"FBC" (space) message & send to 7575

لوٹ جاتی ہے اُدھر کو بھی نظر

جدید میڈیا ہمارے زمانے کا ایک عظیم کرشمہ ہے۔ اس میں ہر طرح کا روایتی اور غیر روایتی میڈیا شامل ہے۔ پاکستان پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے دور سے گزر کر اب سوشل میڈیا کے پیچیدہ دور میں داخل ہو چکا ہے۔ ہر طرف معلومات کی فرا وانی ہے مگر اس کے باوجود پاکستان میں اگر کوشش بھی کی جائے تو زندگی کے اہم شعبہ جات کے بارے میں تازہ ترین اعداد و شمار میسر نہیں ہوتے۔ اس طرح کی خدمات پیش کرنے والے سرکاری محکموں‘ اداروں اور نجی ذرائع کے پاس کوئی نہ کوئی معقول وجہ ہوتی ہے‘ جو ان اعداد و شمار کے اَپ ڈیٹ نہ ہونے کا کوئی نہ کوئی جواز پیش کرتے رہتے ہیں؛ چنانچہ اس سلسلے میں چند سال پرانے اعداد و شمار یا عالمی اداروں کی معلومات پر بھروسا کرنا پڑتا ہے۔ مگر پاکستان میں ایک ایسی نفسیاتی ساخت تشکیل پا چکی ہے‘ جس کی موجودگی میں بہت لوگ عالمی اداروں کی رپورٹس اور اعداد و شمار پر اعتبار نہیں کرتے۔ حالانکہ دنیا بھر میں یہی ادارے معلومات اور اعداد و شمار کے لیے بہت ہی معتبر تصور کیے جاتے ہیں اور عام طور مقامی حکومتیں اور میڈیا اپنی بات میں اعتبار پیدا کرنے کے لیے ان عالمی اداروں کے اعداد شمار کا حوالہ دیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں خوراک کی کمی‘ بھوک اور اس سے جڑے دیگر مسائل پر تحقیق کرنے کے لیے ہمیں یا تو چند سال پرانے اعداد و شمار کو بنیاد بنانا پڑتا ہے یا پھر عالمی اداروں مثال کے طور پر یونیسف اور عالمی بینک وغیرہ کے تازہ ترین اعداد و شمار دیکھنا پڑتے ہیں۔
آج کل بھوک‘ خوراک کی کمی اور اس سے جڑے مسائل کے لیے عام طور پر فوڈ سکیورٹی کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے اور اس حساب سے ملکوں کی عالمی رینکنگ کی جاتی ہے۔ اس میں ''گلوبل ہنگر انڈیکس‘‘ کی رینکنگ کو کافی اعتبار حاصل ہے۔ اس انڈیکس کے مطابق 119 ممالک کی رینکنگ میں پاکستان کا نمبر 106واں ہے۔ اس طرح پاکستان کو ان ممالک کی صف میں شامل کیا گیا‘ جن میں آبادی کا ایک بڑا حصہ کم خوراکی کا شکا ر ہے۔ کم خوراکی کے علاوہ اس میں غذائیت کی کمی‘ آئرن‘ کیلشیم اور وٹامنز کی کمی‘ صاف پانی کی عدم دستیابی اور اس طرح کے دوسرے عوامل شامل ہیں۔ رپورٹس کے مطابق پاکستان میں غذائیت سے بھر پور اشیا یعنی گوشت‘ مچھلی‘ دودھ‘ سبز یوں اور پھلوں کا استعمال ترقی یافتہ دنیا کی نسبت چھ سے دس گنا کم ہوتا ہے۔ پاکستان کے محکمۂ صحت اور یونیسیف کی طرف سے خوراک کے حوالے سے 2018ء کے سروے سے بہت ہی حیرت انگیز نتائج سامنے آتے ہیں۔ اس سروے کے مطابق پاکستان ضروری اور بنیادی خوراک کی پیداوار کے سلسلے میں خود کفیل ہے۔ دنیا میں گندم پیدا کرنے والے ممالک میں پاکستان کا آٹھواں نمبر ہے‘ چاول پیدا کرنے والے ممالک میں اس کا دسواں نمبر ہے۔ گنا پیدا کرنے میں یہ پانچویں نمبر پر آتا ہے اور دودھ کی پیداوار میں یہ چوتھے نمبر پر ہے۔ لیکن اس کے باوجود ملک کی 36.9 فیصد آبادی خوراک کی سنگین کمی کا شکار ہے۔ خوراک میں کمی کی وجہ سے پانچ سال سے کم عمر کے تقریباً پچاس فیصد بچے سٹنٹڈ ہوتے ہیں‘ یعنی اپنی عمر کے اعتبار سے ان کے قد چھوٹے رہ جاتے ہیں۔
اس خوراک کی کمی کا صرف یہ نقصان ہی نہیں ہے کہ بچوں کے قد چھوٹے رہ جاتے ہیں یا ان کا وزن کم ہوتا ہے‘ بلکہ اس کے پاکستان کی مجموعی معاشی صورتحال پر بھی انتہائی گہرے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ کم خوراکی کی وجہ سے ملک کو جو معاشی نقصان ہوتا ہے اس پر خود منسٹری آف پلاننگ نے چند سال پہلے اقوام متحدہ کے ورلڈ فوڈ پروگرام کے ساتھ مل کر ایک رپورٹ شائع کی تھی۔ اس رپورٹ کے مطابق کم خوراکی کی وجہ سے ہر سال پاکستان کی معیشت کو 7.5 بلین ڈالر کا نقصان ہوتا ہے جو کل جی ڈی پی کا تین فیصد بنتا ہے۔ اس میں وہ اخراجات شامل ہیں جو بچوں میں کم خوراکی کی وجہ سے پیدا ہونے والی طرح طرح کی بیماریوں کے علاج کے لیے خرچ کیے جاتے ہیں۔ دوسرے نمبر پر وہ نقصان ہے جو پانچ سال سے کم عمر بچوں کی اموات کی بلند شرح کی وجہ سے مستقبل کی لیبر فورس میں کمی کی وجہ سے ہوتے ہیں۔ اس رپورٹ کے مطابق 3.7 بلین ڈالرکم خوراکی کی وجہ سے بچوں کی سٹنٹنگ اور آیوڈین کی کمی کی وجہ سے ہونے مسائل پر خرچ ہوتے ہیں۔
اس طرح 657 ملین امریکی ڈالر خوراک کی کمی کی وجہ سے عام کمزوری‘ تھکاوٹ اور خون کی کمی جیسے اثرات کا مقابلہ کرنے پر خرچ ہو جاتے ہیں۔ اب یہاں قدرتی طور پر پہلا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب پاکستان بنیادی ضرورت کی خوراک پیدا کرنے والے ممالک کی پہلی صفوں میں شامل ہے تو پھر یہاں پر خوراک کی کمی‘ بھوک اور فاقہ کشی کی اتنی خوفناک شکلیں کیسے موجود ہیں۔ پاکستان گندم‘ چاول‘ دودھ اور گنا پیدا کرنے والے ممالک میں آگے آگے ہے تو پھر یہاں اتنی بھوک کیوں ہے؟ تو اس کا سادہ سا جواب یہ ہے کہ پاکستان بہت بڑی مقدار میں خوراک تو پیدا کرتا ہے مگر خوراک کے ان ذخائر تک ملک کے غریب اور کمزور طبقات کو رسائی حاصل نہیں ہے۔ خوراک کی پیداوار کے بنیادی ذرائع یعنی زمینوں اور مشینوں پر ملک کے ایک چھوٹے سے طبقے کی اجارہ داری ہے۔ یہ طبقہ جاگیرداروں‘ زمین داروں اور اب نئے ابھرتے ہوئے جدید فارمرز اور ٹھیکے داروں پر مشتمل ہے۔ یہ لوگ زرعی پیداوار کے تمام روایتی اور جدید ذرائع کے مالک ہوتے ہیں اور زرعی پیداوار کو ذاتی منافع اور دولت میں بے تحاشا اضافے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ گندم‘ چاول اور گنے جیسی زرعی اجناس کی لاکھوں ٹن پیداوار تک غریب طبقات کی بس اتنی رسائی ہوتی ہے کہ وہ اس میں بطور کھیت مزدور اور محنت کش کے حصہ لیتے ہیں اور جب فصل اجناس کی شکل اختیار کر لیتی ہے تو ان کا اس سے تعلق ختم ہو جاتا ہے۔ اور جس محدود طبقے کا ذرائع پیداوار پر اجارہ ہوتا ہے وہ بلا شرکتِ غیرے ان اجناس کا مالک بن جاتا ہے۔ ان اجناس سے بے تحاشا منافع صرف کھیت مزدور یا محنت کش کی سستی محنت کا نتیجہ ہی نہیں ہوتا بلکہ اس شعبے میں اجارہ داری کی وجہ سے وہ بے تحاشا منافع کے کئی دیگر راستے اختیار کرتے ہیں۔
گزشتہ کئی سالوں سے اخبارات میں گندم کی فاضل پیداوار اور پھر اچانک اس کی قلت کے اعلانات‘ چینی کی برآمد اور اس پر سبسڈیاں‘ پھر قلت کے پیش نظر درآمد جیسی خبریں ان راستوں کی نشاندہی کرتی ہیں۔ یہ صورت حال اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ زرعی اجناس دولت مند طبقے کی دولت میں اضافے کے لیے استعمال ہوتی ہیں اور یہ بنیادی اور زندہ رہنے کے ضروری اسباب غریب طبقات کی پہنچ سے دور ہیں اور روز بروز ان کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے ان کی پہنچ سے مزید دور ہوتے جا رہے ہیں۔ آٹے‘ چینی‘ پیاز وغیرہ کی پیداوار میں ہیر پھیر‘ ان کو فاضل قرار دے کر برآمد‘ پھر قلت قرار دے کر درآمد کے عمل کے بعد جب قیمتیں آسمان سے بات کر رہی ہوتی ہیں تو یہ ان اجناس کی ملکیت اور تجارت سے جڑے دولت مند طبقات کی دولت میں ہزاروں گنا اضافے کی نوید اور غریب محنت کش کی بھوک ننگ میں اضافے کی خبر ہوتی ہے۔ ستم ظریفی کی بات یہ ہے کہ اب یہ سارا سلسلۂ عمل کوئی خفیہ بات نہیں ہے۔ سب کچھ طشت از بام ہو چکا ہے مگر اس باب میں نہ کسی سنجیدہ فورم پر بحث ہوتی ہے اور نہ ہی قانون سازی ہوتی ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں