پنجابی کا محاورہ ہے ''دُدھ پِین نُوں بھاگ بھری‘ تے دَھون بھنان نُوں جُمّا‘‘۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ دودھ پینے کی باری آئے تو بھاگ بھری باری لگاجائے۔ لیکن گردن تُڑوانی ہو تو جُمّے (جمعہ خان) کو بُلایا جائے۔درویش شاعراستاد دامن نے یہی بات اپنے انداز میں کہی ہے ؎
پاکستان چ موجاں ای موجاں
جِدّھر ویکھو فوجاں ای فوجاں
اب شعر کا مفہوم بدل گیا ہے۔ جہاں موج لگائی جا رہی ہو وہاں موجی آگے رہتے ہیں مگر جہاں پر موت ناچ رہی ہو وہاں فوجی آگے کیے جاتے ہیں۔
اس تبدیلی کا تازہ ترین ثبوت ہم بدلیں گے پاکستان والا ''برانڈڈ نعرہ‘‘ مارنے والوں نے دیا ہے۔ جہاں جہاں زمین پر سیلاب ہے اور موت کا رقص ہو رہا ہے وہاں فوج ہی آگے ہے اور پاک وطن کے غریبوں کے حق میں قربانیوں کی نئی تاریخ لکھ رہی ہے۔ صوبیدار عناب گل نے جس طرح شہادت کا جام دونوں ہاتھوں سے تھا م کر نوش کیا اُس کی مثال دنیا بھر کی فوجوں کے سپاہی مل کر بھی نہیں پیش کر سکتے۔ صوبیدار عناب نے ملتان کے نواح میں مصنوعی سیلاب میں سے اصلی اور حقیقی بارات بچانے کے لیے بپھری ہوئی موجوں پر مسلسل حملے کیے اور اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر ہر حملے میں خدا کے بندوں کی جان بچائی۔ آخری حملہ اس حال میں کیا کہ صوبیدار عناب کے ایک ہاتھ میں اعظم کی بے سہارا بیٹی کا ہاتھ اور دوسرے ہاتھ میں اس کے معصوم بچے کا لاشہ تھا۔ ایسے ہی شہیدوں کے لیے یہ خراجِ عقیدت پیش کیا جاتا ہے ؎
چلے جو ہو گے شہادت کا جام پی کر تم
رسولِ پاکﷺ نے بانہوں میں لے لیا ہو گا
علیؓ تمہاری شجاعت پہ جھومتے ہوں گے
حسینِ پاکؓ نے ارشاد یہ کیا ہو گا
تمہیں خدا کی رضائیں سلام کہتی ہیں
اے راہِ حق کے شہیدو وفا کی تصویرو
تمہیں وطن کی ہوائیں سلام کہتی ہیں
دوسری جانب وہ مقدر کے سکندر ہیں جو رہنمائی کا دعویٰ کرتے نہیں تھکتے۔ لیکن اپنے ہی لوگوں کے لیے ان کے دل میں ''ایثار، جرأت اور قربانی کا جذبہ‘‘ اس قدر موجزن ہے کہ سیلاب زمین پر ہے اور لیڈر سیلابوں کے متاثرین کے خرچ پر ہیلی کاپٹروں اور جہازوں میں آسمان پر گھوم رہے ہیں۔ اگر آپ ہوائی لیڈروں کے فضائی دوروں کی وجہ جاننا چاہتے ہیں تو آپ چھاتی چھاتی تک سیلاب میں ڈوبے ہوئے غریبوں سے پوچھیے جن کو جونہی حکمران نظر آتا ہے وہ انگریزی میں گو اینڈ گو کا نعرہ نہیں لگاتے بلکہ پھٹے ہوئے کُھسے ہاتھ میں پکڑ کر اس کا پنجابی اور سرائیکی ترجمہ بھی لہرا لہرا کر سناتے ہیں۔ اسی لیے سویلین انٹیلی جنس ایجنسی جس کو ایک سال میں تقریباً پانچ ارب روپے بجٹ ملا ہے‘ خواہ وہ پارلیمنٹ سے منظور شدہ ہو یاامیرالمومنین کے مالیاتی خلیفے کے فرمان سے جاری ہوا ہو‘ اس نے سہمے ہوئے لیڈروں کو بکھرے ہوئے غریب متاثرین سے بچانے کا راستہ ڈھونڈ لیا ہے۔ دو روز پہلے ایک فوٹیج ٹی وی پر چلی اور اخباروں میں بھی چھاپی گئی جس میں پنجاب کے وزیرِ اعلیٰ ڈیڑھ پونے دو کلو کا ''راشن سے بھرپور تھیلا‘‘ کیمرہ مین کے سامنے سے مریدکے والوں کے لیے نیچے پھینک رہے ہیں۔ متاثرین کو یقین ہے کہ پنجاب حکومت نے تھیلے کے ساتھ سرکاری تعویز بھی باندھا ہو گا۔ جس میں تھیلے کے جِن کے نام خادمِ اعلیٰ کا حکم نامہ بھی ہو گا کہ اس تھیلے کو خشکی پر گرانا۔ حالانکہ سچ تو یہ ہے کہ سیلاب زدہ علاقوں میں آج کل خشکی نام کی کوئی چیز نہ ہی زمین پر ہے اور نہ ہی چھتوں پر۔
خشکی سے یاد آیا موجودہ سیلاب جسے میں نے پہلے دن ہی ''انجینئرڈ‘‘ قرار دے دیا تھا۔ اس کی چشم کشا اور روح تڑپا دینے والی تفصیلات شہر اقتدار تک پہنچ رہی ہیں۔ سیلابی ذرائع سے بھی اور سفارتی چینل کے ذریعے سے بھی۔ جس کی تفصیلات میں سے صرف ایک جملہ یہاں درج کرتا ہوں۔ اگر کمیشن کی دلدادہ حکومت چاہے توآج کے وکالت نامے کی اس ایک سطر پر 2010ء کے سیلاب کی طرح کا ایک اور کمیشن بنا دے تاکہ اُجڑنے والے کروڑوں گھرانے، کروڑوں جاندار اور سارے اجڑے دیار 2014ء کے سیلاب کا سچ جان سکیں۔
موثق راوی کہتا ہے ''دریائے راوی کا کوئی بند کیوں نہیں ٹُوٹا اور نہ ہی کوئی پشتہ توڑا گیا‘‘؟ اس کا سبب بارڈر کے دونوں طرف دو بڑوں کے درمیان‘ جودوست اور گرائیں ہیں‘ پیغام رسانی ہے۔ اسی لیے بھارت کی جانب سے جہلم اور چناب میں پانی چھوڑنے پر ہمارے وزیرِخارجہ ( جو آج کل ہمارے وزیرِاعظم نواز شریف خود ہیں) نے احتجاج کا ایک لفظ تک نہیں کہا۔ سیلاب کی اصل بربادی اور تباہی صرف دو دریائوں چناب اور جہلم کے کناروں پر آئی۔
مسلمہ جغرافیائی حقیقت ہے کہ پنجاب کے پانچوں دریا بھارت سے نکلتے ہیں۔ اگر سو فیصد سیلاب حقیقی ہوتا تو سیلاب صرف ناپسندیدہ غریبوں کے علاقوں میں نہ آتا۔ اس قیامت گر اور بلا خیز انجینئرنگ کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ 2014ء کا سیلاب ِ نوح اس قدر پڑھا لکھا، نقشوں اور شجرہ کشتوار سمیت خسرہ، کھتونی، کھیوٹ اور محکمہ مال کے سارے رازوں کا آشنا ہے کہ جس نے کسی حکومتی اہلکار، سرکاری عہدے دار کی طرف نگاہِ غلط نہیں ڈالی ۔ نہ ہی کسی وزیر، مشیر، ایم پی اے، ایم این اے یا سینیٹر کے ڈیرے یا زمین جائداد کو چھیڑا۔ تھڑے سے اُٹھ کر جہازوں تک پہنچنے والے آج کل ہر وقت جمہوریت بچانے کے لیے فوج کو طعنے دیتے ہیں۔ سکندر مرزا کو نیا دور، ایوب خان کو ترقی کا ضامن، ضیا الحق کو مردِ حق، پرویز مشرف کو پاکستان کا اتا ترک کہہ کر مال بنانے والے شرمائے بغیر کہتے ہیں کہ فوج‘ جمہوریت کی حمایت کا عملی ثبوت دے۔ کچھ لوگ وقت کے پہیے کے سامنے پولیس کی اینٹ رکھ کر سمجھ رہے ہیں اٹھارہ کروڑ عوام کو خوفزدہ کیا جا سکتا ہے۔ جس طرح دو عدد ہوائی جہازوں کی فلائٹس نے 9/11 کے دن دنیا کی تاریخ بدل دی تھی اسی طرح ایک حاضر سرکاری ایم این اے اور اُس کے اتحادی سابق وزیر کے ساتھ کراچی ایئرپورٹ پر پسنجر کلاس کے مسافروں نے جو کچھ کیا‘ اس واقعہ نے عوامی مزاحمتی موج کی نئی تاریخ لکھی ہے۔
پانچ سال پہلے ڈکیتیوں سے تنگ عوام نے ڈاکوئوں کی چھترول شروع کی تھی۔ اسی عوام کے نعرے حکمرانوں کے جلسوں میں اور ان کے ہاتھ وی آئی پی کلچر تک پہنچ گئے ہیں۔ مہنگائی، بدمعاشی اور سیلابوں سے عوام کی جان نکالنے والے من موجی یاد رکھیں‘ فوجی کی عزت اس لیے ہوتی ہے کہ وہ غیر فوجی کو بچانے کے لیے صوبیدار عناب گُل کی طرح جان دیتا ہے۔ فوجی اور موجی میں بنیادی فرق یہی ہے۔