شکست کا باپ کون؟

انگریزی کا مشہور محاورہ ہے :Victory has many fathers but defeat has none.۔ جیت کے کئی باپ ہوتے ہیں لیکن شکست کا کوئی نہیں۔ملتان میں بھی ایسا ہی ہوا ۔آخر شکست یتیم کیوں کرہوتی ہے اور کامیابی کی ولدیت کے خانے میں نام لکھوانے والوں کی بارات کیوں؟
ایک وکیل صاحب بار کے الیکشن میں ایک ووٹ سے ہار گئے ۔ شکست کے فوراً بعد انہوں نے ہر دوست کی علیحدہ علیحدہ ''تقریبِ پذیرائی ‘‘منعقد کی ساتھ ساتھ سارے احباب کو شاندار الفاظ میں خراج تحسین پیش کر نا شروع کیا۔دوسرے دن یہ عالم تھا کہ اُن کے دوست نہ ان کا فون اٹھاتے تھے ، نہ ہی ان کا سامنا کر نے کے لیے تیار تھے ۔ دراصل ہارے ہوئے وکیل کو شکست کا باپ درکار تھا جو نہ انہیں ملنا تھا ،نہ ملا۔ملتان کے ضمنی الیکشن کے بعد سرکار کو سانپ سونگھ گیا ہے ۔جو لوگ پنجاب میں کہتے نہیں تھکتے تھے کہ اٹھارہ کروڑ عوام ان کے ساتھ ہیں، وہ ضمنی الیکشن کے بعد لفظ ''عوام‘‘ پر چِڑ جاتے ہیں۔اس الیکشن سے پہلے جمہوریت کے جن جن رکھوالوں نے کہا کہ سرکاری امیدوار کو جمہوریت ہمیشہ ریمبو، ہر کو لیس یا اڈی مار کر دھرتی ہلا دینے والے مظہر شاہ کے طور پر یا د رکھے گی، ان میں سے اکثر نے جمعہ کے روز سینٹ کے اجلاس میں اس طرح کے گستاخانہ سوالوں کو سننے سے پہلے ہی ہاتھ جوڑ کر معافی مانگی اور جان چھڑائی ۔اپنے ہی حق میں قراداد یں پاس کرنے اور اپنے لیے مراعات بڑھانے، پروٹوکول میں اضافہ کروانے والے پار لیمنٹ کے جن پاسبانوں نے کہہ رکھا تھا کہ سرکاری امیدوار نے پارلیمنٹ بچالی ،ان کا حال بھی کچھ مختلف نہیں۔
ایک تیسرا طبقۂ فکر وہ تھا جس نے سمجھا کہ سرکاری امیدوار اور نیلسن منڈ یلا کے درمیان ڈیڑھ دو فٹ کا فا صلہ رہ گیا ہے ،یا دوسرے لفظوں میں نیلسن منڈیلا اور سرکاری امیدوار میں صرف یہ طے ہونا باقی ہے کہ ان میں سے عظیم لیڈر کون ہے، یہ گروہ سرکاری امیدوار کی انکشافات نامی '' سوپ سیریل‘‘ کے متاثرین بن گئے ۔ان متاثرین نے اپنی خواہشوں کو خبر بنا لیا جبکہ اپنی ضرورتوں کو دو دھاری ڈیمانڈ میں تبدیل کر لیا۔ان کے خواب و خیال میں بھی نہیں تھا کہ پچھلے دو ماہ کے عرصے میں سیاسی اشرافیہ پیچھے رہ گئی ہے اور غریب عوام آگے نکل چکے ہیں۔وہ زمانے گئے جب عقل کی باتیںبتانے کے لیے حکماء بڑے خرچے کے بعد دہلی، آگرہ اور اصفہان سے بُلوائے جاتے تھے۔اب الیکٹرانک اور سوشل میڈیا نے ہر صوبے کے ہر محلے میں اور ہر گھر میں سماج اور نظام سے بیزار لوگوں کو جگا دیا ہے۔اس لیے ظلِ الٰہی اورجہانگیر والی عدل کی زنجیر کو ہلانے اب کوئی نہیں آئے گا۔ایک سیدھی بات ہے کہ سرکاری امیدوار کی شکست مقامی خادموں،ضلعی خادموں سمیت خادمِ اعلیٰ اور اس سے بھی بڑے خادمِ اعظم کے لیے نوشتۂ دیوار ہے۔ضمنی انتخاب میں ہمیشہ سے پنجاب کی روایت رہی ہے کہ سرکار آسانی سے الیکشن جیت جاتی تھی۔لوگوںکے خلاف تھانہ، کچہری، دھونس، مسائل کے حل اور نوکری کی ترغیب جیسے ہتھیار استعمال ہوتے تھے۔ملتان کا الیکشن پاکستان کی تاریخ کا وہ پہلا انتخابی معرکہ ہے جس کے دوران لوگوں نے شاہی مزاج اور فرعونی رویے کے خلاف ووٹ ڈالا۔ملتان کے غریب اور سرائیکی وسیب کے مسائل سے مارے ہوئے لوگ نہ مال کی چمک سے متاثر ہوئے، نہ محکمہ مال کے پٹواریوں سے ،نہ ہی تحصیلداروں سے ۔الیکشن سے تھوڑے دن پہلے قاسم باغ کے جلسے والے متاثرین میں سے ایک کو بے لگام پولیس والے نے تھپڑ مار دیا۔وہ تھپڑ دلیر رپوٹروں اور ان سے بھی بہادرکیمرہ مینوں نے پولیس کے گلے میں ڈال دیا۔ویسے بھی عوام جانتے ہیں کہ جو پولیس جگا،بھتہ ،اغوا برائے تاوان،ٹارگٹ کلنگ،مضافاتی دیہاتی سڑکوں پر لگے شام کے تھڑے ،بچوں پر وحشت برسانے والے جنگلی اور ریاست کے چور نہیں پکڑ سکتی ،اس کا خوف اور عزت کتنی باقی رہ گئی ہے جس کا مظاہرہ اب گلی گلی ہو رہا ہے ۔
تختِ لاہور سے جہازوں میں اُڑ کر ملتان پہنچنے والے پنجاب سرکار کے بڑے ہوں یا ہیلی کاپٹر سے گرائے جانے والے ان سے بھی بھاری بھرکم پوسٹر، سب کچھ مل کر بھی حکومت کی خالی سیاسی بالٹی کو بھرنے کے کام نہ آ سکا۔ میڈیا کی نئی ٹیکنالوجی نے دنیا کہاں سے کہاںپہنچادی ،اس کا تازہ مظاہرہ جنوبی افریقہ میں اسی ہفتے ہوا۔جہاں سے عالمی شہرت یافتہ ایتھلیٹ آسکر پیسٹوریس کا مقدمہ دنیا کے سارے بڑے چینل کئی ماہ سے براہ راست دکھا رہے ہیں۔کھلاڑی پر الزام ہے کہ اس نے اپنی گرل فرینڈ کو گولیاں مار کر قتل کر دیا۔اس ہفتے استغاثہ اور صفائی کے وکیل آسکر پیسٹوریس کیSentencing یعنی سزاکی نوعیت کے بارے میں بحث کر رہے ہیں۔ آسکر پیسٹوریس کی گرل فرینڈ ریوا سٹین کیم کی ماںکی ویڈیو آج کل انٹرنیٹ پر بہت مقبول ہو رہی ہے۔مقتولہ کی ماں نے اپنے انٹرویو سے دنیا کو حیران کر کے رکھ دیا۔ جب اس سے پو چھاگیا کہ آپ آسکر پیسٹوریس کو کتنا عرصہ جیل میں دیکھنا چاہیں گی۔ اس نے کہا ''میں مقتولہ کی ماں ہوں۔میرا درد آپ نہیں جان سکتے ۔اس کے باوجود میں چاہوں گی کہ آسکر پیسٹوریس کو جیل نہ بھیجا جائے ،اسے کسی ہسپتال ،یتیم خانہ یا چرچ میں لوگوں کی خدمت کرنے کی ڈیوٹی پر لگایا جائے۔ میں چاہتی ہوں لوگ اسے نفرت بھری نظروں سے دیکھیں تا کہ اس کا گناہ اسے مسلسل سزا دے۔‘‘
بطور وکیل میرے لیے یہ بیان Public Justice یعنی عوامی انصاف کا نیا پہلو ہے۔ ظاہر ہے جسے پھانسی گھاٹ لے جا کر تختۂ دار پر لٹکایا جائے اُس کا درد لا دوا نہیں رہتا۔ وہ قدرت کے انصاف کے کٹہرے میں پہنچ جاتا ہے لیکن جس کو ہر نظر تعاقب کرتی دکھائی دے اور ہر نعرہ دل چیر کر رکھ دے ،اُس کا انصاف نہیں احتساب پبلک کے ہاتھ میں چلا جاتا ہے۔ اسی لیے پنجاب سرکار اور مرکز دونوں اس شکست پر گفتگو نہیں کرنا چاہتے۔ ملتان کے الیکشن میں ہیلی کاپٹر ایسا ولن بن کر نمودار ہوا جس تک غریبوں کی اینٹ اور روڑا دونوں نہیں پہنچ سکتے تھے۔ اس ہیلی کاپٹر نے سرکاری دعووں کے خالی ٹائی ٹینک کو ڈبونے کے لیے آخری تنکے کا کردار ادا کیا۔
خادموں کی خدمت نے پاکستان کو کہاں پہنچا دیا ہے ،اس کااندازہ آپ دو چیزوں سے لگا سکتے ہیں۔ پچھلے ہفتے تقریباً ڈھائی سال کے عرصے میں پہلی بار بین الاقوامی مارکیٹ میں تیل کی قیمت سر کے بل نیچے آئی۔ وہ خام تیل جو 115ڈالر فی بیرل کی بلند ترین سطح کو چھو رہا تھا ،80ڈالر فی بیرل پر لڑھک آیا۔ ساری دنیا کی حکومتوں نے تیل کی قیمتوں میں کمی کا فائدہ ملک کے غریب اور مڈل کلاس طبقوں تک ٹرانسفر کر دیا۔ پاکستان کے وسائل پر قابض مافیاز نے وہ 30فیصد تیل جو پاکستان میں پیدا ہوتا ہے ،اس پر بھی بین الاقوامی قیمتوں میں کمی کو لاگو نہ ہونے دیا۔ دوسری بات اس سے بھی زیادہ سنگین ہے۔ سٹیٹ بینک کے اپنے اعداد و شمار کے مطابق اکتوبر کے پہلے ہفتے میں حکومت نے ساڑھے ستانوے ارب سے زیادہ کا قرض سٹیٹ بینک سے لیا۔ یہ قرض بادشاہ، شہزادوں اور ان کے درباریوں کے اخراجات پورا کرنے کے لیے خرچ کیا گیا۔ ایسی راج نیتی اور اس طرح کی جمہوریت کے دانت اور پنجے عوام دیکھ رہے ہیں۔ اس لیے سرکاری دھونس اور دھاندلی کے باوجود بھی اب سٹیٹس کو کی ہر شکست کا خانۂ ولدیت خالی نظر آئے گا۔ حبیب جالب نے عوامی مُوڈ کو یوں بیان کیا تھا:
وطن کو کچھ نہیں خطرہ ،نظامِ زر ہے خطرے میں
حقیقت میں جو رہزن ہے، وہی رہبر ہے خطرے میں
جو بیٹھا ہے صفِ ماتم بچھائے مرگِ ظلمت پر
وہ نوحہ گر ہے خطرے میں، وہ دانشور ہے خطرے میں
اگر تشویش لاحق ہے، تو سلطانوں کو لاحق ہے
نہ تیرا گھر ہے خطرے میں، نہ میرا گھر ہے خطرے میں

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں