شاہراہِ بے دستور

''وزیراعظم پسندیدہ نیوز‘‘ والی وڈیو اور آواز کے بعد جمہوریت نے فلور پر یہ ثابت کر دیا کہ اب تو قوم کا دستور بھی اپنا اپنا ہے اور سچ بھی علیحدہ علیحدہ ۔اس لیے شاہراہ دستور بے دستور ہو کر رہ گئی ۔
اس میں کیا شک ہے پی ٹی وی ایک قومی ادارہ ہے ۔مگر اس سے انکار کون کر سکتا ہے کہ اس کے تنخواہ دار اور وظیفہ خوار ریاست یا قوتِ اخوتِ عوام کی بجائے ہمیشہ حاضر سروس حکمرانوں کی ذاتی ملازمت کرتے ہیں ۔ملازمت میں بھی کبھی نہ کبھی اچھے نام و لقب کا کوئی نیکوکار کھڑا ہو جاتا ہے اور کہہ دیتا ہے بادشاہ ننگا ہے۔ اس قومی ادارے کا سچ دیکھیے آٹھ کیمرے چوری ہوئے ۔لیڈی نیوز کاسٹر کے پرس میں ڈکیتی ہوئی ۔یہ ہے قومی ادارے کا سچ اور سچ بولنے والے کون جو جنرل ضیاء کی ڈکٹیٹر شپ سے آج تک مسلسل سچ کا کاروبار کرتے ہیں ۔قومی اداروں کے فضل وکرم سے مُفتا مفتی کے یہ ماہر دن دوگنی رات چوگنی ترقی کرچکے ہیں ۔پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں شرکت کے لیے تمام راستے بند ۔بری امام کی چلہ گاہ لوئی دندی کے نیچے کی کچی سڑک کھلی ہے۔پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کے اندر کا مشترکہ سچ ملاحظہ ہو ۔پہلا سچ یہ کہ صرف ان کو بولنے کی اجازت دی گئی جن کی فہرست وزیراعظم نے چٹ پر لکھ کر سپیکر قومی اسمبلی کو بھجوائی۔ آزاد اور خودمختار سپیکر نے قائد جمہوریت کی مکمل تابعداری کی ۔اس کی ایک وجہ لاہورکے چار دھاندلی زدہ حلقے ہیں ۔دو ارب پچیس کروڑ کی مالی امداد والی سول انٹیلی جینس ایجنسی کی رپورٹیں آج کل محصور سرکار کی اصل طاقت ہیں۔ ایک ہائوسنگ پروجیکٹ سے عالمی شہرت پانے والی اس ایجنسی نے رپورٹ دی اگر ایٹمی جمہوریہ کے نظام کا تخفظ کرنا ہے تو فوراً صرف سوا دو ارب روپے بغیر پارلیمنٹ کی منظوری کے سپلیمنٹری گرانٹ دی جائے۔ ظاہر ہے جس ملک میں اپوزیشن آزاد صحافیوں ،منصفوں اور وکیلوں کے فون ٹیپ ہونا بند ہو جائیں اس میں جمہوریت کیسے پھل پھول سکتی ہے۔ اتنی عظیم منصوبہ سازی کے بعد بھی وزیراعظم کی موجودگی میں پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کا متفقہ فیصلہ یہ تھا ''دھاندلی تو ہوئی ہے‘‘۔ سب نے کہہ دیا مگر چور اس قدر طا قت ور ہے کہ عوام کے مینڈیٹ پر ڈکیتی کے مشترکہ الزام میںبھی اس پر ہاتھ ڈالنے کے لیے کوئی تیار نہیں۔ اس لیے پارلیمنٹ کا دستور قوم کے سامنے ہے ۔
جمہوری نظام میں پارلیمانی آداب بھی دستوری کہلاتے ہیں۔ پارلیمانی دستور سے یاد آیا ۔یہ وہی پارلیمنٹ ہے جس میں اسمبلی توڑ کر اندر گھسنے والے ڈکٹیٹر ضیاء الحق کے لیے مرد مومن اور مرد حق کے نعرے لگائے گئے ۔جبکہ پہلی بار ایک آدمی ایک ووٹ کی بنیاد پر منتخب ہونے والے وزیراعظم کے خلاف گو وزیراعظم گو کہا گیا۔پھر تاریخ نے یہ پارلیمانی منظر بھی دیکھا کہ غلام اسحاق کے خلاف گو بابا گو سابق صدر کے خلاف گو زرداری گو۔ اسی دور کے وزیراعظم کے خلاف گو وزیراعظم گو کے نعرے بلند ہوئے آج کی ''نازک اندام‘‘ جمہوریت تب اپوزیشن میں تھی۔ قومی خرچے پر اس کی کوئی تقریر دو گھنٹے سے چھوٹی نہیں ہوتی تھی۔ اس سب کے باوجود نہ جمہوریت کو خطرہ در پیش ہوا۔ نہ ہی شاہراہِ دستور پر خون پسینے اور آنسوئوں کا سیلاب بہایا گیا ۔
اب ذراڈی چوک تک۔ اس چوک پر پچھلی حکومت کے پورے پانچ سال مختلف حکومتی اداروں کی زیادتیوں یا دھاندلیوں سمیت سیاسی چیف جسٹس کی پنشن والی نوکری پر بحالی کے لیے مسلسل کیمپ لگتے رہے۔ اس طرح کے درجنوں دھرنوں کے شرکاء نے بطور وفاقی وزیر میرا بھی راستہ روکا ۔ اپنی پوری بِپتا سنائی اور حکومت سے وعدہ لیا کہ آپ فلاں وفاقی وزیر کو باہر بھیجیں۔اکثر وزیروں کو میں اپنے ساتھ لے کر احتجاجی کیمپوں میں گیا‘ کیونکہ سچّا سیاسی عقیدہ یہی ہے کہ اقتدار کی جنت غریب عوام کے قدموں کے نیچے ہے ۔ اسی لیے ،اتنے دھرنے اس قدر احتجاجی کیمپ ،مسائل کے مارے ہوئے سرکاری ملازم۔ گمشدہ لوگوں کے خاندان اور طرزِ حکمرانی میں تبدیلی کے نعرے لگانے والے پچھلے پانچ سال میں وہ خطاب حاصل نہ کر سکے جو کل انہیں سرکاری اعزاز کے ساتھ نوزاگیا۔ اگلے الفاظ میرے نہیں سرکار کے ہیں ''دھرنے والے دہشت گرد ہیں ملک دشمن اور سازشی ہیں‘‘ نئے زمانے کا ایک اور نیا دستور دیکھ لیجیے۔ اس دستور کو سمجھنے کے لیے پرانا زمانہ ذہن میں لائیں۔ اسی پارلیمنٹ ہائوس اور اسی کیبنٹ بلاک کے پیچھے صدر ہائوس والا دروازہ ہے ۔اسی حکومت میں بیٹھے ہوئے اسی دور کے وزراء اسی دروازے پر چڑھ جاتے ہیں۔ دو تہائی اکثریت کے ساتھ منتخب ہونے والے صدر کے خلاف ایسے نعرے لگاتے ہیں جو لکھے بھی نہیں جا سکتے ۔اپوزیشن کی یہ دھرنی کئی دن تک دھری کی دھری رہ جاتی ہے نہ دستور خطرے میں آیا نہ ہی جمہوریت ڈی ریل ہوئی۔ اب آیئے مینار پاکستان کی طرف جہاں ڈیڑھ ہزار مسلح اہلکاروں کے نرغے میں ایک کیمپ لگایا گیا۔ جس کے اندر ملک کے سب سے بڑے صوبے کی کابینہ اور اس کا چیف ایگزیکٹو کھجور کے بنے ہوئے پنکھے جھلا رہے ہیں ۔اس کیمپ میں بیٹھے لوگ پاکستان کی سرکار کے ملازم ،عہدیدار ،تنخواہ دار، وظیفہ خور اور مراعات یافتہ ہیں ۔آپ کے لہجے میں وفاق کے منتخب عہدیداروں کے لیے آگ بھری ہوئی ہے ۔کابینہ اپنے صوبے کے خاص لوگوں کو عام پیغام کے ذریعے کہتی ہے باہر نکلو۔ لوڈ شیڈنگ کرنے والوں کی اینٹ سے اینٹ بجا دو ۔اس سرکاری حکم نامے کے بعد واپڈا کے دفاتر، وفاق کی جائیدادوں گرڈ سٹیشن اور برقیات کی انکوائری کے ساتھ جو جمہوری رویہ اپنایا گیا اس کے نتیجے میں اربوں روپے آگ اور دھوئیں کے نذر ہوگے۔ پٹواریوں، محکمہ صحت کے اہل کاروں اور پی ایچ اے کے بیل داروں پر مشتمل جلسوں کی زبان دُھرانے کی ضرورت نہیں ۔جس میں جدید ریاستی تاریخ نے پہلی دفعہ صوبائی وزیراعلیٰ کو یہ کہتے ہوئے سنا صدر اپنا استعفیٰ میرے حوالے کر دو ورنہ اسی چوک کے کھمبے پر... گلے میں رسی ڈال کر... اسی سڑک پر... مجال ہے کہ جمہوریت ڈی ریل ہوئی ہو بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہے ٹس سے مس تک ہوئی ہو ۔
اب ذرا تبصروں، جائزوں اور عوامی انصاف کے سرکاری سٹال پر بھی ایک نظر ڈال لیں ۔جہاں انتہائی معتبر شخصیات چوبیس گھنٹے دو پرانے سرکاری شیشے ٹوٹنے پر ماتمی لباس میں نوحے پڑھتے نظر آتے ہیں ۔حرام ہے اگر ان کے منہ سے پی ٹی وی روڈ پر مارے جانے والے شہریوں کے لیے تعزیت کا لفظ نکلا ہو۔ مزید ممنوع ہے اگر انہوں نے چند لاکھ اعصاب توڑنے والی گیس کے شیل ۔چالیس ہزار لاٹھی بردار اہلکار ،واٹر گن یا عوام پر برستی گولیاں دیکھی ہوں۔ اس ماحول میں شاہراہ ِدستور ،بے دستور نہیں تو اور کیا ہے ۔جس نے ضیاء کے مارشل لاء والی کابینہ میں یہ کہہ کر حلف اٹھایا تھا میں مارشل لاء کے سارے ضابطے احکام اور اقدامات کے تخفظ کا عہد کرتا ہوں۔ اس کے ہدایت کار کہتے ہیں ضیاء کابینہ کی طرح جو اس نازی ازم کی مدح سرائی کرے وہ جھوٹ نہیں بول سکتا ۔32سالہ تجربہ کار جمہوریت کے پاسبان شاہراہ ِ بے دستور پر مزید آگے جا کر بھی عوام کو کیا دیں گے۔یہ میرے گرائیں سید ضمیر جعفری بہت پہلے کہہ گئے ؎
ہر شے ہے منتظر تیری، اگلے جہان میں
فی الحال تو رہو، اسی کچے مکان میں 
جب سے ملی ہے، خوانچہ فروشوں کو خواجگی
تالے پڑے ہوئے ہیں ہُنر کی دکان میں 
ساگر کے سُر شناس، اگر ناخدا نہ ہوں 
بنتے ہیں کشتیوں کے کفن، بادبان میں 

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں