ایک بازو پہ اُڑتا ہوں میں آج کل

بین الاقوامی اسٹیبلشمنٹ کے لیے غیر ملکی ڈکٹیشن پر صدام حسین التکریتی کے جوڈیشل قتل کے بعد سب سے کارآمد چیز کا نام تھا نوری المالکی ۔عراق کے اکثریتی طبقے سے تعلق رکھنے والے مالکی کو بغداد میں وہی کردار سونپا گیا جو افغانستان میں حامد کرزئی کو ملا تھا۔دونوں کی عالمی استعمار کے لیے اس ڈیوٹی کو ان لفظوں میں سمیٹا جا سکتا ہے اور وہ ہے ''غیر مشروط اطاعت‘‘ لیکن حالیہ اگست میں مغربی اشرافیہ کے دونوں مکمل تابعداروں کے ساتھ ایک جیساہی سلوک ہوا۔ عالمی مالکان کے اس جُوتم پیزار کے نتیجے میں پاکستان کے بڑے ایوانوں میں موجود بین الاقوامی مالیاتی فنڈ یعنی آئی ایم ایف کے جُزوقتی خادموںاور کل وقتی ملازموں کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔
عملی طور پر اس سلوک کی واردات میں شہیدشیرِ میسُور ٹیپو سلطان کے غدّاروں کی تاریخ نے اپنے آپ کو دہرایا۔سقوطِ میسُور کے بعد ریاست کے غدّاروں کی تواضع فاتح فرنگی فوج کے ٹُھڈوں سے ہوئی تھی۔ سیاست کی تاریخ کا سب سے بڑا سبق ایک ہی ہے اور انجام بھی کہ جو مقتدر عوام کے ساتھ غدّاری کرے یا طاقت کے اس سر چشمے کو غیر متعلقہ جان کر نظر انداز کرے‘ سیاسی طاقت کایہ واحد سر چشمہ اُسے حرفِ غلط جاں کر مٹا دیتا ہے۔
شہید قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو نے اس ابدی حقیقت کو یہ کہہ کر امر کر دیا ''اقتدار کی جنت عوام کے قدموں کے نیچے ہے‘‘ پھر یہ بھی ناقابلِ تنسیخ تاریخ ہے، لیڈر بڑا ہو یا چھوٹا‘ اس کی اصل طاقت غریب عوام کا دروازہ ، محنت کش مزدور کی کُٹیا، کچی آبادی کے بے خانماں مکینوں اور بے روزگار ی کے ڈسے ہوئے لوگوں کی جھونپڑی ہے ۔
دو عالمی جنگوں کے فتحیاب ہیرو برطانوی وزیراعظم سرونسٹن چرچل کو بھی عوام نے معاف نہیںکیا ۔ جنگ عظیم دوم کے بعد انگلستان کے عام انتخابات میں ڈاک اور ریل کے مزدوروں اور فتح کے سکون میں سر شار گورے ووٹرز نے مشترکہ طور پراپنے عالمی ہیرو کو خاک چاٹنے پر مجبور کر دیا۔ ونسٹن چرچل کے مقابلے میں وہ شخص انگلستان کا وزیراعظم منتخب ہوا جس کا نام اب کوئی نہیں جانتا۔ جبکہ چرچل صحیح معنوں میں جدید انگلستان کا محسن تھا۔
یہ کہتے ہوئے دل دکھتا ہے کہ جو گولی شہید بے نظیر بھٹو پر چلائی گئی‘ اس نے فیڈریشن کو مار کر رکھ دیا۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے فائونڈنگ ڈاکومنٹ میں (جس کی تفصیل اور پسِ منظر بابائے سوشل ازم شیخ محمد رشید کی کتاب جہدِ مسلسل میںموجود ہے۔ جسے جمہوری پبلیکیشنز نے شائع کیا) پی پی پی کے ابتدائی دستور کا محور تین قومی مسائل کا حل تھا۔
پہلا ٹُوٹے ہوئے پاکستان اور ون یونٹ کے بعد ملک کو فیڈریشن کے ذریعے نیاراستہ دکھانا۔ فیڈریشن کو شہید بے نظیر بھٹو کے زمانے میں ایک ایسا نعرہ ملا جس کے ذریعے فیڈریشن پیپلز پارٹی کے سیاسی ایجنڈے کا پہلا نکتہ بن گئی۔ وہ نعرہ تھا چاروںصوبوں کی زنجیر۔ بے نظیر بے نظیر۔ فیڈریشن کو مزید مضبوط کرنے کے لیے 1974ء میں آزاد جموں و کشمیر کے علاقوں کو پہلی بار عبوری دستور دیا گیا۔ یہ دستور اے جے کے کے جوڈیشل نظام، منتخب پارلیمان اور عوام نے دل و جان سے قبول کیا اور اپنی سیاست کی بنیاد اس پر رکھ دی۔ شہید بی بی نے اپنے سیاسی کیرئیر میں پاکستان کے شمالی علاقہ جات اور قبائلی خطے کو خصوصی توجہ کے ذریعے سیاسی نظام میں جگہ دی۔ فیڈریشن کے فلسفے کے اس تسلسل میں ہمارے دورِ حکومت کے دوران گلگت بلتستان کے عوام کو سیاسی سیٹ اَپ دیا گیا۔ اس کے ساتھ ساتھ قبائلی علاقہ جات تک پولیٹیکل پارٹیز ایکٹ کی توسیع اور نفاذ ہوا۔ اس طرح فیڈریشن کا جو پودا 12 اپریل1973ء کے روز پہلے جمہوری، وفاقی، اسلامی، سوشلسٹ اور متفقہ دستور نے لگایا تھا اُسے وقفے وقفے سے ملنے والے نمائشی اور آزمائشی اقتدار کے دوران پاکستان پیپلز پارٹی نے تناور درخت بنا کر تاریخ کا حق ادا کیا.
پی پی پی کے ابتدائی دستور کا دوسرا مقصد آئین کے آرٹیکل نمبر 3سے واضح ہوتا ہے جس کے الفاظ یہ ہیں: 
Elimination of Exploitation: The State Shall ensure the elimination of all forms of exploitation and the gradual fulfilment of the fundamental principle, from each according to his ability to each according to his work.
1973ء کے آئین نے ایک اور کمال بھی کر دکھایا‘ وہ یہ کہ شہریوں کو بنیادی حقوق کی ضمانت دینے کے ساتھ ساتھ آئین کے باب نمبر 2کے ذریعے ریاست کے راہنما اصول وضع کیے۔ پھر اُن کے مقاصد کو آئین کے آرٹیکل نمبر 29میں تفصیل کے ساتھ خدوخال دے دیئے۔ یہی نہیں بلکہ آرٹیکل 29کے ابتدائیے میں کہا کہ ریاست کا ہر عضو اور ریاست کی ہر اتھارٹی اور ریاستی اعضاء اور ان کی طاقت کے لیے کام کرنے والا ہر شخص ریاست کے ان راہنما اصولوں کے مطابق اپنی ڈیوٹی دے گا۔
کمزور طبقات، اختیار سے محروم پاکستانی عورت، زرعی مزدور، ہاری اور ہر شعبے کے محنت کشوں کو مقامی حکومت کے اداروں میں لازمی نمائندگی دینے کے لیے آئین میں آرٹیکل نمبر 32ڈال دیا گیا۔ برادری ازم، قبائلی، نسلی، صوبائی، علاقائی اور طبقاتی استحصال کو روکنے کے لیے ریاست کے راہنما اصولوں میں آرٹیکل 33کا چراغ روشن ہوا۔
خواتین پاکستان کی آبادی کا 51.7فیصد ہیں۔ قومی آبادی کے اس بڑے حصے کو قومی زندگی میں پہلی مرتبہ نمایاں کردار سونپنے کے لیے ریاست سے یہ گارنٹی لی گئی۔ 
Article 34, Full Participation of women in national life: Steps shall be taken to ensure full participation of women in all spheres of national life. 
1973ء میں عوام کے بالغ نظر لیڈر نے 9/11کے بعد اقلیتوں پر ہونے والی چیرہ دستیوں کا ادراک کر لیا تھا۔ اسی لیے پرچمِ پاکستان کے اس اٹوٹ انگ کو آئین نے یوں محفوظ کرنے کا حکم جاری کیا۔
Article 36, Protection of minorities: The State shall safeguard the legitimate rights and interests of minorities, including their due representation in the Federal and Provincial services.
سماجی انصاف، طبقاتی استحصال کے خاتمے، عوام کو معاشی مساوات دینے ان کے معیارِ زندگی کو بلند کرنے، چند ہاتھوں میں دولت کی تقسیم کو روکنے، پیداواری ذرائع پر معاشی مافیاز کے قبضے کو روکنے اور ہر اُس عوام دشمن حرکت کو روکنے کے لیے آرٹیکل نمبر 38تخلیق کیا۔ جس کے ذریعے چند لوگوں کی مرضی، چند لوگوں کے مفاد کو عام شہریوں کے مفاد پر حاوی نہ ہونے دینے‘ مالک اور ملازم کے درمیان حقوق کے توازن کے قیام‘ زمیندار اور مزارعین کے مابین حق اور فرض کی برابری پر مشتمل سماج کی تشکیل کے لیے آئینی میکنزم فراہم کیا گیا۔
پی پی پی کے ابتدائی دستور کا تیسرا نکتہ وہ تھا جس نے سیاست کو جاگیرداروں کے بڑے محلات، سرمایہ داروں کے ڈرائنگ رومز اور امیروں کی ڈیوڑھیوں سے نکال کر موچی دروازے سے لالو کھیت کے چوپال میں پہنچا دیا ۔ یہ تھاایک آدمی‘ ایک ووٹ اور عوامی شعور و طاقت کو سیاست کا اصلی روڈ میپ سمجھ کر عوام کی آخری فتح کے لیے آگے بڑھنا۔ اس ہفتے کیوبا کے صدر رائول کاسترو کی بیٹی اور فیڈل کاسترو کی بھتیجی نے اپنی حکومت کے ایک بل کو یہ کہہ کر ووٹ دینے سے انکار کردیا کہ یہ عوام دشمن ہے۔ ہماری سیاست کا پورا منظر نامہ win-winکی طرح رائیٹ اینڈ رائیٹ پر مشتمل ہے۔ بائیں بازو کی واحد بڑی جماعت عوامی مزاحمت کے نئے منظر نامے سے دُور رہی تو نظام تبدیل نہیں ہوگا‘ صرف شیروانی بدلے گی۔ بائیں بازو کے بغیر سیاست ٹُنڈی تھی اور ٹُنڈی رہے گی۔ مشیر کاظمی نے سچ کہا تھا ؎ 
ایک بازو پہ اُڑتا ہوں میں آج کل
دوسرا دشمنوں کو گوارا نہیں
آج بھی پاکستان کی سیاست سے روٹی‘ کپڑا اور مکان کا نعرہ‘ چیئرمین مائو کا ذکر اور طاقت کا سر چشمہ دور نہیں کیا جا سکا۔ جن کو سرمایہ داری ٹھاہ، جاگیرداری ٹھاہ اور چور بازاری ٹھاہ کے نعرے بلند کرنے چاہئیں وہ نادان ایسے وقت میں سو رہے ہیں جب وقتِ قیام ہے۔ جب تک ٹُنڈی سیاست کا دوسرا بازو بلند نہیں ہوگا‘ سرمایہ داری اور سٹیٹس کو کا قبضہ مضبوط ہوتا رہے گا۔ 

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں