لیجیے! ایک جمہوری معاشرے کا روڈ میپ تیار ہے۔ ایسا معاشرہ جہاں شیر اور بکری ایک ہی گھاٹ پر ''اشنان‘‘ کریں گے۔ رول آف لا اور برداشت کا کلچر جس سماج کا سکّہ رائج الوقت ہے۔ آپ کو مبارک ہو۔
عربی زبان میں کہتے ہیں: ''الناسَ عَلَی دِینِ ملُوکھِم‘‘ یعنی لوگ اپنے بادشاہوں کے طریقے پر چلتے ہیں۔ ہماری مثالی بلکہ بادشاہی جمہوریت کا طریقہ سب کے سامنے ہے۔ رول ماڈل کے طور پر ملک بھر میں سب سے بہتر طرزِ حکمرانی والے صوبے میں گزشتہ روز دو مرکزی شہروں لاہور اور فیصل آباد میں قانون ساز ہاتھوں سے قانون کی بالا دستی کے ٹریلر دکھائے گئے۔
پہلا ٹریلر پنجاب اسمبلی کے فلور پر چلایا گیا‘ جہاں سرکاری رکنِ اسمبلی نے اپوزیشن بنچوں کے ایک متحرک رُکن کو کیمرہ رول ہونے کے بعد ایک زناٹے دار تھپڑ دے مارا۔ اس تھپڑ کی ویڈیو کلپ شروع میں ٹی وی سکرینوں پر خوب دکھائی گئی مگر پھر سنسر سے آزاد جمہوریت کا یہ جمہوری عمل خفیہ ردِعمل کے ذریعے بڑی حد تک تحلیل کر دیا گیا۔ میڈیا مینجمنٹ کے عادی بڑے واقعات کو کس طرح چھوٹا سا وقوعہ بنا دیتے ہیں‘ یہ واردات اس وارداتی طریقہ کار کا شہکار کہی جا سکتی ہے۔ لیکن وہ زمانہ چلا گیا جب انصاف کے لیے قدرت کا نظام اتنی دیر لگا دیتا تھا کہ لوگ سمجھنا شروع کر دیتے تھے شاید اندھیر ہو چلا ہے۔ اس معاملے میں بھی ایسا ہی ہوا مگر طریقہ چھوٹے صوبے مہران کی رکن صوبائی اسمبلی وحیدہ شاہ والا نہیں تھا‘ جب تھپڑ راج کے افتتاحی کلپ کو کلاشنکوف کی ٹھاہ ٹھاہ والی آواز کے ساتھ چلایا گیا۔ اس قانون شکنی پر پہلے ایف آئی آر کاٹی گئی۔ پھر اُس کا سو موٹو نوٹس چلا۔ وحیدہ شاہ کی اسمبلی کی رکنیت سے لے کر گرفتاری تک کی داستان کو دہرانے کی ضرورت ہی نہ رہی۔ سب کو فوری انصاف کا جامِ جَم پلا دیا گیا۔
باغی جیالی وحیدہ شاہ کے مقابلے میں پنجاب اسمبلی کی قانون ساز متوالی رکنِ اسمبلی نے جو تھپڑ ایک ساتھی رکن اسمبلی کو رسید کیا‘ اُس کے کئی قومی مثبت نتائج ایسے ہیں جن کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ مثال کے طور پر پنجاب اسمبلی کے اندر ہمارے خوش اخلاق سپیکر رانا اقبال صاحب آرڈر آرڈر آرڈر کا اعلان کرنے سے بال بال بچ گئے کیونکہ بھاری مینڈیٹ کی موجودگی میں کون ہو جو سپیکر کی طرف سے ہائوس اِن آرڈر کرنے کا انتظار کرتا پھرے یا پھر یہ ہے کہ اپوزیشن کی طرف سے جَھٹ احتجاج پر فٹافٹ ہائوس ان آرڈر کرنے کا آسان نسخہ ایجاد ہو گیا ہے۔ مجھے پورا یقین ہے کہ ہمارے عظیم کاروباری اتحادی چین، تُرکی اور بھارت سمیت مشرق و مغرب کے وہ معاشرے جو ہمارے سب سے بڑے صوبے کی شاندار کارکردگی کی داد اپنے اُردو رپورٹروں اور داستان نویسوں کے ذریعے ہر سرکاری دورے کے بعد دیتے رہتے ہیں‘ وہ اس نادر و نایاب موقع سے فوری فائدہ اُٹھائیں گے۔ لیکن یہ بھی ایک تازہ تازہ حقیقت ہے کہ ہم نے تھپڑ راج کی ایکسپورٹ سے پہلے ہی اُس کو لاہور کی اسمبلی کے بعد فیصل آباد کے ہسپتال میں ''طِبّ الوطنی‘‘ کے فارمولے میں تبدیل کر دیا۔ جہاں ایک اور قانون پسند ایم پی اے نے قانون ساز ارکانِ اسمبلی کے استحقاق سے نا آشنا ڈاکٹر صاحب کو پروٹوکول نہ دینے پر تھپڑ راج کی دوسری قسط چلا دی۔ اُمید ہے مرکزی پارلیمنٹ جونہی سکھ برادری کے جلوس پر بحث ختم کر ے گی وہ ایسے ہی کسی ''تھپڑانہ میچ‘‘ کے لیے ساز گار موقع ڈھونڈ لے گی۔
کچھ واقفانِ حال کا خیال ہے کہ بھارت کے قانون سازی کے ایوانوں میں ترشول یا کرپان لے کر پہنچنے والے ارکان کو اب قانون کی بالا دستی کا عین دستی نسخہ مل گیا ہے۔
ہمارے وزیرِ اعظم نے اپنے تاریخی دورے کے نتیجے میں بھارت کی لیڈر شپ کو جس قدر متاثر کر لیا ہے اُس سے فوری فائدہ اُٹھا کر ہمیں بھارتی لوک سبھا اور راجیہ سبھا کے دونوں ایوانوں کے ساتھ اس نئی ٹیکنالوجی کا معاہدہ کر لینا چاہیے۔ رہا کشمیر یا سیاچن گلیشیئر تو وہاں اُگتا ہی کیا ہے کہ ہم اس کو خواہ مخواہ اُٹھائے پھرتے رہیں اور خواہ مخواہ جھگڑالو بھی کہلائیں اور امن والی آشا بھوسلے کو بھی ناراض کر لیں۔ آج کل مغربی ممالک میں متبادل نظامِ انصاف کو مقبولیت اور پذیرائی مِل رہی ہے۔ اُس کا سبب اے ڈی آر کا نظریہ ہے‘ جس کے معنی ہیں(Alternate Dispute Resolution)۔ اس تصورِ انصاف کو آپ ہمارے ہاں کا جرگہ سسٹم سمجھ لیں۔ جرگے کو آج تک پاکستان کے انصاف اور قانون کے ایوانوں میں بطور قانونی نظیر کے کوئی پذیرائی نہیں مل سکی‘ لیکن فیصل آباد ڈویژن کے ارکانِ اسمبلی نے اس کا حل بھی قوم کو نکال دیا ہے۔ تھپڑ مارنا اگرچہ ایک فوجداری جرم ہے جس کو قابلِ دست اندازی ء پولیس جرم بنا دیا گیا ہے۔ قصاص اور دیت آرڈیننس کے تحت یہ جرم دفعہ337تعزیراتِ پاکستان میں آتا ہے۔ اگر تھپڑ سے چہرے کے کسی حِصّے پر جلد یا دوسرا کوئی خدوخال متاثر ہو جائے تو پھر جرم کی نوعیت بڑھ بھی جاتی ہے۔ اسے ہماری قانونی اصطلاح میں اتلافِ صلاحیتِ عُضو کہا جاتا ہے۔ اگر میڈیکل کی رائے بھی موجود ہو تو اس جرم کی سزا دس سال قید ہے۔ انسانی جِسم کے خلاف طاقت کا استعمال ایک مزید علیحدہ جرم ہے۔ بلکہ طاقت کے استعمال کی دھمکی بھی دفعہ 506کی ذیلی دفعہ 2کے تحت ایک مکمل جرم گردانا گیا ہے۔
فیصل آباد میں بار ایسوسی ایشن کے ارکان کئی سالوں سے ہائی کورٹ کے علیحدہ بینچ کی تحریک چلا رہے ہیں۔میں نے ہمیشہ وکلاء کے اس مطالبے کی حمایت کی ہے‘ لیکن جس طرح کا جرگہ منعقد کر کے فیصل آباد ہسپتال کے ڈاکٹر صاحب کے مقدمے کو نمٹایا گیا‘ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ اب ایسے جرائم‘ جن کا تعلق انسانی جسم کو ایذا دینے سے بنتا ہے‘ اُن کے لیے نہ ایف آئی آر کی ضرورت ہوتی ہے‘ نہ میڈیکولیگل رائے کی۔ نہ تفتیش کا خرچہ اور نہ ہی عدالت اور وکالت کی ضرورت۔ ایک عدد جرگہ وہ بھی برابری کی سطح پر ایک طرف 10/8ارکانِ اسمبلی دوسری طرف تھپڑ کھانے والے سرکاری ملازم خواہ وہ مسیحا ہی کیوں نہ ہوں۔ فیصلہ فوری ہوتا ہے بغیر سرکار کو تکلیف دیے۔ آج میں اُن لوگوں کے تبصرے کا انتظار کر رہا ہوں جو ہمیشہ کہتے ہیں ہم پہاڑوں پر متوازی عدالتیں نہیں چلنے دیں گے۔ ہم ایسے سٹریٹ جسٹس کا راستہ روکیں گے۔
سوال یہ ہے کیا متوازی نظامِ انصاف صرف پہاڑوں پر غیر قانونی ہے؟ شہروں میں اس طرح کا انصاف چل تو رہا ہی ہے‘ اسے اسمبلی سے بل کی صورت میں پاس کرالیں تاکہ فیصل آباد کے وکیل آئندہ ہائی کورٹ کا بینچ ڈھونڈنے کی بجائے ''تھپڑ راج‘‘ کے نفاذ کا مطالبہ کریں‘ سستے اور فوری انصاف کے لیے۔ ہو سکتا ہے یہ وکالت نامہ چھپنے سے پہلے ہی کوئی مشیر اس مسئلے کا حل بھی نکال چکے ہوں۔ مشیر حل کس طرح نکالتے ہیں یہ نسخہ حبیب جالب نے تب بیان کر دیا تھا جب ہم صرف دس کروڑ لوگ تھے‘ آج ماشاء اللہ بیس کروڑ ہیں۔ جالب کی نظم 'مشیر‘ کا آغاز یوں تھا‘ انجام آپ خود سوچ لیں۔
میں نے اُس سے یہ کہا
یہ جو10 کروڑ ہیں
جہل کا نچوڑ ہیں
اِن کی فکر سو گئی
ہر اُمید کی کِرن
ظلمتوں میں کھو گئی
یہ خبر درست ہے
اِن کی موت ہو گئی
بے شعور لوگ ہیں
زندگی کا روگ ہیں
اور تیرے پاس ہے
ان کے درد کی دوا... تھپڑ راج؟