ناراضگی کی کیا بات ہے۔ انجن ہوتا ہی فیل ہونے کے لیے ہے۔ اگر وہ پاس ہو جائے تو امیدوار کہلائے۔ ہماری سیاسی اصطلاح میں چھوٹے سیاسی فنانسر کو ''ریہڑا‘‘ جبکہ میگا فنانسر کو انجن کہا جاتا ہے۔ ریہڑا اس لیے کہ وہ روٹین چلا سکتا ہے انقلاب ساز سرمایہ کاری نہیں کر سکتا‘ مگر انجن جونہی باس کا پھولا ہوا سانس دیکھتے ہیں دھواں چھوڑ دیتے ہیں۔ جس کا مطلب ہے کھیل ختم۔
مجھے نہیں معلوم مصر‘ لیبیا اور تھائی لینڈ میں باس کی سانس پہلے پُھولی یا انجن نے دھواں چھوڑنے میں پہل کی‘ لیکن یہ طے ہے کہ وہاں اب انجن کوئی نہیں صرف ڈبے ہی ڈبے ہیں۔ الیکشن ڈبہ، جمہوریت ڈبہ، نظام ڈبہ، سیاست ڈبہ اور معیشت ڈبہ۔ ہمارے ہاں تین ڈبے ان سے بھی زیادہ ہیں۔ ان میں سے دو کا ذکر پھر کبھی کریں گے لیکن ایک کا ذکر کرنا آج بنتا ہے اور وہ ہے ڈبہ پِیر۔
چین سے منگوائے گئے ''ٹرانسپیرنٹ‘‘ ریلوے انجن نے اپنی سواریوں سے شفاف انصاف کیا۔ ایسا منصفانہ سلوک تو ڈبہ جمہوریت والے ملکوں کے ڈبہ نظام کے لیڈر بھی عوام سے نہیں کرتے۔ چینی انجن نے صاف صاف بتا دیا کہ وہ اصلی چینی ہے۔ نقلی کارروائی ڈالنے کے لیے چَھک چَھک بر وزنِ بَک بَک نہیں کرے گا۔
ایک زمانہ تھا جب ہمارے ریلوے کے ادارے میں پنڈی لوکوشیڈ اور پورے مُلک کی ریلوے ورکشاپس میں صدیوں پرانے انجن اوورہال کرنے والے کاری گر اور مزدور راج کرتے تھے۔ آج کل انجن سمیت سارے ڈبوں پر وہ لوگ بیٹھے ہوئے ہیں جن کے ہاتھوں میں چھاج ہیں۔ اس لیے ملک کی کوئی چھوٹی موٹی چھاننی انہیں کیا طعنہ دے گی؟ ریلوے کی بحالی کے پیکج نے پہلا مثبت نتیجہ دے دیا‘ جو عین جمہوری ہے اور شفاف بھی‘ صرف اس پر آر او اپنے دستخط کرنا بھول گیا ہے۔ جمہوریت اپنے پہلے دس مہینوں میں کیوں سانس پُھلا بیٹھی ہے؟ اس کا جواب وہ دیں گے جو لاجواب جمہوریت کے کامیاب مشیر ہیں۔ پچھلے بجٹ کے مارے ہوئے عوام ابھی سے آنے والے بجٹ کے چابُک کی تڑاخ تڑاخ اپنے جسموں پر محسوس کر سکتے ہیں۔ وزارتِ خالی خزانہ کے پہلے بجٹ کے بعد جن لوگوں نے چیخ ماری تھی‘ وہ تیاری کر لیں‘ اِس بجٹ کے بعد ان کو چینی انجن سے مفت ٹکّر مارنے کی سہولت مل جائے گی۔
پچھلی حکومتوں نے جہاں پیپرا رولز کی خلاف ورزی کی وہاں اُن پر مقدمے بن گئے اور جہاں ان میں سے کسی نے کہا کہ رولز کے مطابق کیوں نہیں چلتے‘ ان پر الزام لگ گیا کہ یہ ریاست کا نظام نہیں چلنے دیتے۔ ہمارے ریاستی نظام کی جمہوریت کے چاروں ڈبے چاروں صوبوں میں میرپور ماتھیلو، چاغی، کرک اور بھکر کی طرف جا رہے ہیں۔ ظاہر ہے فیڈریشن چاروں صوبوں کا انجن ہے۔ اسی لیے یہ شالامار باغ کے سامنے رونق میلہ دیکھنے کے لیے پارک ہو گیا ہے۔ فیڈریشن کے انجن کو چاروں صوبائی ڈبوں کی اتنی ہی فکر ہے‘ جتنی فکر آلو امپورٹ کرنے والوں اور گوشت ایکسپورٹ کرنے والوں کو عوام کی ہے۔ سید ضمیر جعفری نے ایسی ہی ڈبہ کارکردگی کو یوں بیان کر رکھا ہے۔ ایک مصرعہ میں خود ہی سنسر کر دیتا ہوں اور دوسرا مصرعہ یہ ہے ع
جارج اب بھی ایک طرح کے جُوتے پالش کرتا ہے
آج کل ریلوے کے کاریگر "way" پر زیادہ توجہ دے رہے ہیں یا پھر جمہوریت کے DE "RAIL" ہونے پر۔ مسافر اطمینان رکھیں جب بھی RAIL" " کی باری آئی اور نئے کاریگر جمہوریت کے پھل فروٹ سے فارغ ہوئے‘ انجن چلانے کے لیے dock yard چلانے والے کاریگر واپس آ جائیں گے۔
حال ہی میں ایک صاحب نے اپنے زبانی ریمارکس میں چابُک کا ذکر کیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ وہ چابک بے چارہ کہاں چُھپ کر بیٹھا ہے؟ پاکستان کی معیشت عوام کو ابھی تک کوئی سہولت اس لیے نہیں دے سکی کہ سارا پیسہ نمائشی منصوبوں پر خرچ ہوتا ہے۔ باہر سے آئی ہوئی سرمایہ کاری ہو یا اندرونی بچت اسے ہم آج سے زراعت کے شعبے کسان، ہاری، زرعی مزدور اور کاشت کار کی بدحالی ختم کرنے کے لیے لگائیں تو اس کے تین نتائج لازماً نکلیں گے۔ پہلا روایتی کاشتکاری، اچھی مشینوں، اچھی کھاد، اچھی دوائوں سے بین الاقوامی سطح کی زراعت میں تبدیل ہو جائے گی۔ کسان کا پیٹ بھرنے سے معیشت کا پیٹ بھی بھرے گا‘ جو ہماری بدحالی ختم کرنے کا واحد راستہ ہے۔ حکومت اگر مُردہ، نیم مُردہ اور پژمُردہ صنعتوں کی بجائے فوڈ باسکٹ پر توجہ دے تو ہم خود کفیل ہو جائیں گے‘ اور تیسرا یہ کہ پاکستان میں کروڑوں ایکڑ زمین قابلِ کاشت ہے‘ زرعی مزدور کو معقول آمدنی ملے اور کاشتکار کو معقول منافع تو بدحالی بھاگ جائے گی۔ ہمارے معاشی ماہرین صرف کارپوریٹ کلچر کے بڑے کھلاڑیوں کی خدمت میں مصروف ہیں۔ اس ہفتے فیڈرل بورڈ آف ریونیو نے ایک ایس آر او جاری کیا‘ جس کے ذریعے لاکھوں نئے لوگ ٹیکس نیٹ میں لانے اور لاکھوں ٹیکس نادہندے پکڑنے کا طریقہ کار درج تھا۔ پاکستانی معیشت کے قبضہ گروپ کے ساتھ میٹنگ ہوئی اور وزارتِ خزانہ نے اپنے دوستوں کے خلاف ایس آر او کو ختم کر کے یوں وزارت سے باہر پھینکا‘ جس طرح یہ ایس آر او چوہے مار گولیوں کا بنا ہوا تھا۔ ڈبہ نظام وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مزید ڈبوں میں بند ہوتا جا رہا ہے۔ آج پاکستان کے اندر سرمایہ سُپر پاور ہے‘ اور اس سپر پاور کا اپنا ورلڈ آرڈر بھی ہے۔ اسی لیے یہ نظام ایک بلب اور آدھا پنکھا چلانے والے بجلی کے کُنڈا چور کو پکڑ سکتا ہے مگر وہ جو ٹنوں کے حساب سے تیل لے کر اسے بیچ دیتے ہیں‘ سینے پر ہاتھ مار کر بجلی بنانے سے انکار کرتے ہیں‘ ان کی طرف جاتے ہوئے ڈبہ نظام ایک مزید ڈبے کے گھیرے میں آ جاتا ہے۔
رہا بے چارہ چابُک تو اس میں نہ ڈنڈا ہے نہ چمڑے میں تڑ۔ پچھلے دنوں میں حیران ہوا جب ایک قومی ادارے نے مہنگائی کو لفظوں کے سُونامی میں لپیٹ کر چھپایا۔ افراطِ زر کو دس فیصد سے کم کر کے یوں دِکھایا جس طرح دیہات کے میلے میں کالے کپڑے کے اندر بند سینما میں ہاتھ سے کنٹرول کر کے مرضی کے منظر چلانے وا لی فلم دِکھائی جاتی ہے۔
یہ ڈبہ فلم سال مہینے کیا چلے گی‘ اس کا ڈبہ ابھی سے خالی ہے۔ اقبال کے زمانے میں غالباً ڈبہ نہیں ہوتا تھا ویسے بھی بے فیض ڈبہ اور بے فصل کھیتی دونوں کی تقدیر ایک جیسی ہے۔ جس کھیت سے دہقاں کو میسّر نہ ہو روزی‘ اسے آگ لگانے والے کی ضرورت نہیں پڑتی۔