حکومت اگر خدا سے دعا مانگے تو بات سمجھ میں آتی ہے کیونکہ ہمارے ہاں یہی عقیدہ ہے کہ قدرت کی مرضی اور منشا کے بغیر کچھ نہیں ہوتا۔ یہ الگ بات ہے کہ اہلِ حکم اس عقیدے کو بھی اپنے مفادات کے لیے استعمال کرنے سے باز نہیں آتے اور اپنی نااہلی کی وجہ سے ہونے والی ناکامی کو بھی قدرت کی مرضی قرار دے دیتے ہیں‘ اور یوں اپنی ذمہ داری سے عہدہ برا ٓہونے کے بجائے اپنا دامن چھڑا لیتے ہیں۔ اس کی تازہ ترین مثال سیلاب ہے۔ سیلاب کے دوران اور اس کے بعد کی تباہ کاریوں پر اکثر حکمران اشرافیہ کا رویہ یہی رہا ہے۔ کئی وزیر اور مشیر یہ اعلان کرتے رہے کہ قدرتی آفات سے مقابلہ کرنا انسان کے بس میں نہیں ہے۔ یہ کون نہیں جانتا کہ اپنی ناکامیوں اورکوتاہیوں پر پردہ ڈالنے کے لیے قدرت کو موردِ الزام ٹھہرانا درست نہیں اور نہ ہی سارے بنی نوع انسان کو اس باب میں اپنی صف میں کھڑا کرنا کوئی مناسب طرزِ فکر اور طرزِ عمل ہے۔ دنیا کے بے شمار ممالک نے قدرتی آفات کا کامیابی سے مقابلہ کیا ہے۔ انہوں نے اپنے منہ زور دریاؤں پر بند باندھے ہیں‘ سیلابوں کے رُخ موڑے ہیں‘ طرزِ تعمیر اور بلڈ نگ کوڈ بدلے ہیں اور اس سلسلۂ عمل میں قدرتی آفات سے مکمل طور پر اگر چھٹکارا نہ پا سکے ہوں تو پھر بھی بڑے پیمانے پر انسانی جانیں بچانے میں ضرورکامیاب ہوئے ہیں۔ اس سلسلے میں امریکہ‘ کیوبا‘ جاپان اور نیدر لینڈ کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں کہ ان ممالک نے قدرتی آفات کے ذریعے ہونے والے نقصانات پر کس قابلِ رشک طریقے سے قابو پایا ہے۔ لیکن ہمارے ہاں ان حقائق کو نظر انداز کرنے کا درس دیا جاتا ہے۔ یہ عمل مذہبی رہنماؤں سے لے کر حکمران اشرافیہ تک سب میں نظر آتا ہے۔ اس عمل میں بسا اوقات غریب اور پسے ہوئے عوام کے زخموں پر نمک چھڑکنے والے بھی شامل ہو جاتے ہیں جو ایسے پُر آشوب مواقع پر عوام کو یاد دلاتے ہیں کہ ان کے طرزِ عمل یا طرزِ فکر میں کچھ عوامل ایسے ہیں جو گناہ کے زمرے میں آتے ہیں اور ان گناہوں کی وجہ سے قدرت ان سے ناراض ہے۔ اور اپنی اس ناراضی کا اظہار قدرتی آفات سے کرتی ہے۔ یہ نمک چھڑکنے والے ہمارے سماج کی ہر پرت اور تہہ میں موجود ہیں‘ ان سب کا ذکر کرنے کے لیے ایک کالم نہیں کئی کتابوں کی ضرورت ہے۔
بہر کیف یہ تحریر اس بات سے شروع کی تھی کہ اگر اہلِ حکم خدا سے دعا مانگیں تو ہمارے عقائد کی روشنی میں یہ بات سمجھ میں آتی ہے۔ اسی طرح اگر وہ عوام سے مدد و تعاون کے خواستگار ہوں تو پھر بھی کوئی اچنبھے کی بات نہیں کہ بعض مسائل ایسے ہوتے ہیں جن کے لیے عوام سے غیرمعمولی قربانی اور ایثار کی ضرورت ہوتی ہے‘ مگر اس کہانی میں درد ناک بات یہ ہے کہ ہمارے حکمران اس طرح کے مسائل کے بارے میں جو لب و لہجہ اختیار کرتے ہیں‘ اس سے لگتا ہے کہ وہ درپیش مسائل کے حل کے لیے کسی اور سے مطالبہ کر رہے ہیں اور جن مسائل کے حل کے لیے حکمران طبقات قانونی اور آئینی طور پر پابند ہیں ان کے حل کے لیے کوئی فارمولا یا روڈ میپ پیش کرنے کے بجائے وہ کہہ دیتے ہیں کہ یہ بڑا سنگین مسئلہ ہے‘ جس کو فی الفور حل ہونا چاہیے لیکن وہ اس بارے میں کچھ نہیں کہتے کہ حل کی اصل ذمہ داری کس پر ہے۔ اس کی ایک مثال وزیر دفاع خواجہ آصف کی حالیہ پریس کانفرنس ہے۔ اس پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئی وزیر موصوف نے ملک میں سکیورٹی کی صورتحال پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے خدشہ ظاہر کیا کہ سوات میں اس وقت جو کچھ ہو رہا ہے وہ آگ ہمارے دامن تک بھی پہنچ سکتی ہے۔ ہم ان معاملات سے لاتعلق نہیں رہ سکتے اور ہماری بے رخی اور عدم توجہ کی وجہ سے کہیں ایسے حالات در پیش نہ ہوں کہ ملک کی وحدانیت کو خطرہ در پیش ہو۔
خواجہ آصف کو بصد احترام یہ باور کرانے کی ضرورت ہے کہ اہلِ حکم کا کام محض تشویش کا اظہار کرنا اور خدشات ظاہر کرنا نہیں ہوتا‘ یہ کام ملک کے دانشوروں‘ عوام اور سماج کے ایسے طبقات کا ہوتا ہے جو معاملات پر نظر تو رکھتے ہیں‘ ان کے بارے میں فکر مند بھی ہوتے ہیں لیکن ان کے پاس عملی طور پر کچھ کرنے کا کوئی اختیار نہیں ہوتا۔ ان کے دائرۂ اختیار میں تشویش اور خدشے کا اظہار ہی ہوتا ہے جو وہ وقتاً فوقتاً کرتے رہتے ہیں۔ وزیر دفاع نے جس خدشے کا اظہار اب کیا ہے‘ عوامی حلقوں میں اس کا اظہار بہت عرصے سے ہو رہا ہے۔ اتنے انتظار کے بعد کسی ملک کے وزیر دفاع کا کام محض تشویش اور خدشے کا اظہار نہیں ہوتا بلکہ دوٹوک اور واشگاف انداز میں عوام کو بتانا ہوتا ہے کہ یہ مسئلہ کیسے پیدا ہوا۔ اس کا ذمہ دار کون ہے۔ اور اب جبکہ حکومتِ وقت کو اس مسئلے کی شدت کا اندازہ ہو ہی گیا ہے تو اس کے حل کے لیے حکومت کے پاس کیا منصوبہ یا روڈ میپ ہے؟ اور حکام اپنی آئینی و قانونی ذمہ داری پوری کرنے کے لیے کیا اقدامات کر رہے ہیں۔
بد قسمتی سے ہمارے حکمران اس کے بجائے ایسا لہجہ اختیار کرتے ہیں جس سے لگتا ہے کہ اس مسئلے کے حل کے لیے فوری اقدامات کرنا کسی اور قوت کی ذمہ داری ہے اور وہ اس قوت سے ایسا کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ اس رویے کو دیکھ کر عوام یہ سوال اٹھانے پر مجبور ہیں کہ اگر حکمران طبقات بھی ہماری طرح تشویش اور خدشے کے خالی خولی اظہار سے آگے نہیں بڑھ سکتے تو اس مسئلے کا حل کیا ہے؟ وزیر دفاع نے یہ بھی کہا کہ سبھی بڑے ریاستی اداروں سے غلطیاں ہوئی ہیں‘ اُن سب کو ریاست کو در پیش خطرات سے فوراً نمٹنا چاہیے۔ اگر پاکستان میں ایسے مسائل کی تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو حکمران طبقات کے اس طرح کے رویے کی وجہ سے کئی تباہ کن اور خطرناک واقعات رونما ہوئے ہیں جہاں حکمران اپنی فوری آئینی ذمہ داریاں پوری کرنے کے بجائے ایسا رویہ اختیار کرتے رہے جیسے وہ کسی نا دیدہ قوت سے ان مسائل کے حل کا مطالبہ کر رہے ہوں۔ حال ہی میں سوات میں خون خرابہ اور ریاست کی رِٹ کو چیلنج کرنے کے جو واقعات ہوئے ہیں وہ حکمران طبقات کی نا اہلی اور شدت پسندوں کے بارے میں سخت اور دو ٹوک رویہ رکھنے میں ناکامی کی وجہ سے ہوئے۔ قومی اسمبلی کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ بلوچستان کے حالات کے بارے میں اختر مینگل نے جن خطرات کا اظہار کیا وہ حقیقی ہیں لیکن ان خطرات کے تدارک کے باب میں انہوں نے بس یہ کہا کہ وہ اگلے اجلاس میں بلوچستان کے مسئلے پر ''ٹروتھ کمیشن‘‘ بنانے کا اعلان کریں گے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ماضی میں فاش غلطیاں ہوئیں اور وزیراعظم کو ان مسائل پر توجہ دینی چاہیے۔ لیکن اگر غور سے دیکھا جائے تو وزیر دفاع کی اپروچ بھی ماضی کے ان وزرا اور فیصلہ سازوں سے مختلف نہیں ہے جو اپنے اپنے دور میں ماضی کی فاش غلطیاں مانتے رہے۔ حالت کی سنگینی کا اعتراف کرتے رہے‘ بلوچستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا ذکر بھی کرتے رہے‘ کمیشن بنانے کی باتیں بھی کرتے رہے لیکن عملی طور پر اس باب میں کسی قسم کا کوئی قدم اٹھانے سے کتراتے رہے اور معاملات کو اگلے اجلاس اور اگلے دن پر ٹالنے کا طرزِ عمل اختیار کرتے رہے ہیں جس کے نتیجے میں اب حالات سنگین تر شکل اختیار کر چکے ہیں۔