پچھلے دو مہینے کے عرصے میں اوپر لکھے ہوئے دو لفظوں کے ساتھ وہی سلوک ہوا جو ''ہم بدلیں گے پاکستان‘‘ کا نعرہ لگانے کے بعد تعلیم،صحت،امن وامان،سماجی شعبے اور خواتین کے تخفظ کے ساتھ قوم نے قومی بجٹ میں ہوتے دیکھا ۔اس لیے نیشنل سکیورٹی اور سچ پر گفتگو کرنا اندھوں کے درمیان ہاتھی جیسا ہے۔ جس کے ہاتھ میں ہا تھی کا جو بھی حصہ آیا اس نے ہاتھی کے بارے میں اپنے حصے کا ویسا ہی سچ بول دیا۔سمجھنے میں آسانی کے لیے آپ ہاتھی کا پائوں،کھانے کے دانت،سونڈ،دُم اور دکھانے کے دانت وغیرہ شامل کر سکتے ہیں ۔نیشنل سکیورٹی کے دو عدد ترجمے ہمارے ہاں بہت معروف ہیں۔ایک مارشل لاء ۔ دوسرا وہ ترجمہ جو ہندی چینل دیکھ کر اور بھارتی اخبار پڑھ کر پہلے اپنا پھر اردو اخباروں کا پیٹ بھرنے والے بعض دانشور کرتے ہیں۔ اردوئے معلی میں ایسے دانشور کا اپنا ترجمہ تکسیرِ لفظی کے ہند ی اصول کے مطابق دان+شور لکھیں تو اس کا مطلب بنتاہے عطاکردہ غُل غپاڑہ۔
آئیے بھارت میں نیشنل سکیورٹی کے تصور کو دیکھیے‘ جس کا اظہار دائیں بازو کی شدت پسندجماعت بی جے پی حکومت کے وزیرِ دفاع ارون جیٹلی نے بمبئی میں پریس ٹاک کے دوران کیا۔ بھارتی وزیرِدفاع نے کہا: بھارتی فوج دنیا کے سب سے بڑے اسلحے کے خریداروں میں سے ایک ہے‘ ا س لیے تازہ مودی حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ قومی دفاع کے لیے ضروری خریداری کی رفتار فوراً بڑھا دی جائے تاکہ ''نیشنل سکیورٹی‘‘ کے تقاضے پورے ہو سکیں ۔
یہ تو سب کو معلوم ہے۔ بھارت کا ہتھیاروںکی خریداری کا پروگرام من موہن سنگھ کی حکومت کے دوران اسلحے میں ''کِک بیک سکینڈل‘‘ کے بعد رُک گیا تھا‘ جس کا راستہ بی جے پی حکومت، وزیرِدفاع ارون جیٹلی نے ان لفظوں میں یوں کھولا: ''نیشنل سکیورٹی ایسا معاملہ ہے‘ جو ہمیشہ سے بی جے پی کی اولین ترجیح ہے‘‘۔ بھارتی وزیرِ دفاع نے مزید کہا بھارت کو دفاع کا مزید سامان اور دفاعی سامان کی جلد خریداری کی ضرورت ہے‘‘۔ نیشنل سکیورٹی کے تقاضے پورے کرنے کے لیے بھارت کی دفاعی ضروریات کی یہ تفصیل بیان کی گئی ''بھارت کو لڑاکا طیارے،حملہ کرنے والے ہیلی کاپٹر،جدید توپ خانہ، ڈرون جہاز اور الیکٹرانک جنگ کا سامان فی الفور خریدنے ہیں تا کہ بھارت میں فوجی سازو سامان کو اَپ ڈیٹ کیا جا سکے‘‘۔ بھارتی وزیرِ دفاع نے یہ بھی کہا کہ ہمیں ایسا میکنزم کھڑا کرنا ہو گا جو اسلحے کی خریداری کے عمل کو تیز ترین بنا سکے ۔
جیٹلی نے بھارت کی نیشنل سکیورٹی کے ساتھ غیر متزلزل وابستگی اوربیوروکریسی کے سُرخ فیتے سے بیزاری کا برملا اظہار کرتے ہوئے کہا ''یہ حکومت نیشنل سکیورٹی کے ساتھ جُڑی ہوئی ہے اور سمجھتی ہے کہ اسلحے و دفاعی سامان کی خریداری کا راستہ روکنے والے سُر خ فیتے کو کاٹنا ہوگا‘‘
پاکستان میں بھارت کو جمہوری رول ماڈل سمجھنے والے بھارتی وزیرِ دفاع کے اس جملے کو غور سے پڑھیں جو جیٹلی کے الفاظ میں یہ ہے‘ یاد رہے کہ جیٹلی صاحب بھارت کے وزیرِ خزانہ بھی ہیں ''وسائل کی کمی اور سارے وسائل جمع کرنے کے درمیان توازن پیدا کر کے نیشنل سکیورٹی کے تقاضوں کو پورا کرنا ہماری حکومت کا لائحۂ عمل ہو گا‘‘ بھارتی وزیر دفاع+ خزانہ یہیں نہیں رُکے‘ انہوں نے کہا ''کوسٹل گارڈز ہمار ی ترجیح نمبر ایک ہیں۔ ہم اُن کے لیے بھی نئے جہاز خرید رہے ہیں‘‘۔
بھارت کے اندر اُٹھنے والی آوازیں کہتی ہیں کہ مودی کے زیرِ اقتدار دہلی خارجہ پالیسی کی عام زبان نہیں بولے گابلکہ Muscular Foreign Policyاپنائے گا۔ظا ہر ہے کہ ا س کے زورِ بازو پر مبنی خارجہ پالیسی کے دواہداف ہوں گے۔ پہلا‘ چین جس کے ساتھ بھارت کے سرحدی جھگڑے ہیں ۔دوسرا پاکستان جس کے ساتھ بھارت کے تنازعات کی فہرست بہت طویل ہے اور یہ فہرست ہر چڑھتے سورج کے ساتھ شیطان کی آنت کی طرح بڑھتی ہی جا رہی ہے۔ اس ماحول میں پاکستان کی وزارتِ خارجہ مٹی پائو اور پھول بھجوائو جیسی نرم ونازک اور شرمیلی خارجہ پالیسی چلا رہی ہے‘ جس کے جواب میں بھارت مستقل مزاجی سے اپنی سرزمین اور افغانستان میں اپنی تنصیبات پر ہر حملے کی ذمہ داری آئی ایس آئی اور ریاست پاکستان پر ڈالتارہتاہے۔ہماری شرمیلی پالیسی روز بروز کچھ زیادہ ہی لچکیلی ہوتی جا رہی ہے ۔اس کا تازہ ترین اظہار کراچی ایئر پورٹ پر حملے کے دوران برآمد ہونے والا بھاری ہتھیاروں پر مشتمل بھارتی اسلحہ ہے اور بھارتی آرمی کے لیے تیار کیے گئے فیکٹرایٹ انجکشن ہیں۔ یہ خاص طور پر بھارتی فوج کے لیے تیار کیے جاتے ہیں جو اسلحے کے زخم سے بہنے والا خون روکنے کے لیے استعمال ہوتے ہیں ۔اس سنگین واردات کے بعد بھی وزارتِ خارجہ والے صوم وصلوٰۃ کے پابند بابے شعبان میں بھی روزہ توڑنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ لہٰذا نہ تو بھارت سے احتجاج کیا گیا اور نہ مودی حکومت کی توجہ اس طرف مبذول کرائی گئی اور نہ ہی بھارتی سفارت خانے کو دفترِ خارجہ میں حاضر ی کی تکلیف دی گئی ۔
دوسری جانب ہمارے ہاں کہا جا رہا ہے نیشنل سکیورٹی ایک ادنیٰ معاملہ ہے جسے ترجیح بنانے کی ضرورت نہیں یہ بھاشن بھی دیا جاتا ہے کہ نیشنل سکیورٹی کے مقابلے میں سچ کا بول بالا ہونا چاہیے ۔سچ کے حوالے سے ہمارا قومی منظر نامہ یہ ہے۔ہر فرقے کا اپناسچ ہے۔ ہر اینکر ،ہر سیاست دان ،ہر پارٹی اور ہر مذہبی جماعت کا سچ اپنا اپنا اور امام علیحدہ علیحدہ ہے ۔حکومت کے سچ کا یہ عالم ہے کہ اس نے 94 صفحات پر مشتمل نیشنل انٹرنل سکیورٹی پالیسی 2008 ء تا2014ء جاری کی۔ ہڑتال اور احتجاج کے بعد اس کی کاپی ایوانِ بالا میں پیش کی اور پھر حکومت سچ کی بالادستی کے یکطرفہ سفر پر روانہ ہو گئی‘ جبکہ نیشنل انٹرنل سکیورٹی ماضی کا قصہ بن گئی ۔یہ پالیسی جاری کرتے وقت کابینہ نے اعلان کیا تھا کہ یہ پہلی نیشنل سکیورٹی پالیسی (این آئی ایس پی )اس لیے بنائی گئی ہے کہ اس سے پاکستان کے قومی مفادات کا دفاع کیا جائے گا ۔اس پالیسی کے فوراً بعد حکومتِ پاکستان نے ایک اور سچ بولا جس کو غُلیل پالیسی کہا جا سکتا ہے ۔
این آئی ایس پی کی نیشنل سکیورٹی کے ذمہ داروں اور دونوں ممالک کی نیشنل سکیورٹی پالیسی کی گائیڈلائنز ہم نے آپ کے سامنے کھول کر رکھ دی ہیں ۔ان کو پڑھ لیجیے تبصرہ آپ خود کریں اور فیصلہ بھی خود صادر کر لیں کہ برصغیر میں کس ریاست کے اہلکار قومی دفاع یعنی نیشنل سکیورٹی کو کس ترجیح پر رکھتے ہیں ۔نیشنل سکیورٹی کا تقابلی سچ آپ کے سامنے ہے۔ یہاں ایک اور سچ بھی قوم کو سامنے رکھنا ہو گااور وہ یہ کہ رکن پنجاب اسمبلی کی واردات سے لے کر کراچی ائیر پورٹ پر حملے تک قومی اداروں کے دفاع کا راستہ کیا ہے؟ اگر کو ئی چاہے تو وہ وارداتوں کے دوران لائوڈ سپیکر لگا کر سچ کا وعظ کرے‘ شاید قوم کو سچ کے ذریعے کھویا ہوا امن و امان پھر واپس مل جائے۔ قوم ایسے سچ کو داد دینے کے لیے تیار ہے۔ شاید اسی طرح کے سچ وعظ کی تاثیرکے ذریعے بھارتی اسلحہ پاکستانی سر زمین پر پھٹنے سے انکار کر دے۔
ویسے ہمارے ہاں سکہ رائج الوقت یہ ہے کہ آپ جب بھی سچ کا کاروبار کرنے والوںیا سچ کے جنرل آرڈرز سپلائرز کے حوالے سے سچ کہیں گے تو اس کا سچ مچ نتیجہ یوں نکلے گا ؎
یہی کہا تھا ،میری آنکھ دیکھ سکتی ہے
کہ مجھ پہ ٹوٹ پڑا، سارا شہرِ نابینا
گزشتہ ہفتے میں نے جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں جسٹس سرمد جلال عثمانی اور جسٹس دوست محمد خان پر مشتمل سپریم کورٹ آف پاکستان کے فل بنچ کے رُو بروقرآن حکیم کی آیات کی روشنی میں قتل کے جُرم کی تین اپیلوں میں بحث کی۔ فاضل بنچ نے آئین کے آرٹیکل (G ) 203 کا حوالہ دے کر حکم دیا کہ فیڈرل شریعت کورٹ کو قوانین کی شرعی حیثیت کے حوالے سے مکمل اورExclusiveاختیارِ سماعت حاصل ہے اور کوئی ہائیکورٹ یا سپریم کورٹ اس طرح کا اختیار استعمال نہیں کر سکتی‘ ماسوائے شریعت اپیلٹ بنچ کے۔
آج کل شریعت محمدیؐ اور قرآن و سنت کی روشنی میں جتنے بھی مباحث چل رہے ہیں ان کا آئینی فورم وفاقی شرعی عدالت ہی ہے‘ جس کے نئے چیف جسٹس حلف اٹھاتے وقت بہت رش میں گھرے ہوئے تھے ۔اس لیے آج وکالت نامے کے ذریعے ان کی توجہ آئین کے آرٹیکل 203(D)ذیلی آرٹیکل نمبر (1)کی طرف دلائوں گا‘ جہاں وفاقی شرعی عدالت کو از خود نوٹس کے ذریعے قرآن وسنت کے حوالے سے قانونی سوالات کی سماعت کرنے کا اختیار حاصل ہے ۔یہاں یہ تذکرہ اس لیے آیا کیونکہ پاکستان کے موجودہ نظام کے پاس اس کا حل نظر نہیں آتا۔خاص طور پر عوامی مسائل ،قومی مسائل اور نیشنل سکیورٹی سے متعلقہ گمبھیر معاملات۔ اب تو سپیکر قومی اسمبلی برادرم ایاز صادق اور میرے گرائیں شیخ رشید بھی ایک ہی صفحے پر پہنچ گئے ہیں۔ دونوں نے کہاکہ پارلیمنٹ حملے کی زد میں ہے۔ ایسی پارلیمنٹ جو غریب آدمی ،تنخواہ دارملازم ،بے روز گار اور غربت کی لکیر کے نیچے جینے والوں کے لیے کچھ بھی نہیں کر سکتی وہ اپنے لیے کیا کر سکے گی ۔سرکار دربار کے بادشاہ اونچی دیواروں کے پیچھے فوٹو سیشن کے علاوہ کچھ نہیں کر سکتے ۔پاکستان کا شہری آج جتنا بے بس اور لاوارث ہے اتنا افغانستان یا روانڈا کا بھی نہیں۔ جو لیڈر ذاتی سکیورٹی کے لیے انگریزی کُتے ،جرمن گاڑیاں اور خصوصی دستے رکھتے ہیں وہ اس قوم یا اس کے دفاع میں کیا دلچسپی لیں گے ۔چڑھتے سورج کے یہ پجاری خود بھی آگ برسانے والے سورج جیسے ہیں ؎
تو ہے سورج، تجھے معلوم کہاں رات کا دُکھ
تو کسی روز میرے گھرمیں اُتر شام کے بعد
غریبوں اور ان کے مظلوم وطن کی ہر شام شامِ غریباں بنتی جا رہی ہے ۔