اصولی موقف… وصولی موقف

اُصولی اور وصولی کے دونوں لفظ ڈنڈے کے ذریعے علیحدہ ہوتے ہیں‘ جسے اُردو کے حروفِ تہجی میں ''الف‘‘ کہا جاتاہے ۔ آج کل کے سرکاری ردھم اور سیاسی ڈکشنری میں اُصولی اور وصولی ہم آواز اور ایک دوسرے کے بن چکے ہیں ۔ اسی لیے اصولی موقف والے کہتے ہیں ہم جمہو ریت بچانے کے لیے حکومت کے ساتھ ہیں ۔دوسری طرف جمہوریت ہے جو جی ٹی روڈ جیسی سیدھی سڑک پر بھی نجانے کیوں لڑ کھڑا رہی ہے ۔
جمہوریت کے رشتے داروں ،بھتیجوں ،بھانجے بھانجیوں اور بیٹے بیٹیوں پر مشتمل بی ٹیم درجہ بہ درجہ اپنے بڑے بزرگ رشتہ داروں کا موڈ اور ٹمپر یچر دیکھ کر جمہوریت کے مستقبل کا اندازہ لگاتے ہیں ۔ چنانچہ ہر طرف جمہوریت بچانے کی کو ششوں کو اُصولی موقف کہا جاتا ہے ۔اُصولی موقف والوں میں سرِ فہرست وہ ہیں جو وصولی موقف کے بادشاہ ہیں ۔
مثال کے طور پر گزشتہ حکومت کے خاتمے کو تقریباً دو سال ہو چلے ہیں ۔اس دوران وصولی موقف کے جن سابق وزیروں نے اصولی طور پر جمہوریت کے تخفظ کی غیر مشروط قسم کھائی ہے موجودہ حکومت نے اُن سے ابھی تک وزراء کالونی والے گھر بھی خالی نہیں کروا ئے۔کابینہ کالونی جیسے محفوظ گھر نصیب والے کو ہی ملتے ہیں۔ خاص طور پر بجلی کا بل نہ ہونے کے برابر ،گیس خالہ جی کے گھر سے، بنگلے کی تعمیر و مرمت کا بل جمہوریت کے نام۔ ٹیلی فون ،سرکاری پنکھے، اے سی، قالین ، سینکڑوں مسلح با وردی گارڈ بالکل فری ۔ایسے میں اگر کوئی جمہوریت کو ڈی ریل ہونے کی اجازت دے دے تو وہ بے چارہ اگلے دن آبپارہ کی سڑک پر کھڑے ہو کر پراپرٹی ڈیلروں سے کرائے کے مکانوں کا ریٹ پوچھ رہا ہو گا۔پھراصولی موقف کے ثمرات بھی ہیں یعنی مفتا مفتی پھل فروٹ ۔اسی لیے جنہوں نے نمک کے غرارے کرنے کے بعد ''پروٹیکشن آف پاکستان آرڈیننس‘‘ کے خلاف دھواں دار تقر یر یں کیں انہوں نے جمہوریت کو ڈی ریل ہونے سے بچانے کے لیے کالی مرچ کے غرارے کر کے اسی بل کو اپنے متبرک ہاتھوں سے پاس کروا کر جمہوریت کے تحفظ کا فرض پورا کر دیا ۔میں ان کم نصیب لوگوں میں سے ایک ہوں جو سینٹ اور قومی اسمبلی کی طرف سے حاصل کیے گئے ثوابِ دارین میں شریک نہ ہو سکا ۔ورنہ مجھے پہلے نمک کے ساتھ اور پھر کالی مرچ کے غرارے کرنے کی سعادت بھی حاصل ہو جاتی۔ میری اصل محرومی وہ ہے جس کے لیے علیحدہ کالم لکھنے کا دستاویزی جواز ہررمضان المبارک میں موجود ہوتا ہے‘ یعنی قوم کے پیسوں سے ایک عدد سرکاری افطار ڈنر۔ ایک طرف برسرِ اقتدار پارٹی نے سرکاری افطار پارٹیوں پر پابندی لگانے کا اعلان کیا اور دوسری طرف اس کے ممبران اور وزیر اسی سرکاری خرچ والی افطاری میں مکمل اصولی موقف کے ساتھ شریک بھی ہوئے۔
بات ہو رہی تھی سابق وزیروں کے زیرِ قبضہ مکانوں کی‘ ایسے میں ایک اوراُصولی موقف یاد آ گیا‘ جس موقف کے حامی غریب عوام کی زندگی میں شرعی انقلاب لانے کے لیے ہر حکومت میں وزارت ہائوسنگ اور ورکس کو انقلاب کا بیس کیمپ بناتے ہیں ۔ویسے مجھے کبھی کبھی کشمیریوں کی قسمت پر رشک کرنے کو دل چاہتا ہے‘ جن کی آزادی کے لیے بنائی گئی عشروں پرانی پارلیمانی کشمیر کمیٹی کا دفتر پارلیمنٹ کی سب سے خوبصورت جگہ پر ایستادہ ہے۔آئیں دعا کریں اللہ کرے یہ کمیٹی ڈڈھیال سے مہینڈر تک اور اُٹھ مقام سے اننت ناگ تک سرکاری دورے پر نکل جائے۔ ہائوسنگ کے شعبے کا تازہ ترین معجزہ ایک سرکاری ملازم نے ارسلان افتخار کی طرح سر انجام دیا جس کی تفصیل کے مطابق اس خوش بخت پر کیپیٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی اسلام آباد کے محکمہ سروسز اور انجینئرنگ مینٹی ننس والوں نے لطف و کرم کی بارش کر دی۔ میرے پاس موجود دستاویزی ثبوت کہتا ہے مورخہ 18جنوری2013ء کو مکان نمبر 88/G، گلی نمبر1، سیکٹر G-6/3، اسلام آباد میں رہائش پذیر ارسلان افتخار کے ابّا کے منظورِ نظر پروٹوکول آفیسر کے گھر کو اَپ ڈیٹ کرنے کے لیے Estimateتیار کر کے چیئرمین سی ڈی اے کو پرنسپل منظوری کے لیے بھجوایا گیا‘ جسے منظور کر کے خالی خزانہ کا شور مچانے والوں کے منہ پر طمانچہ مارا گیا۔ یاد رہے ، یہ وہی پروٹوکول آفیسر ہے جس نے ایک مشہور ویڈیو ایک مشہور چینل کو بھجوائی تھی۔ بغیر کسی نقشے کی منظوری کے اس Maintenance Division-IIکے خط کے سیریل نمبر ایک میں مرمت کی بجائے، تعمیر کمرہ نمبر ایک معہ اٹیچ باتھ درج ہے۔ دو شیڈ، ایلومینیم کی کھڑکیاںاور چھت کی مرمت میں نو لاکھ ، نواسی ہزار چھ سو تریسٹھ روپے منظور کیے گئے۔ اس خط کی ایک اور دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ اس پر کسی افسر نے جس کا نام نہیں لکھا ہوا‘ نئی تعمیر کے آگے لکھا ہے "Repair ?" یعنی مرمت اور آگے سوالیہ نشان بنایا گیا۔ حال ہی میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے ایک فاضل جج جسٹس شوکت عزیز صدیقی صاحب نے سرکاری کوارٹروں میں فالتو کمرے بنانے کے خلاف ایک زوردار آرڈر بھی جاری کیا ہے۔ ہمارے شاہی نظام کا سرکاری خزانہ بھی بادشاہ ہے۔ اس لیے خزانچی کے پاس بادشاہوں کی طرح بادشاہوں پر خرچ کرنے کے لیے خزانہ ہی خزانہ ہے‘ لیکن کچی آبادی میں پکی چھت،پکی گلی، بجلی، گیس ، ڈسپنسری اور سکول جیسی بنیادی ضرورت فراہم کرنے کے لیے کہیں بھی اصولی موقف نہیں توڑا جاتا جب تک وصولی موقف پورا نہ ہو جائے۔ اس کی ایک زندہ مثال‘ وزارتِ قانون وانصاف کے ایک افسر کا مکان نمبر 3،گلی نمبر 43، سیکٹر آئی نائن ، اسلام آباد ہے جس کا پنکھا اُتار کر دو ماہ پہلے آئی نائن کی مینٹی ننس انکوائری کو بھجوایا گیا تھا۔ سورج آگ برساتا ہے اور لوڈشیڈنگ شعلے پہ شعلہ۔ جب بھی یہ سرکاری ملازم پنکھا مانگنے جاتا ہے انکوائری والے کہتے ہیں بیرنگ اور واشل تم لے آئو ،ڈال ہم دیں گے۔ حالانکہ اس سرکاری ملازم سمیت وہ سب قومی اہلکار جن کو سرکاری گھر الاٹ ہوتے ہیں‘ ان کی تنخواہ سے مینٹی ننس کا 5فیصد ہر ماہ ایڈوانس کاٹا جاتا ہے۔ یہ دوسری بات ہے کہ پندرہ بیس سال تک سرکاری کوارٹروں میں نہ کوئی وائٹ واش کرتا ہے نہ ان کی مرمت، نہ ہی دیکھ بھال۔ ایسے میں غریب ملازم چھوٹا سا شیڈ بھی بنائے تو اصولی موقف کے عین مطابق اسے گرانا سرکار کی ناک کا مسئلہ ہوتا ہے۔ بڑے بڑے افسروں کے لیے کیسے کیسے حکم جاری ہوتے ہیں مزید تفصیل جاننا بھی آپ کا حق ہے۔
جن دنوں سرکاری پارٹی اپوزیشن میں ہوتی ہے اس کا اصولی موقف کہتا ہے لوڈ شیڈنگ کے خلاف ڈانگ پکڑ کر جلوس نکالا جائے۔ مہنگائی کے خلاف پتھر اُٹھا کر مظاہرہ کیا جائے تاکہ بوقتِ ضرورت ظالم کھمبے اور مادر پدر آزاد گاڑیوں کو سبق سکھایا جا سکے۔ آج کل وصولی گروپ کا موقف یہ ہے کہ جو لوگ سستا پکوڑا، آلو چنا، پودینہ، گیس اور بجلی مانگتے ہیں وہ جمہوریت کو ڈی ریل کرنا چاہتے ہیں‘ جو جمہوری دور میں سڑک پر جلوس نکالنا چاہتے ہیں وہ جمہوریت کو غیر محفوظ بنا رہے ہیں‘ جو روڈ مارچ کاپروگرام بنائیں وہ آئین کے باغی ہیں‘ مگر وہ جو جمہوریت کے تحفظ کے لیے وفاقی کابینہ کی خالی وزارتوں کے لیے جدوجہد کریں وہ آئین کی بالا دستی قائم رکھنے والے مجاہد ہیں۔
شہرِ اقتدار میں کابینہ میں توسیع کے حو الے سے ایک ایسی خبر مجھ تک پہنچی ہے جو نہ ابھی چھپی نہ کہیںبیان ہوئی۔ خبر نے مجھے حیران کر دیا۔ خاص طور پر خبر سنانے والے جادو گر نے۔ سرکاری پارٹی کے وزارتی امیدوار اگلے وکالت نامہ میں وہ خبر دیکھ کر پریشان نہ ہوں ۔ پچھلی جمہوریت میں بھی آٹھ ،دس نون لیگی وزیروں کی آسامیاں اسی جذبے کے تحت ہی تو خالی رکھی گئی تھیں۔ آخر کون نہیں جانتا مفاہمت کی جمہوریت اصولی موقف سے مضبوط ہوتی ہے جس میں وصولی کی گنجائش ہمیشہ نکلتی رہتی ہے۔
پروین شاکر نے اصولی اور وصولی موقف کا نام لیے بغیر سرخ بتی کے پیچھے دوڑنے والوں کے لیے کمال کے دو شعر کہے۔ 
مشکل ہے کہ اب شہر میں نکلے کوئی گھر سے 
دستار پہ بات آ گئی ہوتی ہوئی سر سے 
پتھرایا ہے دل یوں کہ کوئی اسم پڑھا جائے 
یہ شہر نکلتا نہیں جادو کے اثر سے 

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں