سولھویں صدی کے آخر میں مغل بادشاہوںکا اقتدار دہلی کے ریڈ زون یعنی شاہی قلعہ کی چار دیواری میں قید تھا۔ تختِ لاہور چغتائی سلطنت کے نیچے سے کھسک چکا تھا۔ نادر شاہ اور احمد شاہ درانی کے حملوں نے پنجاب میں بارہ حکومتوں کو جنم دیا۔ ان دنوںلاہورکا حکمران چھجہ سنگھ بنا جو ہر وقت بھنگ کے خمار میں ڈوبا رہتا۔ اس کی فوج کی اصل طاقت بارہ ہزار ڈاکو تھے جن کی حکومت امرتسر، لاہور ،گجرات اور چنیوٹ پر مشتمل تھی ۔ آج کل چھجہ سنگھ کی توپ لاہورکی ٹھنڈی سڑک کے چوک میں اتنی بے بس ہے کہ وہ اپنے ارد گرد بیٹھے ہوئے ہزاروں کبوتروں میں سے ایک کو بھی نہیں مار سکتی۔ اسی کو بھنگی توپ کہتے ہیں۔
انگریزی میں نشئی قسم کی ڈھیلی ڈھالی توپ کو Loose Cannonکہا جاتا ہے جبکہ لڑاکا توپ کا استعارہ ہالی وڈ کی فلمی زبان میں '' گنز آف نیوران‘‘ ہے ۔ڈھیلی توپ کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ اس کا نشانہ کہیں پرہوتا ہے، توپچی بھینگے کی طرح کہیں اور دیکھتا ہے جبکہ گولہ چلتے وقت اندازہ نہیں ہوتا کہ یہ دشمن کو لگے گا یا چلانے والے کے اپنے گھر کو۔ پاکستانی جمہوریت کے کسی خادم نے اپنے مخدوموںکے لیے ایسی ہی ڈھیلی توپ تا زہ تازہ ڈھونڈھی ہے جس کا خالق ریٹائر ہو چکا ہے۔ اس توپ کی رونمائی کا پہلا محاذ بلوچستان میں سینڈک کے غار تھے ۔یہاں اس توپ کے افتتاحی گولے نے وزیر اعلیٰ ڈاکٹر مالک کی گڈگورننس کے محل کو بھنگ کے ڈھیر کی طرح اڑا کر رکھ دیا۔ ڈھیلی توپ کے پہلے گولے نے ایسا دھماکہ اس کے آفٹر شاکس آج بھی وضاحت ،ریس کانفرنس اور پریس ریلیزکی شکل میں ظاہر ہو رہے ہیں۔ ڈھیلی توپ کا دوسرا محاذ بھنگی مِثل کی توپ والا ہے۔ یہاں بھی پہلے گولے نے تاریخ سازکامیابی حاصل کی جس کے نتیجے میں 14اگست کا ملین مارچ کنفرم ہوگیا۔ یہ آزادی مارچ پہلے ڈھیلا ڈھالا لگتا تھا لیکن ذاتیات کے کیل کانٹے ، میخ ، نٹ بولٹ اوربال بیرنگز ڈال کر جمہوریت کو محفوظ بنانے والے دوستوں نے ڈھیلی توپ سے ایسا گولہ داغا کہ اب نہ ملین مارچ کا اعلان کرنے والوں کی واپسی کا کوئی روٹ باقی بچا ہے نہ ہی اسلام آباد میں ریڈ زون کے حکمرانوںکے لیے مفاہمت یا مذاکرات کا کوئی درکھلا رہ گیا ہے۔
سیاسی قابلیت اور راج نیتی کی اہلیت کا اندازہ لگانے کے لیے اب ایک بیچارہ پی ٹی وی بچا ہے یا اس کے حکمِ امتناعی والے ناظم اعلیٰ صاحب ۔ جن راستوں پر چل کر ڈائیلاگ کی منزل تک پہنچا جاسکتا تھا، ان راستوں پر ڈھیلی توپ نے کیل، کانٹے، بال بیرنگ، سپرنگ اور نٹ بولٹ بچھا دیے ہیں۔ آج کے سیاسی گائوں میں نہ توکوئی نوابزادہ نصراللہ خان موجود ہے نہ ہی کوئی ایسا جانثار جو ننگے پائوں آ گ و آہن کی اس پگڈنڈی پر چل پڑے جہاں ہر طرف بارودی سرنگوں کا راج ہے ۔
ویسے بھی جب مذاکرات کا مطلب مذاق ہی مذاق میں مزید چار سالہ لمبی رات گزارنا ہو تو پھر سیاست کے مہمان اداکار یا راج نیتی کے مزاحیہ فنکار ہی قافلہ سالار بن جاتے ہیں۔ مجھ سے پوچھنے کی ضرورت نہیں، آپ خود دیکھ لیں، آج ایٹمی جمہوریۃ الاسلامیہ کے ''فرنٹ رنر‘‘ کون ہیں اور ان کے ارادے کیا ہیں؟
اگر حکومت اوراس میں اصلی حکمران یعنی گھریلوکچن کیبنٹ سنجیدگی سے چاہتی تو سیاسی ٹمپریچرکم ہو سکتا تھا۔ آپ پوچھیں گے وہ کس طرح سے؟اس کا آسان طریقہ یہ تھاکہ حکومت پارلیمینٹ میں سیاسی جماعتوں سے با معنی گفتگو کرتی۔ آزادی مارچ والوں نے ڈیڑھ ہفتہ پہلے تک تین رُکنی جوڈیشل کمیشن کا مطالبہ کیا تھا ۔حکومت آگ بجھانا چاہتی تو یہ کمیشن بنانے کے لیے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس صاحب کو خط لکھا جاسکتا تھا۔ اہلِ بیت کی توہین پر مبنی دل آزار پروگرام اور ماڈل ٹائون قتلِ عام پر حکومت فریق بن جانے کی بجائے ماں جیسی ریاست کا کردار ادا کر سکتی تھی۔ وزیراعظم چاہتے تو وہ زبان سے پھلجھڑیاں چھوڑنے اور لفظوں کے ہینڈ بم پھینکنے والے وزیروں کے بجائے سنجیدہ سی کمیٹی بنا کر سیاسی مسائل کے حل کا آغاز کر سکتے تھے۔ پارلیمانی اصلاحات پر اتفاقِ رائے اور پھر اصلاحات کے نفاذ کے لیے پارلیمنٹ کے اندر اور باہر اس کا مطالبہ کرنے والوں سے بھی نتیجہ خیزاور بامعنی بات چیت ہو جاتی، لیکن سرکاری ٹیم نے اس طرح کے ''Doables‘‘ یعنی آسانی سے ہو جانے والے کاموں کے بجائے بھنگی توپ کو رینٹ پر لینے کا فیصلہ کر لیا۔ ڈھیلی ڈھالی رینٹل توپ نے جو چاند ماری کی اس کا نتیجہ اب ہم سب کے سامنے ہے۔گُڈگورننس والی سرکارکے اکابرین الزامات کی ٹریڈنگ کے اکھاڑے میں اُتر چکے ہیں ۔ یہ راز سیاست کی کچی پٹی پڑھنے والے معمولی طالبعلم بھی جان سکتے ہیں، اپوزیشن کا اصل مطالبہ یہی تھاکہ حکومت ان سے لڑ پڑے ۔ سو وہ مان لیا گیا۔
اب یہ لڑائی کا ایسا ہلواڑہ میدان ہے جہاں سب لڑوانے والے ہیں، چھڑوانے والا کوئی نہیں۔ ایک اور بات سمجھنا ضروری ہے کہ ماڈل ٹائون قتلِ عام کے بعد ساری سیاسی جماعتوں کے عام کارکن دُکھے ہوئے ہیں۔ جماعتی وابستگی اور گروہی سیاست سے ہٹ کر ملک کا سیاسی کارکن سمجھتا ہے کہ اس کے کیڈرکوکیڑا سمجھ کر پائوں کے نیچے مسلا جا سکتا ہے۔ اس آتشیں موسم کے دوران اسلام آباد میں جھگڑاکرنے کے لیے ایک ملین کارکن اکٹھے کرنے کی ضرورت نہیں، خدا نخواستہ چند ہزار بھی میدان گرمانے کے لیے کافی ہوں گئے۔ دوسری جانب سرکارکی معروف پالیسی تین نکات کے گرد گھوم رہی ہے ۔
1۔ 245 لگائو اور فوج بلا لو۔ یادش بخیر یہ کام جنرل اعظم نے بھی کیا تھا۔ حکومت چاہے تو اس تجربے کی تاریخ سامنے رکھ لے۔
2۔ اسلام آباد کو شہرِ ممنوع (Forbidden city) بنادو۔ جمہوری ملک کے دارالحکومت کو سیل کر کے حقِ اجتماع اور آزادی اظہار پر پہرہ لگا دیا جائے۔
3۔ پنجاب پولیس کو جڑواں شہروں کے جنکشن فیض آباد ،اٹک پُل اور ترامڑی چوک میںلیڈ رول دیا جائے جسے فورس کو گھیرائو، جلائو، مارواور بھگائو کا مینڈیٹ ہوگا۔
پاکستان کی تاریخ میں اس جمہوریت کو تحفظ دینے کے بے شمار دعوے دار سامنے آ چکے ہیں۔ ہر کوئی کہتا ہے کہ جمہوریت کو کچھ نہیں ہونے دوں گا، لیکن یہ کوئی نہیں بتاتا کہ اس کو خطرہ کس سے اورکہاں سے ہے؟ پہلے کہا جاتا تھا، جمہوریت کی گاڑی ٹکرانے کے لیے کھمبا ڈھونڈھ رہی ہے، اب یہ کہنا چاہیے کہ بے چارہ کھمبا جمہوریت کی میٹرو بس سے بچنے کی کوشش کر رہا ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو چھجہ سنگھ کی ڈھیلی توپ رینٹ پر نہ ملتی۔
رمضان شریف میں ہر طرف آوازیں آ رہی ہیں۔۔۔ پکوڑا جمہوریت، سموسہ جمہوریت۔ ایسی جمہوریت کے وہ فنکار اور سیاست کار مجھے بہت اچھے لگتے ہیں جو حبیب جالب کی نظمیں گا سکتے ہیں۔ جالب اُن سے صرف ایک گِلہ کرتا ہے کہ وہ میری یہ والی نظم کیوں نہیں گاتے حالانکہ اس کا نام ہی جمہوریت ہے۔
یہ ملیں ، یہ جاگیریں
کس کا خون پیتی ہیں
بیرکوں میں یہ فوجیں
کس کے بل پہ جیتی ہیں
کس کی محنتوں کا پھل
داشتائیں کھاتی ہیں
جھونپڑوں سے رونے کی
کیوں صدائیں آتی ہیں
جب شباب پر آ کر
کھیت لہلہاتا ہے
کس کے نین روتے ہیں
کون مُسکراتا ہے
کاش تم کبھی سمجھو
کاش تم کبھی جانو
بیس کروڑ، انسانو!