"FBC" (space) message & send to 7575

کیا یہ خوشحالی کی نوید ہے ؟

اربابِ اختیاراورآئی ایم ایف کے درمیان اتفاقِ رائے ہو گیا ہے۔ آئی ایم ایف کو یقین دلا دیا گیا کہ عوام پرآئندہ مالی سال میں ٹیکسوں کا اضافی بوجھ ڈال دیا جائے گا۔ یہ اضافی بوجھ بارہ سو بہتر ارب کی خطیر رقم ہوگی۔ عام آدمی کو اگر کوئی چھوٹی موٹی آسانیاں میسر ہیں تو وہ چھین لی جائیں گی۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ جن اشیا سے ٹیکس کا استثنا ختم کردیا جائے گا‘ ان میں کھانے پینے کی اشیا‘ ادویات‘ اور تعلیم سر فہرست ہو گی۔ گویاپہلے سے بھوک اور ننگ کے شکار عوام کے لیے دو وقت کی روٹی بہت بڑا مسئلہ بن جائے گی۔ ادویات ان کی پہنچ سے باہر ہو جائیں گی اور بچوں کی تعلیم غریب کے لیے محض خواب بن کر رہ جائے گی۔ آئی ایم ایف اور حکومت کے اس سمجھوتے پر بحث ہو رہی ہے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ کچھ دانشور اسے اچھی خبر اور ترقی اور خوشحالی کی نوید قرار دے رہے ہیں۔ سیمینار اور فورم منعقد ہو رہے ہیں‘ جن میں اربابِ اختیار کی دانش اور آئی ایم ایف کی سخاوت کو خراجِ تحسین پیش کیا جا رہا ہے۔ یہی وہ نایاب لمحے ہوتے ہیں جب عشق بے خطر آتشِ نمرود میں کود پڑتا ہے اور عقل کے پاس محوِ تماشا ہونے کے سوا چارہ نہیں ہوتا۔
آئی ایم ایف کوئی خفیہ ادارہ نہیں‘ جس کے لیے تحقیق یا قیاس آرائیوں کی ضرورت پڑے۔ یہ ایک معروف مالیاتی ادارہ ہے‘ جس کا تحریری آئین اور منشورہے۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد دنیا میں ''نیا مالیاتی آرڈر‘‘ قائم کرنے کے لیے 1944ء میں بریٹن ووڈ کانفرنس میں چالیس اتحادی ممالک کے اجلاس کے نتیجے میں آئی ایم ایف کی تشکیل ہوئی۔ یہ عالمی مالیاتی ادارہ اپنے قیام سے لے کر اب تک مختلف شکلوں میں دنیا کے مالیاتی نظام کی ''داروغگی‘‘کا کردار ادا کر رہا ہے۔سادہ زبان میں اس فنڈ کا اہم ترین اور بنیادی کام ضرورت مند ممالک کو قرض دینا ہے۔ یہ فنڈ ان ممبر ممالک کو قرض دیتا ہے جو اپنی بین الاقوامی ذمہ داریوں کو پورا کرنے میں ناکام ہو رہے ہوتے ہیں۔ قرض دینے کے لیے آئی ایم ایف کی مخصوص شرائط ہوتی ہیں۔ ان شرائط کو قبول اور نافذ کرنے کے بدلے میں قرضے اور ''بیل آئوٹ پیکیج‘‘ فراہم کیے جاتے ہیں۔ ان پالیسیوں میں بجٹ کو متوازن بنانا‘ ریاستی سبسڈی کو ہٹانا‘ ریاستی کاروباری اداروں کی نجکاری ‘ تجارت اور کرنسی کی پالیسی کو آزاد کرنا ‘ اور غیر ملکی سرمایہ کاری اور سرمائے کی نقل و حرکت میں رکاوٹوں کو دور کرنا شامل ہے۔
کوئی ملک عام طور پر اس وقت آئی ایم ایف کی طرف رجوع کرتا ہے‘ جب وہ معاشی مسائل اور زرِ مبادلہ کی کمی کی وجہ سے مزید درآمدات نہیں کرسکتا‘ یا قرض دہندگان کے لیے اپنے قرض کی ادائیگی سے قاصرہو تا ہے۔ یہ کیفیت کسی بھی ملک میں ممکنہ معاشی بحران کی علامت ہوتی ہے‘ ایسی صورت حال میں یہ فنڈ حکومت کے قرضوں میں توسیع کرتا ہے اور قرضوں کی ادائیگی کے نئے نظام الاوقات کا انتظام کرنے میں مدد کرتا ہے۔ اس امداد کے بدلے میں ممبرملک ادائیگیوں کے توازن کو بہتر بنانے اور زرمبادلہ کے ذخائر کو بحال کرنے کے لیے آئی ایم ایف اصلاحات کو نافذ کرنے پر اتفاق کرتا ہے۔ فنڈ کی قرض دینے کی شرائط نہ صرف قرضوں کی واپس ادائیگی کی ضمانت کے لیے عائد کی جاتی ہیں‘ بلکہ یہ یقینی بنانے کے لیے بھی کہ قرض کا لیا گیا پیسہ بیان کردہ معاشی مقاصد کے مطابق ہی خرچ ہوگا۔
آئی ایم ایف اپنی تشکیل سے لے کر زبردست تنقید کانشانہ رہا ہے۔ بعض حلقوں میں اس کو ایسا ادارہ تصور کیا جاتا رہا‘ جس کا مقصد عالمی سرمایہ داری نظام کو بحران سے بچانا اور عالمی سامراجی مالیاتی ایجنڈے کا تحفظ کرنا رہا ہے۔ اوراس کا ایک بڑا مقصد عالمی سرمایہ کاروں اور مالیاتی اداروں کو کسی ملک میں معاشی بحران کے وقت ان کے پیسے ڈوبنے سے بچانے میں مدد کرنا بھی رہا ہے۔ اپنی کتاب ''عالمگیریت اور اس کے تضادات‘‘ میں ‘ نوبیل انعام یافتہ ماہرِ معاشیات جوزف سٹگلیٹز نے اس فنڈ کو دنیا کے غریب ترین ممالک میں لاگو ہونے والی ناکام ترقیاتی پالیسیوں کا بنیادی مجرم قرار دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف کو بہت سی معاشی اصلاحات کی ضرورت ہے۔ اس کے قرضے کی شرائط تبدیلی کی متقاضی ہیں۔ اس کا بھاری شرح سود ‘ تجارتی لبرل لائزیشن ‘ نجکاری ‘ اور کھلی سرمایہ مارکیٹیں اکثر مقامی لوگوں کے لیے تباہ کن رہی ہیں۔
جوزف کے بعد ولیم ایسٹرلی نے بھی 2006 ء میں اس ادارے کے بارے میں '' سفید فام آدمی کا بوجھ ‘‘ میں یہ مقدمہ پیش کیا تھا۔ اگرچہ وہ 1990ء کی دہائی کے وسط میں میکسیکو اور مشرقی ایشیائی ممالک کو درپیش مالی بحرانوں میں آئی ایم ایف کی کچھ کامیابیوں کو تسلیم کرتے ہیں لیکن وہ انتہائی غریب ممالک خصوصا افریقہ اور لاطینی امریکہ میں فنڈ کی بہت سی سرگرمیوں کو ملک کے اندرونی معاملات میں حد سے زیادہ دخل اندازی قرار دیتے ہیں۔ اس کے علاوہ ‘ انہوں نے فنڈ کے بہت سے قرضوں کی شرائط اور تکنیکی مشوروں پر بھی تنقید کی ہے‘ کیونکہ ان کے خیال میں وہ زمینی حقائق سے متصادم ہیں۔
حالیہ برسوں میں آئی ایم ایف کے صرف غریب ملکوں میں ہی نہیں بلکہ ترقی یافتہ معیشتوں میں کئے گئے کام پر بھی تنقید ہوئی ہے۔ یونان اس کی نمایاں مثال رہا ہے۔ وہاں کفایت شعاری کے اقدامات نے ملک کا معاشی تنازع پہلے سے زیادہ گہرا کردیا تھا۔ جولائی 2015ء میں عوامی غصے کی وجہ سے آئی ایم ایف کے قرض کی شرائط کے بارے میں ہونے والے ریفرنڈم میں عوام نے ''منفی‘‘ ووٹ ڈالا تھا‘ مگر حکومت نے نتائج کو نظرانداز کیا اور قرضوں کو قبول کر لیا۔ ناقدین آئی ایم ایف سے قرض لینے کے عمل کو ہر حالت میں قومی خودمختاری پر سمجھوتا قرار دیتے ہیں۔ اس کی صاف وجہ یہ ہے کہ اس ادارے کی کڑی شرائط کو تسلیم کئے بغیر کوئی ملک قرض لے ہی نہیں سکتا۔ یہ شرائط تسلیم کرنے کا مطلب یہ ہے کہ انتہائی اہم معاملات پرقانون سازی اور پالیسی سازی کے اختیارات ملکی پارلیمنٹ اور حکومت کو حاصل ہوتے ہیں‘ ان کو آئی ایم ایف کی شرائط کے طور پر تسلیم کر لیا جاتا ہے اور ان شرائط کو نئی پالیسیوں کی شکل میں عوام پر نافذ کر دیا جاتا ہے۔ اس طرح حکومت اپنے اہم اور بنیادی اختیارات سے فنڈ کے حق میں دست بردار ہوجاتی ہے۔ منتخب لوگ فیصلہ سازی کے باب میں غیر منتخب عالمی ادارے کے ماہرین اور ٹیکنو کریٹس کے سامنے ہتھیار پھینک دیتے ہیں۔ جب مالیاتی فنڈ ان کے لیے پالیسیاں تشکیل دیتا ہے تو مقروض ممالک کی حکومتیں بے بسی سے دیکھتی ہیں۔ یہ فنڈ انہیں بتاتا ہے کہ کب ان کے ملک کی کرنسی کی قدر میں اضافہ کیا جائے اور کس حد تک اضافہ ہونا چاہیے ؟ کن ریاستی وسائل کو بیچنا ہے‘کیا خریدنا ہے‘ سرکاری ملکیت میں کیا رکھنا ہے اور کیا بیچ دینا ہے۔ کتنا خرچ کرنا ہے اور کس پر کیا خرچ کرنا ہے۔ یہ بھی وہی بتاتے ہیں کہ تجارت کس طرح کرنی ہے‘ ٹیکس کا بوجھ کس پر ڈالنا ہے۔ لیکن اس کے باوجود اربابِ اختیار کو غلط فہمی ہوتی ہے کہ انہوں نے اپنی قومی خود مختاری اور معاشی پالیسیوں پر کوئی سمجھوتا نہیں کیا ۔ اربابِ اختیار اور آئی ایم ایف کے درمیان جو اتفاقِ رائے ہوا ہے اس کی وجہ سے آنے والے برسوں میں پاکستان میں طبقاتی تقسیم بڑھے گی اور امیر اور غریب کے درمیان پہلے سے موجود خلیج میں خوفناک اضافہ ہوگا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں