"SBA" (space) message & send to 7575

مغلیہ زوال ‘ شغلیہ کمال اور امریکی اداکار

ہمیں جو تاریخ پڑھائی جاتی ہے اس پہ تب رونا آتا ہے جب غیر جانبدار ہسٹری کرانیکلز پر نظر ڈالیں۔پوسٹ اورنگزیب‘ مغلیہ سلطنت کا زوال ایک ایسی ہی رُلادینے والی کہانی ہے جو اچانک شروع نہیں ہوئی بلکہ اس کے دو مرکزی کردار سید حسین علی اور سید عبداللہ خان بنے۔یہ دونوں بھائی اور جرنیل تھے جن کی واردات کا آغاز 1712ء میں شہزادہ فرخ سیار سے ساز باز کی سازش سے ہوا۔ مغل بادشاہ جہاں دار شاہ قتل ہوااور شہزادہ بادشاہ بن بیٹھا۔یہ سید برادران کا کٹھ پتلی تھا اور مغل سلطنت ان دونوں کے ہاتھوں سکیورٹی سٹیٹ بن گئی۔ محلاتی سازشوں والا شاہ کالا کاروبار شروع ہوا‘ جس کے نتیجے میں اپریل 1719ء میں فرخ سیار بھی مارا گیا۔ خالی تخت پراُس کا کزن رفیع الدرجات بادشاہ بنا کر بیٹھایا گیا۔ سید برادران نے جون 1719ء میں اسے بھی ٹھکانے لگا دیا اور اُس کے بڑے بھائی رفیع الدولہ کوتاجِ شاہی پہنا ڈالا۔
اس لمحے نجانے کیوں مجھے پنڈتّ جواہر لال نہرو کی پھبتی یاد آئی جو اُس نے ہم پہ ِکَسی تھی۔ یہی کہ پاکستان میں اتنے تیزی سے حکمران بدلتے ہیں جتنی جلدی میں دھوتی بھی نہیں بدلتا۔سید برادران بھی مغل بادشاہوں کو اسی دھوتی کی رفتار سے بدل رہے تھے۔ جیسے1947ء کے بعد ہمارے آزاد ملک میں حکمران بدلے گئے؛چنانچہ 90دن کے اندر اندر ستمبر 1719ء میں سید برادران نے رفیع الدولہ کو زہر کھلا کر17 سالہ شہزادے مرزا ناصرالدین کو مغل بادشاہت کے تخت پرلا بٹھا یا۔ مغل سلطنت کے یہ دونوں کردار بلا کے چالاک‘ موقع پرست‘ دل کھول کر بے رحم اور باتونی تھے۔ ہر بادشاہ کو قتل کرنے کے بعد اُنہوں نے درباریوں کو یقین دلایا کہ یہ تبدیلی بذریعہ قتل تیموری ریاست کو بچانے اور مغل عروج کو واپس لانے کیلئے بہت ضروری تھا۔
مرزا ناصرالدین ان دونوں کا بھی باپ نکلا‘جس کی تفصیل کی طرف پھر واپس آتے ہیں۔ ذرا آگے بڑھ کر 1940ء کے عشرے میں چلتے ہیں‘ آغا عبدالکریم خان المعروف شورش کاشمیری کے آستانے پر۔ جہاں دفترِ شورش کھلا ہے اور جو شاہکارتخلیق‘مستقبل کی سچائی کی صورت میں القا ہو رہی ہے‘ اُس کا نام رکھا گیا ''ریپبلک پارٹی‘‘۔ ہماری آج کی لاڈو طرز ِ سیاست کرنے والوں کیلئے اُسے کنگز پارٹی کہا جائے گا۔ حضرت ِشورش کا قلم کنگز پارٹی کے عوامی حالات یوں بیان کرتا ہے:
بیچاری کئی روز سے دم توڑ رہی ہے/ڈر ہے خبرِبد نہ مرے منہ سے نکل جائے
تقدیر تو مبرم نظر آتی ہے ولیکن/ پیران ِکلیسا کی دعا یہ ہے کہ ٹل جائے
ممکن ہے کہ یہ داشتۂ پیرک ِافرنگ /ابلیس کے تعویذ سے کچھ روز سنبھل جائے
گر یہ نہیں ممکن ''نگہ ہوش ربا‘‘سے/ لازم ہے کہ پھر صورت ِحالات بدل جائے
پنجاب کے دلچسپ رئیسوں کا کھلونا/چڑھتے ہوئے سورج کی حرارت سے پگھل جائے
ہے قبلۂ اُمید بڑے لاٹ کی چوکھٹ /جانا پڑے اس کوتو وہاں پیٹ کے بل جائے
مغلیہ سلطنت کے ایک بادشاہ محمد شاہ رنگیلا کا نام ہم نے خوب سُن رکھا ہے۔شہزادہ مرزا ناصرالدین یہی رنگیلا شاہ تھا جس نے اقتدار میں آتے ہی دونوں سید بھائیوں کو علیحدہ علیحدہ ہائی سکیورٹی سیل میں پابندِ سلاسل کر دیا۔ سال 1720ء میں سید حسین علی اور اُسے کے دو سال بعد سید عبداللہ خان بندی خانے میں مارے گئے۔ لیکن ان دو سرکاری افسروں کو جتنا عرصہ ریاست کے فیصلے کرنے کا اختیار ملا وہ عرصہ انہوں نے ریاستی مفادات کی بجائے ذاتی انّا‘ عناد اور افرا تفری کے ذریعے اصل پاور اپنے پاس رکھنے کی خاطر کافی ثابت کر دکھایا۔ جس میں اپنے وقت کی سوپر پاور مغلیہ سلطنت کو تباہ و برباد کر کے رکھ دیا۔ خواتین و حضرات حضرتِ شورش کاشمیری کے آستانے سے پھر آواز آئی ہے‘ کہہ رہے ہیں ذراراہزن قبیلۂ رہبر کے بارے میں میری رائے سُن لو۔
رہبر وہ ہے کہ جس کا نہ کوئی بھی ہو اصول /جس کا عمل ہو شرح غلط نامۂ تضاد
رہبر وہ ہے کہ نام و نمائش پر جان دے/ ہو ''زندہ باد‘‘ جس کیلئے منزلِ مراد
رہبر ہے جو ہو صاحب ِ رقص و خمارہو/ارماں جسے ضیافتیں کرنے کے ہوں زیاد
بیزار ہو جو نام سے اسلاف کے بہت/جس کیلئے ہو غیرت ِدیں،عِلت فساد
ہو مِلت و وطن سے نہ جس کو ذرا خلوص / ہو ذوقِ جاہ جس کیلئے طوقِ امتیاز
رہبر ہے جس کو اپنی رئیسی کا ہو غرور/خاطر میں جو نہ لائے زوالِ ثُمود و عاد
ظاہر ہے جس کے گرد ہزاروں ہوں خیر خواہ/باطن میں ہو نہ جس پر خود اُس کو بھی اعتماد
رہبر وہ ہے جو قوم کی سُبکی کا ہو سبب/جیسے نفیس شعر کا بھونڈا سا مستزاد
اے ارضِ پاک ! ایسے جواں مرد کم نہیں/جب تک سپوت یہ ہیں تجھے کوئی غم نہیں
یوں تو سرزمینِ وطن‘ آئین ِ وطن اور ساکنان ِ وطن کو شغل سمجھ کر شعبدہ بازی کرنے والے راہ بروں کے بارے میں شورش کاشمیری کا کہا کافی ہے لیکن کیا کریں شغل ہے کہ رکنے کا نام ہی نہیں لے رہا۔ اس شغلیہ تاریخ میں 18نومبر کے روز PMLNآفیشل نے رجیم چینج والے شغل کی تصدیق کی۔ بلکہ امپورٹڈ رہبر کے بعد ڈبل امپورٹڈ رہبر کی انتخابی مہم بھی کک آف کر دی۔ فرمایا پاکستان مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں محمد نواز شریف سے امریکی سفیر ڈونلڈ لُو نے ملاقات کی۔ اس ملاقات کا احوال یہ بیان کیا‘ ملاقات کے دوران دونوں رہنمائوں نے پاکستان کی سیاسی و معاشی صورتحال خاص طور پر عام انتخابات کی تیاریوں کے حوالے سے تبادلۂ خیال کیا۔ انہوں نے اعتماد کا اظہار کیا کہ آج ملک کو درپیش لاتعداد مسائل اور بحرانوں سے نکلنے میں پاکستان کے عوام ایک بار پھر پاکستان مسلم لیگ (ن) کو قائدانہ کردار دے کر اپنا بھر پور اعتماد کریں گے۔
شغلیہ کمال دیکھئے امریکی سفیر پاکستانیوں سے نواز شریف کیلئے ووٹ مانگ رہا ہے۔ نواز شریف کی نیو یارک‘ واشنگٹن اور پنٹاگان والی مقبولیت پاکستانیوں کو ہضم نہیں ہوئی۔ سوشل میڈیا پر امریکہ کی پاکستانی سیاست میں دوسری بار براہ راست کھلی مداخلت پر قیامت برپا ہوئی۔ جس کے نتیجے میں امریکہ نے دومزید شغلیہ کردار ان لفظوں میں پیش کئے۔
The Following is attributable to U.S Mission Spokesperson Jonathan Lalley: In the Course of his engagements with a broad range of Pakistani political actors.
امریکی سفیر نے جن ملاقاتوں کو براڈ وے ''پولیٹیکل ایکٹر‘‘ کہا۔ وہ بنیادی طور پر ایک ہی پارٹی ہے جسے آپ PDMکا اقتداری گروپ کہہ سکتے ہیں۔ ڈونلڈ لُو کے بعد ڈونلڈ بلوم نے نواز شریف کو ڈبل امپورٹڈ کنفرم کر دیا۔ ان دنوں مسلم دنیا میں امریکی کُکڑیوں کے کھابے کھلانے والا فاسٹ فوڈ برینڈبھی خاصہ بدنام ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں