کبھی عوام کا بھی انقلاب ابھرے گا؟

ہمارے نزدیک انقلاب وہ مثبت تبدیلی ہے جو ان لوگوںکی زندگی میں آئے جن کو اللہ تعالی نے اس زمانے میں پیدا کیا ... باقی سارے خو اب ہیں اور زیادہ تر خوابِ پریشاں۔
پاکستانی قوم خواب دیکھنے کے حوالے سے بھی مکمل طور پر خود کفیل ہے۔ یہ بات ثابت کرنے کے لیے ایک مثال ہی کافی ہو گی۔ جن سامری جادوگروں کے ا پنے ڈالر ،روپے اور ریال غیر ملکی بینکوں کے اندر پڑے ہوئے ہیں ‘ وہ خوش بخت لہرا لہر ا کر انقلاب کے سریلے گیت گا تے ہیں ۔پاکستان کے موجودہ انقلابیوں کو پانچ حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے ۔ان میں سے پہلا حصہ زرِ تعاون، چندہ، صدقات اور حال ہی میں دریافت ہونے والے ''مالی معاونین‘‘ کے ذریعے انقلاب لانا چاہتا ہے ۔ایسے انقلاب کو اپنی اپنی شریعت اور فرقہ کی پگڑی بھی پہنائی جاتی ہے۔دوسرا طبقہ دیسی گھی کے پراٹھے کی طرح چار حصوں یعنی چار حکومتوں میں تقسیم ہے۔ مہران کی حکومت ثقافتی انقلاب لا رہی ہے۔ کے پی کے میں انقلاب کے مذہبی اور سیکولر پارٹنرز انقلاب کا ہر اول دستہ ہیں ۔مرکز اور پنجاب میں اس سال کا سب سے بڑا انقلاب آ بھی چکا ۔پہلے جِسے روٹی نہ ملے اُسے کہا جاتا تھا بیٹا کیک کھا لو ۔اب بچہ کھانے کے لیے بِلکنا شروع کرے تو ماں کہتی ہے ''بیٹا میٹرو بس کھائو‘‘ سچ تو یہ ہے کہ مشرف کی اپوزیشن کے زمانے سے میرے دوست بلو چستان کے وزیرِاعلیٰـ ڈاکٹر مالک نے ثابت کر دیا ہے کہ اصلی انقلابی اکیلے وہ ہی ہیں کیونکہ ان کے دور میں ایک ایسے آدمی کو سرمایہ کاری بورڈ کا چیئرمین ''منتخب‘‘ کیا گیا ہے‘ جس کی شہرت سے سب آگاہ ہیں۔ پچھلے سال پاکستان کی سیاست میں دودھ پینے والے اکیلے بِلے کا ذکر آیا تھا۔ اس وزیر اعلیٰ سے بڑا انقلابی کون ہوگا جس نے بلوچستان کی بکری اور اونٹنی میں بچا کھچا دودھ نچوڑنے کے لیے بلے اور اس کے ابے دونوں کی ڈیوٹی لگا دی ہے۔ابّا بھی اُس طرح کا جس کی تعریف مجھ سے کئی سال پہلے خالد مسعود صاحب یوں کر چکے ہیں ۔
اس کی بربادی کا باعث واحد اس کا ابّا تھا 
سب حریان تھے، اُس نے ایسا ابّا، کہاں سے لَبھا تھا؟
آج عملی طور پر ہم سارے ایک انقلابِ مسلسل کی زد میں ہیں جس کے کئی حصے ہیں۔ ایک انقلاب وہ ہے جس نے جمہوریت کے ثمرات اس قدر بانٹے کہ تھڑئیے ارب پتی بن گئے۔ دوسرا انقلاب وہ ہے جس میں اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے ایک ایک فیکٹری نے دو دو ہزار صنعتی یونٹ، فلور مل، شوگر مل، سٹیل مل بلکہ نوٹ چھاپنے والی مشینیں لگا کر پاکستان دو حصوں میں تقسیم کر دیا۔ ایک حصے میں پاکستان کے مالکان تشریف فرما ہیں‘ دوسرے حصے میں پاکستان کے مقروض اور مجبور کرایہ دار رہتے ہیں۔ ایک اور انقلابِ مسلسل بھی آیا ہے بلکہ عام لوگوں کے لیے عذابِ مسلسل بن کر آیا ہے۔ اس عذابِ مسلسل کے قائد گُلو بٹ کے پسندیدہ وزیرِ خزانہ ہیں‘ جو کہتے ہیں ان کی بادشاہی میں صرف 60.55فیصد پاکستانی عوام غربت کی لکیر سے بھی نیچے زندگی گزار رہے ہیں: 
ہر ایک دور میں ہم لوگ سوچتے ہی رہے
کٹے گی رات تو پھر آفتاب اُبھرے گا
تمام عمر اسی کشمکش میں بیت گئی
کبھی عوام کا بھی انقلاب اُبھرے گا
عوام کے انقلاب سے یاد آیا اب رمضان شریف کی آمد میں دن نہیں بلکہ گھنٹے باقی رہ گئے ہیں‘ مگر رمضان کے شروع ہونے سے پہلے ہی پورا ملک ذخیرہ اندوزوں‘ منافع خوروں‘ سفید پوش جیب کتروں اور باوردی بھتہ خوروں کے لیے ''جنت استھان‘‘ بن چکا ہے۔ کھانے کا تیل، چنا، بیسن، مرچ، اناردانہ، پیاز، لیموں اور آلو کی قیمتیں 30 فیصد اضافے کا جمپ لگا چکی ہیں۔ کیا ہی اچھا ہو عوام کی انتہائی مہربان حکومت سستی روٹی، سستی میٹرو، سستی ٹرین اور پولیس کے ذریعے انتہائی سستی عام آدمی کی ''مزاج پُرسی‘‘ کے بعد ایک اور انقلابی قدم اٹھا لے اور وہ یہ کہ حکومت اب چنا چاٹ + دہی بھلے کے گِفٹ پیک غریبوں کے گھروں میں بھجوائے۔ اس طرح جہاں عالمِ اسلام میں مسلمان ووٹروں کو ریلیف دینے کا عالمی ریکارڈ بنے گا‘ وہیں پر اس انقلابی قدم سے روزہ داروں کی آخرت نہیں تو کم از کم دنیا ضرور سنور جائے گی۔
ایک اور شعبے میں وفاقی بجٹ کے ذریعے زوردار پارلیمانی انقلاب آیا۔ پچھلے ہفتے کے روز انٹیلی جنس بیورو کے لیے بجٹ میں اضافہ کیا گیا جبکہ نیشنل انسدادِ دہشت گردی کی اتھارٹی نیکٹا کے لیے پچھلے سال کے مقابلے میں تین ارب روپے کی رقم کاٹ لی گئی ۔ اس انقلابی فیصلے سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ جمہوری قیادت صحیح معنوں میں امن و امان کے قیام میں سنجیدہ ہے اور چاہتی ہے کہ اس کی بحالی کے لیے کام کرنے والے سر پر سفید ململ کا کفن باندھ کر بحالیِ امن کی لڑائی کے مزے لیں ۔
آپ خود اندازہ لگائیں یہ انقلاب نہیں تو اور کیا ہے کہ راولپنڈی سے اسلام آباد تک 23کلو میٹر لمبی میٹرو بس کے لیے 43ارب روپے رکھے گئے ۔اس ہتھیلی جیسی سیدھی سڑک کی تعمیر آنے والے بجٹ کے بعد60ارب تک پہنچنے کے قوی امکانات ہیں۔ کراچی میں جان بچانے کی دہشت اور خوف کے مارے ہوئے شہریوں سے وزیرِ اعظم نے کہا تھا اب رینجرز ان کی حفاظت کریں گے‘ جس سے شہرِ پاکستان کے باسیوں نے کچھ سُکھ کا سانس بھی لیا۔ ہماری انقلابی حکومت نے کراچی کے رینجرز کی عظیم قربانیوں، شہادتوں اور دن رات دلیرانہ خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے سندھ رینجرز کے آپریشنل بجٹ میں تقریباً 11فیصد کی کمی کردی ۔ پچھلے سال رینجرز کا یہ آپریشنل بجٹ341.17ملین تھا جسے اب کاٹ پیٹ کر 306ملین کر دیا گیا ہے۔ رینجرز کے لیے اسلحہ، گاڑیوں، بوٹوں اور وردی کی خریداری کے لیے 225.9ملین کے بجٹ کو کم کرکے 201ملین کر دیا گیا ہے۔ پنجاب میں جب بھی کڑا وقت آ جائے‘ سارے ادارے رینجرز کے پیچھے ہی چھپتے ہیں۔ پنجاب رینجرز کا آپریشنل بجٹ 13فیصد کم کردیا گیا ہے۔ پچھلے سال کا بجٹ 386.1ملین تھا جسے کاٹ کر336ملین کر دیا گیا ۔ پنجاب رینجرز کو سڑکوں پر رکھنے کے لیے41ملین کے بجٹ کو کاٹ کر 32ملین کیا گیا ہے۔ وزیرِ داخلہ سے وزیرِ اعظم کی ناراضگی کام آئی یا ان پر وزیرِ خزانہ کا غصّہ نکلا کہ اب وزارتِ داخلہ کے ماتحت فورسز کے آپریشنل بجٹ میں 60ملین سے زیادہ کی کمی کر دی گئی ۔ قانون شکنوں کی گولیاں سینے پر کھانے والے ان اداروں کے لیے فنڈز کاٹے جا رہے ہیں جبکہ وہ وزارتیں جن کے خصوصی فنڈ سے پروپیگنڈا مہم، لابنگ اور اشتہار بازی کی جاتی ہے‘ ان پر ڈالر اور روپے کی بارش اور برکھا برس رہی ہے۔ اب بھی اگر کوئی اس انقلابی جمہوریت کے مقابلے میں کوئی اور انقلاب لانا چاہتا ہے تو وہ بجلی کی قیمت میں چار پانچ سو فیصد اضافے‘ گیس کی قیمت میں پانچ چھ سو فیصد اضافے اور آلو کی قیمت انار کے برابر پہنچنے کا انتظار کرے۔
میں نے جب سے انقلابی قومی اسمبلی کے منظور کردہ‘ ہم بدلیں گے پاکستان والے‘ بجٹ کے تاریک پہلو غور سے پڑھے ہیں میں ترقی کے اس انقلاب آفریں سفر پر جمہوریت کو داد دیتا ہوں۔
میرے عزیز ہم وطنو سوتے رہو۔ گُلو بھائی لگے رہو۔جیل میں بڑے گھر سے ہاٹ پاٹ کا گرما گرم کھانا کھانے کا اپنا ہی سواد ہے۔ فسادیوں کی خدمت پر سوادیوں کا شکریہ۔مہنگائی کا اثر ان پر ہو گا جو جمہوریت کی بڑی جیل کے قیدی ہیں ۔چھوٹی جیل میں حِصہ بمطابق رُتبہ سب کچھ پہنچ جاتا ہے ۔انقلاب آ چکا ہے۔ جسے یقین نہ آئے یکم رمضان کو پکوڑے، کھجور اور سبزی دال کا انقلابی ریٹ معلوم کر لے۔رمضان میں منافع خوروں ،حرام خوروں بلکہ عوام خوروںسے میں خوفِ خُدا کے نام کی اپیل کرنے ہی والا تھامگر یہ شعر میرا راستہ روک رہا ہے ۔
جن سے خُدا کا خوف بھی تھرا کے رہ گیا
ان ظالموں سے خوفِ خُدا مانگتے ہیں لوگ 

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں