شکریہ نظریۂ ضرورت

نظریۂ ضرورت انگریزی میں Kelsen's Doctrine of Necessityکہلاتا ہے۔ نظریۂ ضرورت کو پاکستان کے پارلیمان، سروس سٹرکچر، عدل اور راج نیتی سے اتنی ہی محبت ہے جتنی دیمک کو لکڑی سے۔دیمک وفا کا پُتلا ہے یا پُتلی۔ یہ تو مجھے معلوم نہیں لیکن یہ لکڑی سے تب تک پیار کرتی رہتی ہے جب تک لکڑی مٹی کا ڈھیر نہیں بن جاتی۔ آج کل یہ دیمک نما نظریہ ضرورت ایک مرتبہ پھر پوری رفتار سے متحرک ہے۔ طاقت کے مراکز میں اور قومی منظر نامے میں بھی۔
آئیے ابنِ بطوطہ کی طرح نظریۂ ضرورت کا پیچھا کرتے ہیں۔ محض مثال کے طور پر سب سے پہلے انصاف اور قانون کی دُنیا دیکھ لیجیے۔ وطنِ عزیز میں ایک مرتبہ پھر فرمائشی پٹیشنوں کا شور برپا ہے۔ اس سلسلے کی سب سے بڑی خبر بنانے والا ایسا گروہ ہے جس کا جدید سیاسی کیرئیر بڑا دل چسپ ہے۔
جونہی جنرل (ر) مشرف نے نواز حکومت کو ہٹایا تو اُسے ملنے والی پہلی سپورٹ یا ہنگامی امداد کا سب سے بڑا ستون یہی تھا۔ چنانچہ مرکز میں پی پی پی کی واضح عددی برتری کو نظر انداز کر کے اس گروہ کے سربراہ کو لیڈر آف دی پوزیشن بنا دیا گیا۔ آپ جانتے ہی ہوں گے اپوزیشن لیڈر کو ''پرائم منسٹر اِن ویٹنگ‘‘ سمجھا جاتا ہے۔ قائدِ حزبِ اختلاف کے پاس جھنڈے والی گاڑی ہوتی ہے۔ ان گنت دوسری مراعات کے ساتھ ساتھ ہر وقت سرکاری محکمے اور ہر جگہ اقتدار کے ایوان تک اپوزیشن لیڈر کو دن رات پذیرائی ملتی ہے۔ سرکاری یا پارلیمانی تقریبات میں پذیرائی اس کے علاوہ۔ 
اُس دور میں پہلی دفعہ پاکستان کی سیاسی تاریخ نئی اصطلاح سے روشناس ہوئی۔ وہ تھی فرینڈلی اپوزیشن۔یہ اس دوستانہ حزبِ اختلاف کا احسانِ مسلسل تھا کہ مشرف ساڑھے نو سال بیٹھے رہے‘ جبکہ شوکت عزیز جیسا مالیاتی کلرک ڈکٹیٹر شپ کے سارے عرصۂ حیات میںوزیرِ اعظم رہا۔
پچھلے دنوں میں لندن کے اس علاقے میں تین دن قیام پذیر رہا‘ جہاں اس ہوش رُبا ترقی کرنے والے سابق وزیرِ اعظم کی ہوش رُبا ترقی کے ثبوت نظر آتے ہیں۔ آج کل اس کا مشغلہ پاکستان سے آنے والے اصحابِ اثر و رسوخ کی بھر پور مہمان نوازی ہے۔ میں ہمیشہ ایسے بندہ نوازوں سے دُور رہتا ہوں۔
مشرف صاحب کو جس قدر سپورٹ ظفر علی شاہ کے مقدمے میں ارسلان کے ابا کی طرف سے تین سال ملنے کے بعد حاصل ہوئی‘ اتنی ہی بڑی سپورٹ اسے دینی محاذ کے متحدہ راہنمائوں نے تب فراہم کی تھی جب پی پی پی اور نون لیگ سترہویں آئینی ترمیم کے مشترکہ مخالف تھے۔ مشرف نے سترہویں آئینی ترمیم کی خوشی میں ان راہنمائوں کی تواضع الائچی والے ایسے میٹھے حلوے سے کی‘ جس کی خوشبو صوبہ سرحد میں پانچ سال تک پھیلی رہی۔ 2008ء کا الیکشن مشرف کے دوستوں نے اکیلے لڑا اور قوم نے انہیں اُن کی اوقات پھر یاد دلا دی۔ یہ سارے جمہوریت نواز مختلف دل پسند بلکہ لذیذ وزارتوں پر بیٹھ کر آج کل نواز شریف صاحب کا پسندیدہ نعرہ لگاتے ہیں۔ یہ تاریخی نعرہ سب کو یاد ہے یعنی ''قدم بڑھائونواز شریف ہم تمہارے ساتھ ہیں‘‘ اگر کمپوزر کی غلطی سے قدم بڑھائو کی بجائے رقم بڑھائو لکھا گیا تو آپ اس کی ذمہ داری مجھ پر نہیں ڈال سکتے ۔ ویسے بھی قدم اور رقم آواز اور ردھم میں ایک جیسے ہیں۔ جبکہ ان دو لفظوں کے درمیان فرق اتنا ہی ہے جتنا دعا اور دغا میں ہے یا محرم اور مجرم میں۔ اسلام آباد کے ریڈ زون کی سرکار آج کل دن رات نظریۂ ضرورت کا شکریہ ادا کرتی نظر آتی ہے۔
نظریۂ ضرورت کے شکریہ کا دوسرا میدان نابینا ہے۔ کیونکہ قانون اندھا ہوتا ہے اسی لیے جن کو گولیوں سے زخمی کر کے‘ برسرِ جی ٹی روڈ پتھروں سے سنگسار کر کے یا پولیس سٹیٹ کے عالمی ہتھیار جھوٹے مقدمے درج کر کے دہشت گردی اورکم از کم 302میں پھنسایا جا رہا ہے‘ وہ سارے کے سارے نہتے سیاسی کارکن ہیں۔ جن کو یقین نہ آئے وہ ملک بھر میں پچھلے دو ماہ کے دوران گرفتار ہونے والے سیاسی کارکنوں کی لسٹ پڑھ کر دیکھ لے۔ دوسری جانب وہ ہیں جن کے خلاف ثبوت ہیں کہ ان کے حکم 
سے ملک کی سیاسی تاریخ کے سب سے بڑے وحشیانہ ظلم ہوئے۔ اُن کے اپنے بیانِ حلفی ان جرائم کا کھلا اعتراف ہیں۔ قانون ہے کہ ان کو روک رہا ہے جن کو آئین باہر نکلے کا بنیادی حق دیتا ہے۔ مثال کے طور پر آئین کے آرٹیکل 15کا عنوان ہی فریڈم آف موومنٹ رکھا گیا ہے۔ یہ آرٹیکل کہتا ہے ہر شہری کو یہ بنیادی انسانی حق حاصل ہو گا کہ وہ پورے پاکستان میں جہاں چاہے قیام کرے، پکی رہائش اختیار کرے، ہر شہر میں داخل ہو اور آزادی کے ساتھ قانون کے دائرے میں گھومے پھرے یا پہنچے۔ نظریۂ ضرورت کو سلام جسے سارے نعرہ باز اور فتویٰ باز مل کر بھی پاکستان سے نہیں نکال سکے۔ یہ نظریۂ ضرورت جب چاہتا ہے کمال کر دیتا ہے۔ کمال تو فیض احمد فیض نے بھی کیا جب فیض نے یہ کہا تھا: 
پھر دل کو مصفّا کرو، اس لَوح پہ شاید
مابینِ من و تُو، نیا پیماں کوئی اُترے
اب رسمِ ستم حکمتِ خاصانِ زمیں ہے
تائیدِ ستم مصلحتِ مفتیِ دیں ہے
اب صدیوں کے اقرارِ اطاعت کو بدلنے
لازم ہے کہ انکار کا فرماں کوئی اترے
اس آئین کا آرٹیکل نمبر 16یہ ہے:
Freedom of Assembly: Every citizen shall have the right to assemble peacefully and without arms, subject to any reasonable restrictions imposed by law in the interest of public order.
اگر آپ اس آرٹیکل پر صرف پہلی نظر ڈالیں تو یہ واضح ہو جائے گا کہ یہ ملک کے ہر شہری کو ہتھیاروں کے بغیر کہیں بھی پُر امن طور پر جمع ہونے کا حق دیتا ہے۔ شہریوں کے لیے یہ حق ِاجتماع صرف قانون کا پابند ہے۔ اس کا واضح مطلب یہ ہوا کہ قانون کے بغیر نہ کوئی حاکم اور نہ کوئی منصف یہ حق شہریوں سے چھین سکتا ہے۔ اسی کے ساتھ ساتھ 1973ء کے متفقہ آئین نے شہریوں کو فریڈم آف ایسوسی ایشن جیسا بنیادی حق بھی دے رکھا ہے۔
نظریۂ ضرورت کے کیا کہنے۔ اس کا حسنِ کرشمہ ساز ہر قانون سے بلند‘ ہر آئینی حق سے بالاتر اور ہر شہری کے بنیادی حقوق سے اونچا ہے۔ اونچا اُڑنے والا ہر شاہین قصرِ سلطانی کے گنبد پر نظر رکھتا ہے۔ غریب کی جھونپڑی اور شہریوں کا دھرنا اسے سخت ناپسند ہیں۔
نظریۂ ضرورت پھر جاگ اُٹھا ہے ۔ کوئی نہیں جانتا اس بار اس نظریے کی آخری ضرورت کیا ہے؟ یاد رکھیے ہر ضرورت ایجاد کی ماں ہوتی ہے۔ نیا ملینیئم آدھے مسلمان ملکوں میں خانہ جنگی لے کر آیا اور آدھے مسلمان ملکوں میں تخت اچھالے جا رہے ہیں اور تاج گرائے جا رہے ہیں۔ اب بھی وقت ہے کہ نظریۂ ضرورت کے مجاور اسے موضع سری سرال کے قبرستان لے جا کر دفنا دیں۔ ورنہ سری سرال اور رتہ ہوتر جہاں آج کل ایوانِ اقتدار ہے‘ اس کے درمیان 10کلو میٹر کا بھی فاصلہ نہیں۔ 

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں