''پوری انسانی تاریخ میں جنگیں فتح اور لوٹ مار کے لیے لڑی گئی ہیں‘‘۔ یہ مختصر سا فقرہ ایک امریکی سیاستدان‘ یوجین وکٹر ڈیبس (Eugene V. Debs) کی ایک تقریر سے ماخوذ ہے۔ یہ تقریر 1918ء میں یوجین ڈیبس نے امریکی جیل سے کی تھی۔
امریکہ سے باہر بے شمار لوگوں کی رائے یہ ہے کہ بیشتر امریکی شہری اپنی حکومت کی دنیا بھر میں لوٹ مار اور قتل وغارت کی پالیسی کے حامی ہیں‘ وہ امریکی سامراج کے اُس سلسلے کی ایک کڑی ہیں جو پوری دنیا میں پھیلا ہوا ہے مگر یہ ایک مغالطہ ہے اور دنیا بھر میں پھیلے دیگر مغالطوں میں سے ایک ہے۔ اگر امریکی تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو ایسی کئی شخصیات نظر آئیں گی جنہوں نے سامراجی معاشرے میں رہتے ہوئے بھی ہر دو رمیں سامراج کے خلاف جدوجہد کی۔ جیل اور جدوجہد کے لیے جو الفاظ آج کل استعمال کیے جاتے ہیں‘ ان کو پڑھ کر یا سُن کر اب ذہن میں ایک مختلف تصور اُبھرتا ہے‘ وہ خوفناک تصور نہیں اُبھرتا جو انیسویں صدی میں اُبھرتا تھا۔ آج کل اگر کوئی بڑا سیاسی رہنما جیل چلا جائے تو اُسے زندگی کی اکثر آسائشیں میسر ہوتی ہیں مگر اٹھارہویں صدی کا امریکہ نو آبادیاتی نظام کا حصہ تھا۔ اُس وقت جو لوگ سامراج کے زیر عتاب آتے تھے ان کو ایسی عبرتناک اور پُرتشدد سزائیں دی جاتی تھیں جو آج تاریخ کا حصہ ہیں۔
امریکی تاریخ میں چند شخصیات نے انصاف کے ساتھ اپنی غیر متزلزل وابستگی کے حوالے سے عظیم کردار ادا کر کے تاریخ میں نمایاں مقام حاصل کیا۔ یوجین وکٹر ڈیبس جیسے محنت کش کا نام ان میں نمایاں ہے۔ ایک شعلہ بیان‘ پُرجوش مزدور رہنما اور امریکی صدارت کے لیے پانچ بار سوشلسٹ امیدوار بننے والا یوجین ڈیبس امریکی طاقت اور اس سے پیدا ہونے والی سنسنی خیز عدم مساوات کے خلاف لڑائی کا مجسم نمونہ تھا۔ اس کی زندگی اور کام انیسویں صدی کے آخر کے صنعتی ہنگاموں سے لے کر بیسویں صدی کے اوائل کی ٹوٹی پھوٹی سیاست تک پھیلا ہوا تھا جس نے امریکی محنت کشوں کو نئی زندگی دی اور سرمایہ داری نظام کی بنیادوں کو چیلنج کیا۔
یوجین ڈیبس ایک ایسے دور میں سامنے آیا جب صنعتی سرمایہ داری میں تیزی سے اضافہ ہو رہا تھا‘ کارخانے بڑھ رہے تھے‘ ریل کے راستے ملک کی سرحدوں کو عبور کر رہے تھے‘ اس سب کے ساتھ مزدوروں کی ایک نئی قسم بھی سامنے آ رہی تھی‘ استحصال زدہ‘ تھکے ہوئے اور بے آواز مزدور۔ ڈیبس نے ان کارکنوں کو آواز دینے میں جاندار کردار ادا کیا۔ 1893ء میں اس نے امریکی ریلوے یونین کو منظم کیا جو امریکہ کی پہلی صنعتی یونینوں میں سے ایک ہے۔ اس یونین نے ایک صنعت کے اندر تمام کارکنوں کو‘ ان کے مخصوص کردار سے قطع نظر‘ متحد کرنے کی کوشش کی۔ اگلے سال ڈیبس کو اپنے سب سے بڑے چیلنجوں میں سے ایک کا سامنا کرنا پڑا۔ اس کی زندگی میں ایک اہم موڑ اور مزدور تحریک‘ Pullman Procession۔
پل مین کمپنی کے ورکرز‘ کمپنی کی ملکیتی رہائش گاہوں کے کرائے میں اضافے اور اُجرتوں میں کٹوتیوں کے بوجھ تلے دب گئے تھے اور نوکریاں چھوڑ کر جا رہے تھے۔ ایسے میں ڈیبس اور امریکی ریلوے یونین نے ان کی ہڑتال کی حمایت کی جس کے نتیجے میں پل مین کمپنی کی مصنوعات کا ملک گیر بائیکاٹ ہوا۔ اس پر وفاقی حکومت نے ریل روڈ ٹائیکونز کے کہنے پر ہڑتالوں پر وحشیانہ طاقت کا استعمال کیا اور ہڑتال ختم کرانے کے لیے فوج کو تعینات کیا گیا جس کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر تشدد ہوا۔ ڈیبس کو گرفتار کیا گیا اور اس نے چھ ماہ جیل میں گزارے‘ لیکن یہ دھچکا بھی اس کے عزم کو کم نہیں کر سکا بلکہ اس نے اس کے عزم کو مزید مضبوط کیا۔ جیل میں گزارے وقت نے اسے مکمل بدل دیا اور اس کے اس عقیدے کو تقویت بخشی کہ سرمایہ داری‘ اپنی اصل میں جمہوریت اور انصاف کے اصولوں سے مطابقت نہیں رکھتی۔
اپنی رہائی کے بعد ڈیبس نے سوشلزم اختیار کر لیا۔ معاشرے کے ایک ورژن کو بیان کرتے ہوئے‘ جہاں طاقت اور دولت کو مساوی طور پر تقسیم کیا جائے گا‘ اس کی تقاریر جادوئی ہوتی تھیں‘ جن میں جذبہ واضح تھا۔ ڈیبس نے پُرہجوم ہالوں‘ یونین کے اجلاسوں اور عوامی چوکوں میں خطاب کئے۔ اس کی آواز کارکنوں کے لیے متحد ہونے اور امریکہ کی خوشحالی میں اپنے جائز حصے کا دعویٰ کرنے کا ایک واضح مطالبہ تھی۔ اس کی بیان بازی طبقاتی تقسیم سے بالاتر تھی۔ ڈیبس صرف ایک مزدور رہنما نہیں تھا بلکہ ان تمام لوگوں کیلئے چیمپئن بھی تھا جو ایک ایسے نظام کے ہاتھوں مجبور تھے جو لوگوں پر منافع کو اہمیت دیتا تھا۔
بعد ازاں ڈیبس کی جدوجہد کارکنوں کے حقوق سے آگے بڑھی اور وہ شہری آزادیوں‘ بڑے کاروباروں کو حکومتی ضابطوں کا پابند بنانے اور امن کا ایک پُراثر وکیل بن گیا۔ ڈیبس نے طبقاتی مسائل کو اجاگر کیا۔ اسے یقین تھا کہ انصاف کی جدوجہد صرف ایک محاذ پر نہیں کی جا سکتی۔ صدارت کے لیے اس کی یہ مہمات ان خیالات کو مرکزی دھارے میں لانے کی کوششیں تھیں۔ اگرچہ وہ صدارتی الیکشن کبھی نہیں جیت سکا لیکن اس کی شخصیت اور اقدار کا اثر ہمیشہ باقی رہا۔ ڈیبس کی انتھک وکالت نے ڈیموکریٹک اور ریپبلکن امیدواروں کو مزدوروں کے حقوق‘ کارپوریٹ ریگولیشن اور امیر وغریب کے مابین بڑھتے ہوئے فرق کو مٹانے پر مجبور کیا۔ اس کی سب سے قابلِ ذکر مہم 1920ء میں شروع ہوئی جب اسے اٹلانٹا کی وفاقی جیل سے صدر کا انتخاب لڑنا پڑا۔ ڈیبس کو پہلی عالمی جنگ پرحکومتی پالیسیوں کی واضح مخالفت کی وجہ سے قید کیا گیا تھا۔ وہ اس تنازع کو سامراج کی جنگ کے طور پر دیکھتا تھا۔ اس کا کہنا تھا کہ یہ جنگ آزادی یا جمہوریت کے لیے نہیں بلکہ یورپ اور امریکہ کی طاقتور اشرافیہ کے فائدے کے لیے لڑی گئی۔ 1918ء میں ڈیبس کی مشہور تقریر‘ جہاں اس نے اعلان کیا کہ ''پوری تاریخ میں جنگیں فتح اور لوٹ مار کے لیے لڑی گئیں‘‘ اس کی گرفتاری کے لیے آخری تنکا ثابت ہوئی‘ جس کی بعد جاسوسی ایکٹ کے تحت اس کی گرفتاری عمل میں آئی لیکن جیل میں بھی ڈیبس بے خوف رہا۔ اس صدارتی مہم‘ جو اس کے جیل سے چلائی گئی تھی‘ کے نتیجے میں اس نے تقریباً دس لاکھ ووٹ لیے‘ جو امریکی عوام میں اس کے پیغام کی گونج کا واضح ثبوت ہے۔
یوجین وکٹر ڈیبس کی میراث اس کی انتخابی شکستوں سے بالاتر ہے۔ اس نے اپنے وقت کے سیاسی منظر نامے کو مکمل طور پر بدل کر رکھ دیا تھا۔ اس کے خیالات نے ڈیمو کریٹک پارٹی کے ترقی پسند عناصر اور مزدور تحریکوں کو متاثر کیا جو بعد میں نئی اصلاحات کا باعث بنے۔ لیکن اپنے سیاسی اثر ورسوخ سے ہٹ کر ڈیبس ایک اور حقیقت کو سامنے لایا کہ انصاف‘ مساوات اور جمہوریت تجریدی نظریات نہیں ہیں بلکہ قابلِ حصول حقیقتیں ہیں‘ اگر لوگ ان کے لیے لڑنے کے لیے تیار ہوں۔ مضبوط ہوتی کارپوریٹ طاقت‘ بڑھتی عدم مساوات اور سیاسی بدعنوانی کے دور میں یوجین ڈیبس نے ان لوگوں کے لیے بات کی جنہیں خاموش کرا دیا گیا تھا۔ اس نے نہ صرف کارکنوں کو منظم ہونے کی طاقت دی بلکہ یہ امید بھی دلائی کہ اپنے لیے ایک نئی دنیا بھی بنائی جا سکتی ہے۔ اس کے الفاظ آج بھی مزدوروں کے حقوق‘ معاشی انصاف اور امن کی جدوجہد میں گونجتے ہیں۔ جیسا کہ ڈیبس نے خود ایک بار کہا تھا ''جب تک ایک نچلا طبقہ ہے میں اس میں ہوں‘ جب تک جیل کا وجود باقی ہے‘ میں آزاد نہیں ہوں‘‘۔ یوجین وکٹر ڈیبس کی زندگی استحصال سے جکڑے ہوئے لوگوں کو آزاد کرنے کے لیے وقف تھی اور انصاف کے لیے اس کی لڑائی ایک منصفانہ معاشرے کے لیے جاری جدوجہد میں ایک روشن مینار رہی ہے۔ یہ صرف ڈیبس ہی نہیں جس نے امریکی عوام کے سامنے اپنے ملک کے عالمی کردار کو بے نقاب کیا بلکہ ایسے دیگر بے شمار لوگ ہیں جن کو خراجِ تحسین پیش کرنا لازم ہے۔