کئی برس ہوتے ہیں وبا پر ایک معرکہ آ را ناول آیا تھا۔ ناول کا نام تھا ''سالویشن سٹی‘‘۔ یہ ناول ایک ایسے لڑکے کے بارے میں تھا جس کے والدین ایک وبائی مرض کا شکار ہو جاتے ہیں۔ یہ پر اسرار وبا سانس کی بیماری ہے۔ یہ خطرناک وائرس انتہائی تیز رفتاری سے پھیلتا ہے اور پورے معاشرے کو اپنی گرفت میں لے لیتا ہے۔ سکول‘ فیکٹر یاں اور دفاتر بند ہونے لگتے ہیں۔ وائرس کی کوئی معلوم دوائی نہیں ہے۔ میڈیکل کمیونٹی لا جواب اور پریشان ہے۔ واحد راستہ یہ ہے کہ وائرس سے بچا جائے‘ حفاظتی انتظامات کیے جائیں‘ مگر ان حالات میں پوری طرح حفاظتی انتظامات بھی نہیں کیے جا سکتے۔ سینی ٹائزر اور ماسک حسب ضرورت دستیاب نہیں ہیں۔ ہسپتالوں میں وینٹی لیٹرز ختم ہونے لگتے ہیں۔ وائرس پھیلتا چلا جاتا ہے اور اس کی نئی نئی قسمیں اور شکلیں سامنے آتی ہیں۔ لوگ بیمار ہونے لگتے ہیں اور تیزی سے موت کے منہ میں جا رہے ہوتے ہیں۔ ناول کی مصنفہSigrid Nunezنے اس خیالی بیماری کی بنیاد 1918ء کے بد نام زمانہ فلو پر رکھی تھی جس نے لاکھوں لوگوں کی جان لے لی تھی۔ یہ اپنے وقت کی ایک خوفناک ترین وبا تھی۔ یہ ناول لکھتے وقت شاید اس نے سوچا بھی نہیں ہوگا کہ اسے اپنی زندگی میں اس خیالی کہانی کو حقیقت کے روپ میں ڈھلتے ہوئے دیکھنا پڑے گا۔ مگر ایسا ہوا۔ مصنفہ کو بنفس نفیس نیویارک شہر میں اس وائرس کا سامنا کرنا پڑا۔ اس بار اسے ایک خیالی کہانی کے بجائے حقیقی کووڈ وائرس کو لے کر ایک اور ناول تخلیق کرنا پڑا۔ یہ کام اس نے نیویارک شہر میں اپنے چھوٹے سے اپارٹمنٹ میں کورنا وائرس سے چھپ کر کیا۔ اس اپارٹمنٹ کے باہر شہر میں صورتحال بڑی در ناک تھی۔ روزانہ سینکڑوں لوگ مر رہے تھے۔ نیو یارک شہر موت کا شہر بن گیا تھا مگر اس بار اس درد ناک کہانی کو افسانوی شکل میں پیش کرنے کے سفر میں سیگرڈ اکیلی نہیں تھی ایسا کئی اور لکھاریوں نے بھی کیا۔ کورنا وائرس کے سائے میں گزرے ان تین درد ناک برسوں میں کئی لکھاریوں نے نیا ادب تخلیق کیا‘ جو کورونا وائرس سے جڑا تھا۔ اس میں کئی ایسے لکھاری بھی تھے جو خود اس وائرس کا شکار ہوئے۔ انہوں نے اپنے تجربے کو افسانے اور کہانی کی شکل میں بیان کیا۔ اب ان کی تخلیقات ایک ایک کر کے سامنے آ رہی ہیں۔ کووڈ وائرس کے بارے میں کتابوں کی ایک نئی فصل سامنے آئی ہے۔ لکھاریوں میں گمنام اور مشہور مصنفین شامل ہیں۔ مشہور مصنفین میں این ٹائلر‘ ایان میک ایون‘ ازابیل ایلینڈے‘ لوئیس ایرڈرچ اور روڈی ڈوئل جیسے لوگ شامل ہیں‘ جن کی اس موضوع پر انگریزی زبان میں لکھی گئی کتابیں بیسٹ سیلر ز میں شمار ہونے لگی ہیں اور لاکھوں لوگوں نے ان کو خریدا اور پڑھا ہے۔ یہ جو ادب تخلیق ہوا ہے‘ اس کا نقطہ ٔماسکہ وائرس کی وجہ سے پیدا ہونے والی تنہائی‘ انسانی رشتوں پر تناؤ اور دوسرے نفسیاتی اور سماجی مسائل ہیں۔ اس ادب میں اس بات کا احوال بیان کیا گیا ہے کہ کس طرح وائرس نے ایک آرام دہ اور پرسکون زندگی کو ہلا کرر کھ دیا۔ کچھ خاندانوں کو الگ کیا‘ کچھ کو جوڑا۔ کئی پرانے رشتے ختم ہوئے اور کئی نئے رشتے قائم ہوئے۔ اور کس طرح کئی لوگوں کا طرز ِزندگی ہی ہمیشہ کے لیے بدل گیا۔ وائرس نے جس تیزی سے ہماری زندگیوں پر غلبہ حاصل کیا‘ان کو الٹ پلٹ کر رکھ دیا‘ اسی تیزی سے لکھاریوں نے رد عمل بھی دیا۔ سب سے پہلے وبائی افسانوں کا سیلاب آیا۔ یہ کہانیاں اور افسانے پڑھنے والوں کی تنہائیوں کے ساتھی بنے۔ اس طرح قارئین نے بے حس اور مغلوب محسوس نہیں کیا۔ ان کی بڑی تعداد نے کووڈ کے حملے کے دوران سالوں کے جذباتی اتھل پتھل کے باوجود ان افسانوں کو پڑھا۔ افسانوں کے بعد ناول‘ شاعری‘ تحقیقی مضامین کا بھی ایک سیلاب آیا۔ اب لگتا ہے کہ اس دور کا اختتام ہو رہا ہے‘ مگر اس دور میں تخلیق ہونے والا ادب کئی برسوں تک سامنے آتا رہے گا۔ اب بظاہر ایسا لگتا ہے کہ دنیا میں وائرس کم ہو رہا ہے اور ایک درد ناک دور کا اختتام ہو رہا ہے۔ دنیا کے کئی ممالک کورونا سے جڑی پالیسیوں کو اب بدل رہے ہیں۔ کئی ایک وائرس کی وجہ سے نافذ پبلک ہیلتھ ایمرجنسی ختم کرنے کا اعلان کر چکے ہیں اور کئی ایسا کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ یہ اس بات کی علامت ہے کہ وبائی مرض ایک نئے اور شاید کم سنگین مرحلے میں چلا گیا ہے‘ مگر وبا کے بعد جو دور آ رہا ہے وہ لکھاریوں لیے کم دلچسپ نہیں ہے۔
ایک وقت تھا کہ ویکسین کے حصول کے لیے مختلف ملک ایک دوسرے کے آمنے سامنے آ گئے تھے۔ کئی ایک نے ویکسین کی خاطر پرانے اور گہرے رشتوں کو پس پشت ڈالنا شروع کر دیا تھا‘ مگر اب صورتحال بدل گئی ہے۔ اب ویکسین کی عالمی مانگ ختم ہو رہی ہے‘ کئی ممالک فارماسیوٹیکل کمپنیوں کے ساتھ اپنے طے شدہ سودوں سے باہر نکلنے کے لیے بات چیت کر رہے ہیں۔ جن کی اب ان کو ضرورت نہیں ہے۔ کئی ملکوں کے پاس ملین کے حساب سے فاضل ویکسین پڑی ہے‘ جس کی ایکسپائری تاریخ متعین ہے۔ اب ان کو فکر اس ویکسین کو ٹھکانے لگانے کی ہے۔ بہت سے ممالک نے مہینوں پہلے وبائی امراض کے ماسک کی ضروریات کو چھوڑ دیا تھا۔ زندگی معمول کی طرف لوٹ رہی ہے‘ لیکن اس کے دامن میں کئی افسانے اور کہانیاں ہیں۔ یہ کہانیاں آنے والے برسوں میں سنی اور سنائی جاتی رہیں گی۔ ہمارے ارد گرد ٹی وی شوز اور دستاویزی فلموں سے لے کر طویل نان فکشن‘ شاعری اور مختصر کہانیوں تک‘ وبائی موضوعات پر مبنی مواد کی کوئی کمی نہیں ہے مگر ناولوں کو مکمل ہونے اور سامنے آنے میں اکثر زیادہ وقت لگتا ہے‘ لیکن دریں اثنا وبائی امراض سے متاثرہ ادبی افسانوں کی پہلی لہر ہم تک پہنچ رہی ہے۔ یہ جو نیا لٹریچر تخلیق ہو رہا ہے اس کا ہر آدمی کی زندگی سے کوئی نہ کوئی تعلق ہے۔ ان کے ساتھ بھی جو وائرس کا شکار ہوئے اور ان کے ساتھ بھی جو اس سے بچنے میں کامیاب رہے۔
ماسک‘ سماجی فاصلے‘ لاک ڈاؤن‘ اپنے پیاروں کی بیماری یا اموات جیسے تجربات سے شاید ہی کوئی بچا ہو۔ اس اعتبار سے ہر ایک کو کسی نہ کسی طریقے سے اس وائرس کا ذا تی اور ناخوشگوار تجربہ ہوا ہے‘ اس لیے اس وائرس کو لے کر جو ادب تخلیق ہو رہا ہے اس کا ہر کسی سے کوئی نہ کوئی تعلق ہے۔ اس حوالے سے اس ادب کا سکوپ بہت زیادہ ہے اور یہ عام لوگوں میں مقبول ہو رہا ہے۔
پوری ادبی تاریخ میں طاعون ایک پلاٹ کا مرکز رہا ہے‘الیاڈ اور بائبل سے لے کر بوکاکیو کے ڈیکیمرون اور ڈینیل ڈیفو کے ''A Journal of the Plague Year‘‘جیسی کلاسیکی تک۔ لیکن اس سے پہلے کی وبائی امراض نے بھی مہلک وائرس پھیلنے سے ادبی الہام حاصل کرنے میں دشواری کا مظاہرہ کیا ہے۔بہت کم قابلِ ذکر افسانے 1918ء کے فلو کے براہ راست ردعمل میں لکھے گئے تھے‘ جس نے ایک اندازے کے مطابق 50 ملین سے 100 ملین افراد کو ہلاک کیا تھا‘ لیکن ادبی ریکارڈ میں بمشکل کوئی نشان چھوڑا۔ اُس وقت کے زیادہ تر مصنفین نے اس موضوع سے گریز کیا یا صرف ترچھے انداز میں اس کا حوالہ دیا‘ شاید اس لیے کہ یہ پہلی جنگ عظیم کے بعد شروع ہوا اورایک جوش مارنے والی جنگ کی کہانی کے برعکس ایک غیر مرئی وائرس جو اندھا دھند حملہ کرتا ہے‘ ڈرامائی بیانیہ نہیں بناتا۔