بحث کی ضرورت نہیں یومِ آزادی تک سب واضح ہو جائے گا۔امریکہ یاترا کا وزن کس پلڑے میں جائے گا اور زیارتِ جدہ نتیجہ خیز رہی یا ابھی دعا کی قبولیت کا وقت نہیں تھا ۔منزل کے بغیر کوئی سفر پر نہیں نکلتا۔ یوں سمجھ لیجیے"There is no journey without destination" اسی لیے دورے ختم ہوئے۔ بحث انجام تک پہنچنے والی ہے ۔میں اس کج بحثی میں نہیں پڑوں گا کہ کون کہاں جائے گا ۔ویسے بھی چودہ اگست منزلِ مُراد کا دن ہے۔ دیکھنے والی بات صرف اتنی سی باقی بچی ہے کہ نامُراد کون ہو گا ؟سہمی ہوئی حکومت، اُلجھی ہوئی اپوزیشن یاروز روز کی نوٹنکی سے تنگ آئے ہوئے غریب لوگ ۔
تازہ جمہوریت کوزوردار اصرار ہے کہ اُسے کوئی فکر نہیں ۔ اپوزیشن نہ اس کے لیے خطرہ تھی‘ نہ خطرہ ہے۔ ویسے بھی اس کی تکرار ہے کہ اپوزیشن وہی ہے جسے قومی اسمبلی اور سینیٹ نے نوٹیفکیشن کے ذریعے جنم دیا۔زمینی حقیقت اس کے اُلٹ اور متضادہے۔ سرکاری گزٹ والی اپوزیشن صرف لنگر گپ پر مبنی اور پریس ریلیز کاگزٹ جاری کر سکتی ہے‘ جس کے ذریعے سڑکوں پر پہنچی ہوئی اپوزیشن کو نہ میز پر لایا جا سکا اور نہ ہی اس اپوزیشن کے اعلانات کا خوف سرکاری ایوانوں سے دُور ہو سکا۔ ثبوت دو جگہ سے ڈھونڈے جا سکتے ہیں۔
پہلا ثبوت جمہوریت پسندوں کو گدگدانے کے لیے کافی ہے۔ وفاق نے 14اگست کے دن دو عوامی شہروں پنڈی اور اسلام آباد کو ایک دوسرے سے مکمل طور پر کاٹنے کے لیے سِیل کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ عوام کے بنائے عوامی پاکستان میں‘ عوام کو عوامی پارلیمنٹ سے دور رکھنے کے لیے صرف 400کنٹینرز کرائے پر لینے کے لیے ٹرانسپورٹرز کو آرڈر مل چکا ہے۔ آزاد کشمیر سمیت مختلف جگہوں سے بیس ہزار سے زائد پولیس والے یومِ آزادی کو بامعنی اور پُر رونق بنانے کے لیے اسلام آباد بلائے جا رہے ہیں۔جڑواں شہروں میں موبائل سروس کی آزادی یومِ آزادی والے دن ختم ہو جائے گی۔ گھروں سے نکلنے والے شہریوں کی فضائی نگرانی کے لیے ہیلی کاپٹر گشت کریں گے‘ جبکہ اسلام آباد میں قانون نافذ کرنے کے ذمہ داروں نے 14اگست کے دن اپنی قوم کی بھرپورخدمت خاطر کے لیے آنسو گیس کی گن، ربڑ کی گولیاں، گیس کے شیل، لاٹھی چارج کرنے والے ڈنڈے، ہیلمٹ، بُلٹ پروف جیکٹس کے لیے اضافی دس کروڑ روپے مانگ لیے ہیں۔ اب بھی اگر کوئی یہ کہے ، جمہوریت کے ثمرات یعنی پھل فروٹ عوام تک نہیں پہنچ رہے تو اُسے لوڈ شیڈنگ کا اندھا ہی قرار دیا جا سکتا ہے‘ کیونکہ جدید دور میں عوامی خدمت کا اتنا بھر پور بندوبست اس سے پہلے اور کس جمہوری حکومت نے کیا؟
دوسرا ثبوت‘ اسلام آباد شہر کی تاریخ میں‘ جنرل ضیا کی ڈکٹیٹر شپ کے بعد‘ اُسی کی کابینہ کے وفاقی اور صوبائی لیڈروں پر مشتمل موجودہ حکومت نے دیا ہے۔ اس کابینہ میں مشرف ڈکٹیٹر شپ کی کابینہ کا تازہ تڑکا بھی موجود ہے۔ سرکاری اور درباری حلقوں کا موقف تقریباً یہ ہے کہ آرٹیکل 245کے نفاذ کے ذریعے فوجی جوان شاہراہِ دستور وغیرہ پر ''چہل قدمی‘‘ کے لیے آ رہے ہیں ۔ اس اقدام کا مقصد کسی ریلی یا جلوس کا خوف نہیں ۔ساتھ یہ دور کی کوڑی بھی ڈھونڈی گئی کہ حکومت جب چاہے آرٹیکل 245نافذ کر کے فوج طلب کر سکتی ہے۔ یہ موقف اتنا ہی سچا ہے جتنا3 مہینے،6 مہینے،8 مہینے، ایک سال میں لوڈشیڈنگ ختم کرنے کا دعویٰ سچا تھا۔
ہاں البتہ یہ بات درست ہے کہ ملک میں منظم جرائم اور غیر ریاستی عناصر کے خلاف کارروائی کرنے کے لیے مسلح افواج کو آئین کے تحت طلب کیا جانا قومی تقاضا سمجھا جاتا ہے‘ لیکن دوسری جانب میگا پروجیکٹس ٹھیکے پر دینے میں خرگوش والی سپیڈ‘ جبکہ عوام کو تحفظ یا ریلیف دینے میں کچھوے سے بھی گئی گزری رفتار کے ذریعے حکومت نے ساری توپوں کا رُخ خود ہی اپنی جانب موڑ لیا ہے۔آئین کے آرٹیکل 245کو حرکت میں لانے کا ٹائم ایسا چُنا گیا جس سے سیاسی بحث چِھڑنا اس کا منطقی نتیجہ ہے۔
اب بھلا اس بات میں کسی کو کوئی شک ہے کہ جمہوریت نے ترقی کے سارے دروازے کھول دیئے ہیں۔ آپ تفصیل جاننا چاہیں تو خود یہ دروازے گِن لیں۔ صرف ان دروازوں میں سے داخل ہونے والے رشتہ داروں کے محکمے اور اُن کے نام آپ کو یاد ہونے چاہئیں۔ اس قدر دروازے تو کوئی عرب شہزادہ یا مغل شہنشاہ ہی کھول سکتا تھا۔ پھر جس دلیری کے ساتھ عوام کو رمضان شریف میں لوڈ شیڈنگ کے خاتمے کا مزا چکھایا گیا اس سے بھی ثابت ہوا کہ جمہوریت کسی ریلی یا جلوس ولوس سے ڈرتی ورتی نہیں ہے۔ اس سے یہ بھی ظاہر ہوا کہ جمہوریت میں عوام پوری طرح شریک ہیں۔ جسے یقین نہ آئے وہ پنجاب کا بالخصوص اور پورے ملک کا کرائم چارٹ بالعموم‘ نکال کر سامنے رکھ لے۔ ابھی دو دن پہلے بہاول پور میں ایک اور طالبہ نے اپنے مقدمے کے ملزم گرفتار نہ ہونے کے خلاف بطورِ احتجاج اپنے آپ کو آگ لگا لی۔
جس ملک کی حکمران اشرافیہ ہر ذلیل ترین جرم اور خوفناک ترین واردات کے بعد پنجابی فلموں والی ''ملکۂ جذبات‘‘ کی طرح آنسو بہائے تو اس ملک کو بارش کی فکر نہیں کرنی چاہیے‘ کیونکہ یہ آنسو آنے والے سیلاب کی ابتدائی بالٹی ثابت ہو سکتے ہیں۔ ہر واردات کے بعد نوٹس۔ ہر جرم کے ارتکاب کے بعد پولیس کی بجائے لیڈر جائے وقوع کا دورہ کرتا ہے۔ ایک آدھ دن کے لیے دو تین اہلکار معطل ہوتے ہیں۔ لیڈر مرنے والوں، لُٹنے والوں، کٹنے والوں، اغواء ہونے والوں اور بھتہ دینے والوں کے غم میں آنسوئوں کی برسات کے ذریعے شریک ہوتا ہے۔ اس واردات کا نتیجہ ویسا ہی نکلتا ہے جیسا انٹر نیٹ والی دوستی کا ؎
ہم نے جن کی یاد میں رو رو کے مٹکے بھر دیئے
آئے وہ ظالم یہاں، لیکن نہا کر چل دیئے
اُمید ہے یکم سے 13اگست تک میری طرح آپ کی بھی تسلی ہو جائے گی کہ جمہوریت کسی ریلی یا جلوس سے ڈرتی ورتی نہیں ہے۔ یہ بھی سچ ہے کہ فوج کو سیاست میں کوئی دلچسپی نہیں۔ عام آدمی جلسے کے اعلان پر جمہوری ردِ عمل کو حیرانی سے بھی دیکھتا ہے اور پریشانی سے بھی۔ پاکستان واقعی بدلا جا رہا ہے۔ لندن، پیرس اور بارسلونا والے جس رویے کو ''نازی ازم‘‘ کہتے ہیں‘ ہمارے ہاں وہی اصلی تے وڈی جمہوریت ہے۔ سرکاری سروے کے مطابق یہ بھی طے شدہ بات ہے کہ سو فیصد عوام جمہوریت کے ساتھ ہیں۔ پھر یہ 400کنٹینرز، گولیاں، شیل، لاٹھیاں محض اظہارِ محبت کا اقتداری طریقہ سمجھ لیں۔ آپ چاہیں تو سو فیصد عوام میں سے مجھے نکال دیں‘ تاکہ گنتی ذرا مشکل ہو جائے۔ گنتی آسان ہو یا مشکل۔ جمہوریت ڈرتی ورتی نہیں ہے ؎
بولنے پہ پابندی
سوچنے پہ تعزیریں
پائوں میں غلامی کی
آج بھی ہیں زنجیریں
آج حرفِ آخر ہے
بات چند لوگوں کی
دن ہے چند لوگوں کا
رات چند لوگوں کی
اُٹھ کے درد مندوں کے
صبح و شام بدلو بھی
جس میں تم نہیں شامل
وہ نظام بدلو بھی
دوستوں کو پہچانو
دشمنوں کو پہچانو
جمہوریت اور ترقی کے دشمنوں کو معلوم ہونا چاہیے جمہوریت عوام کے سڑکوں پہ آنے سے ڈرتی ورتی نہیں ہے!