"FBC" (space) message & send to 7575

آئین و آمریت کی کشمکش کا ایک باب

جنرل ضیا الحق نے 29 مئی 1988 ء کی سہ پہر اپنے سٹاف افسر جنرل رفاقت سے کاغذ اور قلم لانے کو کہا۔ کاغذ قلم دیا گیا تو جنرل نے اپنے ہاتھوں سے دو احکامات لکھے۔ پہلا حکم یہ تھا کہ محمد خان جونیجو کی حکومت کو برطرف کیا جاتا ہے اور دوسرا یہ کہ قومی اور صوبائی اسمبلیوں کو تحلیل کیا جاتا ہے۔ اس کے بعد انتہائی عجلت سے ان احکامات پر مشتمل ایک رسمی ڈرا فٹ تیار کیا گیا‘ جس کو پریس کے سامنے پیش کرتے ہوئے جنرل ضیا نے کہا کہ انہوں نے جمہوری حکومت کو بہت آزادی دے رکھی تھی مگر وہ اپنا کام کرنے میں ناکام رہے۔ ایسا لگتا ہے کہ وہ ایڈمنسٹریشن چلانے کے اہل ہی نہیں۔ میں انہیں بار بار یاد دہانی کرواتا رہالیکن یا تو وہ کسی چیز کو سنجیدہ نہیں لیتے یا وہ کچھ کرنے کا ارادہ ہی نہیں رکھتے۔ وہ ملک میں اسلامی نظام کا نفاذ کرنے اور امن و امان قائم کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ میری مسلسل کوشش کے باوجود وہ اپنی کارکردگی میں کوئی بہتری لانے میں بھی ناکام رہے‘ اس لیے میں نے اپنے آئینی اختیار کو استعمال کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور اس اختیار کے تحت میں وزیر اعظم اور اس کی کابینہ کو فارغ کرتا ہوں اور اسمبلیوں کو تحلیل کرتا ہوں۔ یہ اعلان کرنے کے بعد جنرل ضیا نے رسمی ا علامیہ بھی پڑھ کر سنایاجس کا پہلا نکتہ یہ تھا کہ جس مقصد کے لیے قومی اسمبلی تشکیل دی گئی تھی وہ پورا نہیں ہوا‘ دوسرا یہ کہ ملک میں لا اینڈ آرڈر کی صورتحال بہت خراب ہو چکی ہے جس کی وجہ سے بہت بڑے پیمانے پر انسانی جانوں اور جائدادوں کا نقصان ہوا ہے‘ تیسرا یہ کہ پاکستان کے شہریوں کی زندگی‘ جائداد‘ عزت اور سکیورٹی غیر محفوظ ہے‘ اس کے ساتھ ساتھ نظریہ ٔپاکستان اور ملک کی سالمیت شدید خطرے میں ہے‘ چوتھا یہ کہ عوامی اخلاقیات اتنی گر چکی ہے کہ اس کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ ان حالات میں میری رائے میں حکومتی معاملات کو آئین کے مطابق نہیں چلایا جا سکتا اس لیے عوام سے رجوع کرنا ضروری ہو گیا ہے‘ اس لیے میں جنرل ضیا الحق اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین کے آرٹیکل 58 2(b)کے تحت حاصل شدہ اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے قومی اسمبلی کو فوری طور پر تحلیل کرتا ہوں اور اس کے ساتھ کابینہ بھی ختم کی جاتی ہے۔ جنرل ضیا کو 58 2(b) کا یہ اختیار1985 ء میں آئین میں آٹھویں ترمیم کے ذریعے ملا تھا۔ صدر کی طرف سے آئین کے آرٹیکل 58 کے استعمال کی وجہ سے پاکستان کی تاریخ میں ایک اور آئینی مقدمہ کا اضافہ ہواجسے حاجی سیف اللہ بنام فیڈریشن آف پاکستان کے نام سے یاد رکھا جاتا ہے۔ میں نے گزشتہ کالموں میں اس طرح کے آئینی مقدمات پر کالموں کی سیریز میں مولوی تمیزالدین کیس‘ دوسو کیس‘ عاصمہ جیلانی کیس‘ بیگم نصرت بھٹو کیس اور ان کے مضمرات کا جائزہ لیا تھا‘ یہ کالم روزنامہ دنیا کی ویب سائٹ پر پڑھے جا سکتے ہیں۔ آج بات ہو رہی ہے حاجی سیف اللہ کیس کی۔
حاجی سیف اللہ کیس کو اس کے درست سیاق و سباق میں سمجھنے کے لیے اس کیس کے پس منظر کو سمجھنا ضروری ہے۔ پس منظر یہ تھا کہ جنرل ضیا کے اقتدار پر قابض ہونے کے فورا ًبعد ملک میں مارشل لاء کے خاتمے اور جمہوریت کی بحالی کے لیے جدو جہد شرو ع ہو چکی تھی۔ یہ جدو جہد آگے چل کر ایک بڑی تحریک کی شکل اختیار کر گئی جسے ایم آر ڈی کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ اس تحریک میں کئی قسم کی جماعتیں شامل تھیں لیکن اس تحریک میں کلیدی کردار پیپلز پارٹی اور بائیں بازوں کی دیگر جماعتیں ادا کر رہی تھیں۔ تحریک کے زور پکڑنے اور عوام کی بے چینی بڑھنے کی رپورٹوں سے جنرل ضیا کو اندازہ ہو گیا کہ وہ اس شکل میں اس نظام کو زیادہ عرصہ تک نہیں چلا سکتے؛ چنانچہ انہوں نے ایک ایسے نظام کے بارے میں غور و فکر شروع کر دیا جس کے تحت ان کی طاقت اور تمام تر اختیارات کو چھیڑے بغیر یہ تاثر دیا جائے کہ ملک میں جمہوریت بحال ہو گئی ہے اور عوام کو اقتدار میں شریک کیا جا رہا ہے۔ اس مقصد کے لیے انہوں نے مولانا ظفر احمد انصاری کی سربراہی میں ایک کمیشن بنا دیا۔ کمیشن نے نئے نظام کے قیام کے لیے جو سفارشات پیش کیں وہ یہ تھیں کہ ملک میں پارلیمانی کے بجائے صدارتی نظام حکومت قائم کیا جائے۔ اس نئے صدارتی نظام کے تحت پارلیمنٹ کے اختیارات کو مکمل طور پر محدود کیا جائے اور یہ کہ ملک میں غیر جماعتی بنیادوں پر انتخابات کروائے جائیں۔ نئے نظام کے قیام سے پہلے جنرل ضیا کی حکومت کو عوام کی نمائندہ حکومت ثابت کرنے کے لیے ایک ریفرنڈم کروایا گیا۔
اس ریفرنڈم میں یہ سوال پوچھا گیا کہ کیا پاکستان کے لوگ اسلامی نظام کی حمایت کرتے ہیں یا نہیں ؟ اس سوال کے نہ میں جواب دینے کے امکانات کم تھے‘ جبکہ ہا ں کی صورت میں اس کا یہ مطلب نکالا گیا کہ عوام ضیا الحق کی حمایت کرتے ہیں اور وہ صدر پاکستان ہیں۔ جہاں تک ریفرنڈم کے اعتبار کا تعلق ہے تو سیاسی جماعتیں اور انسانی حقوق کی تنظیمیں تو ایک طرف خود الیکشن کمیشن نے تسلیم کیا کہ اس ریفرنڈم میں زبردست دھاندلی اور بے ضابطگیاں ہوئی ہیں۔ مگر طے شدہ ایجنڈے کے مطابق اگلے قدم کے طور پر 25 فروری 1985 ء کو ملک میں غیر جماعتی بنیادوں پر انتخابات کروائے گے اور اس کے بعد مارچ میں 1973 ء کے آئین کی بحالی کا آرڈر جاری کیا گیا۔ اس آرڈر کے تحت آئین میں موجود کئی دفعات کو تبدیل کر دیا گیا یا ان کو معطل کر دیا گیا۔ آئین کو منسوخ تو نہیں کیا گیا البتہ اس کی اہم دفعات کو معطل کر دیا گیا۔ دھاندلی زدہ غیر جماعتی انتخابات کے نتیجے میں جو پارلیمنٹ معرضِ وجود میں آئی اس میں وزارتِ عظمیٰ کے لیے محمد خان جونیجو کو چنا گیا۔ محمد خان جونیجو کا انتخاب پیر پگاڑا کی سفا رش پر کیا گیا مگر انتخاب کے فورا ًبعد محمد خان جونیجو اور ضیا الحق میں سخت اختلافات شرو ح ہو گئے۔ آگے چل کران اختلافات کو بڑھانے میں دو تین بڑے واقعات نے اہم کردار ادا کیا۔ ایک یہ کہ محمد خان جونیجو نے جنرل ضیا کی پالیسی کے بر عکس ملک سے ایمر جنسی قوانین کو ختم کر کے پریس اور میڈیا کو آزادی دینے کی کوشش کی۔ دوسرا یہ کہ انہوں نے جنرل ضیا کی واضح ہدایات اور مخالفت کے باوجود جنیوا ایکارڈ تسلیم کر لیا اور اپنی وزیر خارجہ صاحبزادہ یعقوب علی خان کو ہدایت کی کہ وہ اس ایکارڈ پر دستخط کر دیں۔ تیسری بڑی وجہ اوجڑی کیمپ کا واقعہ تھا‘ جنرل ضیا کی مرضی کے خلاف انہوں نے جس کی انکوائری کرانے کا فیصلہ کیا۔ جونیجو نے افغانستان کے ایشو اور فارن پالیسی پر ایک کانفرنس بھی منعقد کروائی جس میں انہوں نے کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان اور پیپلز پارٹی کو بھی مدعو کیا۔
یہ اختلافات اس حد تک بڑھے کے ضیا نے محمد خان جونیجو کی حکومت برطرف اور اسمبلیاں تحلیل کرنے کا آرڈر جاری کر دیا۔ اس آرڈر کو آگے چل کر عدالت میں چیلنج کیا گیا جس میں عدالت نے اسمبلیوں کی تحلیل کے حکم کو غیر قانونی قرار دیا‘ مگر اسمبلیوں کو بحال کرنے سے انکار دیا۔ آگے چل کر صدر کی طرف سے58 2(b) کے تحت اسمبلیوں کی برطرفی کا سلسلہ مزید شدت اختیار کر گیااور اس سلسلے میں کئی کیس سامنے آئے‘ جن کا احوال آئندہ کالموں میں پیش کیا جائے گا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں