاکستان کہاں جائے گا؟