ملکوں اور قوموں کے درمیان کسی بھی مسئلے کے حل کے کئی راستے ہوتے ہیں۔ عام، مقبول اور مروجہ راستہ سیاسی ہے۔ یہ گفت و شنید کا راستہ ہوتا ہے، جس پر چل کر باہمی مکالمے سے مسائل کا حل تلاش کیا جاتا ہے۔ دوسرا راستہ جنگ ہے۔ یہ ایک تباہ کن اور خطرناک راستہ ہے۔ بنی نوع انسان اپنی تاریخ میں ہزاروں بار اس کا تجربہ کر چکا ہے اور شاید ہی کبھی ایسا ہوا ہو کہ جنگ و جدل سے کسی مسئلے کا کوئی پائیدار اور خوشگوار حل نکلا ہو۔ فتح یا شکست دونوں صورتوں میں سب فریقوں کے لیے جنگ تباہی و بربادی کے نا قابل فراموش قصے چھوڑ جاتی ہے۔ خون کے ایسے دھبے چھوڑ جاتی ہے جنہیں دھونے میں صدیاں لگ جاتی ہیں۔ نہ بھرنے والے زخم اور اندوہناک غم دے جاتی ہے۔ بقول ساحر:
فتح کا جشن ہو کہ ہار کا سوگ
زندگی میتوں پہ روتی ہے
جنگ تو خود ہی ایک مسئلہ ہے
جنگ کیا مسئلوں کا حل دے گی
آگ اور خون آج بخشے گی
بھوک اور احتیاج کل دے گی
اس لئے اے شریف انسانو
جنگ ٹلتی رہے تو بہتر ہے
آپ اور ہم سبھی کے آنگن میں
شمع جلتی رہے تو بہتر ہے
تیسرا راستہ سفارت کاری ہے۔ یہ ایک محفوظ اور مہذب راستہ ہے؛ اگرچہ یہ محنت طلب، صبر آزما اور وقت طلب راستہ ہے۔ سفارتی محاذ پر دنیا کا سب سے بڑا اور طاقت ور فورم اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل ہے۔ حال ہی میں کشمیر میں جو واقعات رونما ہوئے ان پر پاکستان نے سلامتی کونسل سے رجوع کیا۔ سلامتی کونسل کے بند کمرے کے اجلاس میں اس موضوع پر گفتگو ہوئی۔ اس گفتگو کی ایک جھلک چینی مندوب کی ذرائع ابلاغ سے گفتگو کے ذریعے سامنے آئی۔
اس اجلاس سے اگرچہ کوئی قرارداد یا ٹھوس تجویز سامنے نہیں آئی، بلکہ حسب روایت اور حسب سابق دونوں ممالک کو صبر سے کام لینے اور باہمی گفت و شنید کے ذریعے اس مسئلے کو حل کرنے کا مشورہ دیا گیا‘ مگر پھر بھی یہ اجلاس اہم تھا‘ ان کشمیریوں کے لیے جن کی کیفیت پنجرے میں بند پرندوں کی سی ہے۔ دوسری طرف پاکستان کے سفارتی حلقوں نے اسے اپنی شاندار کامیابی قرار دیا اور اس پر مسرت کا اظہار کیا۔ اگرچہ یہ ایک بڑی پیش رفت ہے کہ پچاس سال بعد دوبارہ مسئلہ کشمیر پر اتنے اہم سفارتی فورم پر بات ہوئی مگر اس کے ساتھ بہت زیادہ امیدیں وابستہ کرنا بھی آگے چل کر ماضی کی طرح مایوسی کا باعث بن سکتا ہے۔ اپنی توقعات کو معقولیت کے دائرے کے اندر رکھنے کے لیے اقوام متحدہ اور سلامتی کونسل کے کردار اور عمل کو تاریخی تناظر میں دیکھنا چاہیے۔ اقوام متحدہ کسی پیچیدہ مسئلے کو حل کرنے کی کیا استطاعت رکھتی ہے اور اس کے حل کے لیے کس حد تک جا سکتی ہے؟ ان سوالات کا جواب اسرائیل فلسطین تنازعے میں موجود ہے اور یہ تنازعہ اس ادارے کی صلاحیتوں اور استطاعت کی ایک کلاسیکل مثال ہے۔ اقوام متحدہ کل وقتی طور پر اس تنازعے میں ملوث ہونے اور انتہائی متحرک کردار ادا کرنے کے باوجود اس باب میں کوئی قابل ذکر پیش رفت کرنے میں ناکام رہی ہے۔ فلسطینی آج بھی اپنے گھر سے بے گھر ہیں۔ فلسطین کی آزادی یا ریاست کا قیام تو اپنی جگہ ان کی ان کے گھروں میں واپسی اور نئی آباد کاریوں جیسے نسبتاً چھوٹے مسائل کا بھی کوئی حل نہیں نکالا جا سکا۔ ان مسائل کو لے کر وہاں آئے دن خون خرابہ ہوتا رہتا ہے۔ تاریخ یہ بتاتی ہے کہ جہاں تک اقوام متحدہ کی قراردادوں کا تعلق ہے تو ان قراردادوں پر صرف اس وقت عمل ہوتا ہے، جب سپر پاور کی منشا ہو‘ ورنہ یہ قراردادیں‘ بے شک ان کی حیثیت حکمیہ ہی کیوں نہ ہو، نظر انداز کر دی جاتی ہیں، یا ان کی خلاف ورزی کی جاتی ہے۔ سال دو ہزار تین میں جس وقت برطانیہ اور امریکہ اقوام متحدہ سے قرارداد منظور کرا کر عراق پر حملے کی منصوبہ بندی کر رہے تھے، اس وقت سان فرانسسکو یونیورسٹی میں سیاسیات کے پروفیسر سٹیون زانیس نے ایک ریسرچ سٹڈی کی تھی۔ اس سٹڈی کا مقصد یہ معلوم کرنا تھا کہ آج تک اقوام متحدہ نے جو قراردادیں پاس کیں، ان پر متعلقہ ملکوں کا کیا رد عمل تھا‘ اور اگر متعلقہ ملک نے کسی قرارداد پر عمل نہیں کیا تو اس پر کیا چارہ جوئی ہوئی۔ جن ممالک نے قراردادوں کی خلاف ورزی کی ان میں زیادہ تر وہ ہیں، جن کے امریکہ کے ساتھ قریبی تعلقات رہے ہیں۔ ان میں وہ ممالک شامل ہیں، جو امریکہ سے معاشی‘ فوجی اور سفارتی مدد لینے میں پیش پیش ہیں۔ اس فہرست میں اسرائیل سر فہرست ہے۔ سن انیس سو اڑسٹھ سے لے کر اس وقت تک اسرائیل اقوام متحدہ کی بتیس قراردادوں کی خلاف ورزی کر چکا تھا۔ ترکی دوسرے نمبر پر ہے، جو انیس سو چھہتر سے لے کر اس وقت تک چوبیس قراردادوں کی خلاف ورزی کر چکا تھا۔ اس کے بعد مراکش ہے جو سترہ قراردادوں کی خلاف ورزی کر چکا تھا۔ اس مطالعے کے مطابق سن انیس سو سینتالیس سے لے کر اس وقت تک اقوام متحدہ پندرہ سو کے قریب قراردادیں پاس کر چکی تھی، جن میں سے تقریباً نوے قراردادوں کی سنگین خلاف ورزی کی گئی، اور خلاف ورزی کرنے والے ممالک کے خلاف کوئی کارروائی نہیںہوئی۔ اس میں وہ قراردادیں شامل نہیں، جو واضح نہیں ہیں، یا جن کی تشریح پر فریقین کے درمیان اختلاف ہے۔ اس طرح یو این کی مشہور زمانہ یا ''بد نام زمانہ‘‘ قرارداد نمبر دو سو بیالیس اور تین سو اڑتیس بھی اس میں شامل نہیں ہیں۔ اس میں وہ قراردادیں بھی شامل نہیں ہیں جن کے ذریعے کسی ملک کی مذمت کی گئی ہو۔ اس مطالعے کا نقطۂ ماسکہ وہ قراردادیں ہیں جن میں کسی خاص ملک کو کسی خاص عمل کی ہدایت کی گئی۔ اسرائیل نے جن قراردادوں کی خلاف ورزی کی وہ زیادہ تر مشرقی یروشلم کے انضمام اور آباد کاری کے متعلق تھیں یا وہ قراردادیں جن میں اسرائیل کو طاقت کا استعمال کرنے سے روکنے یا فلسطینیوں کو ان کے گھروں سے بے دخل کرنے سے منع کیا گیا تھا‘ مگر اسرائیل نے ان قراردادوں کی کھلی خلاف ورزی کی۔ قرارداد کی روشنی میں عراق کے خلاف کارروائی کے دوران جب اسرائیل سے یہ سوال کیا گیا تو اس کا جواب بڑا دلچسپ تھا۔ اس نے کہا: اقوام متحدہ کے جو فیصلے عراق کے متعلق ہیں، اور جو فیصلے اسرائیل کے متعلق ہیں ان میں بڑا فرق ہے۔ اسرائیل اس خطے کی واحد جمہوریت ہے اور اپنی بقا کی جنگ لڑ رہی ہے اور عراق اس خطے کی انتہائی ظالمانہ آمریت ہے، جو انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں ملوث ہے اور اپنے عوام کے خلاف کیمیائی ہتھیار استعمال کرتی ہے۔ گویا آپ کے ملک میں جمہوریت ہے تو آپ کو اقوام متحدہ کی قراردادوں کی خلاف ورزی کا حق مل جاتا ہے۔
یہ لمبی کہانی بیان کرنے کا مقصد یہ ہے اقوام متحدہ کی اس نا قابل رشک تاریخ کو سامنے رکھتے ہوئے اس پر تکیہ نہیں کرنا چاہیے۔ بھارت کے تیور اور قرائن بتاتے ہیں کہ اب موجودہ بھارتی حکومت بھی اسرائیل کی طرح سخت ترین رویہ اپنانے کا ارادہ رکھتی ہے۔ مودی صاحب کئی بار انتہائی فخر و غرور سے کہہ چکے ہیں کہ ہم ایک ارب بیس کروڑ لوگ ہیں۔ ہمیں کون دبائو میں لا سکتا ہے۔ ہم معاشی اور عسکری اعتبار سے ایک بڑی قوت ہیں۔ اب وقت آ گیا ہے کہ دنیا کی سننے کے بجائے دنیا کو بتایا جائے کہ کیا کرنا چاہیے۔ ان حالات میں یہ دیکھنا ضروری ہے کہ بے تحاشا وسائل اور وقت صرف کرنے کے بعد اگر اقوام متحدہ میں کوئی قرارداد منظور ہو بھی جائے، اور بھارت اسرائیل، ترکی، مراکش اور دیگر ممالک کی طرح اس پر عمل درآمد سے انکار کر دے تو کون سا راستہ اختیار کیا جا سکتا ہے۔ کیا موجودہ عالمی سیاست کے تناظر میں بھارت کے خلاف کسی تادیبی کارروائی کی جا سکتی ہے یا ایسے کوئی بھی امکانات موجود ہیں کہ بھارت کو قرارداد پر عمل کرنے پر مجبور کیا جا سکے۔ ہماری اس دنیا میں آج بھی 'جس کی لاٹھی اس کی بھینس‘ کا قانون چلتا ہے اور لاٹھی سے مراد آج کے دور میں معاشی اور عسکری قوت ہے۔ ان زمینی حقائق کو مد نظر رکھ کر ہی کسی ایسے راستے کا انتخاب کیا جانا چاہیے، جس میں حل کے امکانات واضح ہوں۔