رنگ باز کا لفظ زند ہ دلانِ لاہور کا ایجاد کردہ ہے۔رنگ باز کی سب سے معقول تعریف یہ ہے کہ وہ کبھی رنگ بازی سے باز نہیں آ سکتا۔اگر آپ اس کی چلتی پھرتی مثال ڈھونڈنا چاہیں تو مفاہمتی جمہوریت کو دیکھ لیں ۔
سب سے پہلے آئیں میرے ساتھ مل کر مفاہمت کے نام پر منافقت کی پارلیمانی سیاست کرنے والوں کو مبارکباد دے دیں۔ مفاہمت بازوں کی بے بسی اور عاجزی پارلیمنٹ کے اجلاسوں میں دیکھنے کے قابل ہے ۔سینیٹ آف پاکستان میں گزشتہ تین دنوں کے اندر'' مفاہمت باز‘‘ حکومت کی جانب سے اپنی عزت افزائی پر حیران رہ گئے ۔پہلے روزمفاہمتی لشکر کی خدمت پاکستان کی تنخواہ پر بھارت کا دفاع کرنے والے وزیر نے کی۔تابعدار اپوزیشن کے سینیٹر نے وقفۂ سوالات میں ایک سوال دہرایا جس پر بے مہار کابینہ کے منہ زور وزیر نے سینیٹر سے کہا،''سوال کر ورنگ بازی نہ کرو۔‘‘جن لوگوں کو کپتان کی طرف سے ریٹرننگ آفیسرز کو شرمناک کہنا بہت بُرا لگا تھا ،وہ رنگ بازی جیسے خالص غیرپارلیمانی الزام پر یوں خاموش رہے جیسے بازی ہارنے کے بعد جوا کھیلنے والا جواری گونگا ہو جاتا ہے ۔دوسرے دن رنگ باز وزیر نے مفاہمت باز اپوزیشن پر یہ کہہ کر محکمانہ بجلی گرائی کہ بھارت نے پاکستان کے خلاف آبی جارحیت(water terrorism)نہیں کی ۔یہ سن کر مجھے بھارت کی خوش بختی پر رشک آیا۔ایسا کیوں نہ ہوتا ۔گاڑی ،جھنڈا ، اسلام آباد میںدو عدد سرکاری گھر ،چوری کی بجلی ،مفت کے ٹیلی فون ،دھاندلی کی کامیابی ،دھونس کی پروٹوکول گاڑیاں، اپنی تنخواہ خود ہی بڑھانے کی سہولت پاکستان سے وصول کرنے والے وزیر نے پاکستان کی پارلیمنٹ میں کھڑے ہوکر وہ بات کہہ ڈالی جو بھارت کی تنخواہ لینے والا ارون جیٹلی اپنی لوک سبھا میں بھی نہیں کہہ سکا۔
پچھلے ہفتے مجھے سابق وفاقی وزیر سمیرا ملک کے مقدمے میں وکیل صفائی کے طور پر پیش ہونے کے لیے خوشاب جانا پڑا۔ راستے میں ہر طرف نمک کے ڈھیر لگے ہوئے تھے۔منگوال تا جوہر آبادسڑک پر اس قدر نمک کی موجودگی دیکھ کر میں رکا۔ کھیوڑہ نمک کے ایک ڈپو والے سے دریافت کیا کہ اتنے نمک کو لوگ کیا کرتے ہیں۔ جواب ملا، سارا نمک انڈیا بھجوایا جا رہا ہے۔ ہمارے خرچے پر بھارت کا دفاع کرنے والے وزیروں کی بات سن کر مجھے ایسا محسوس ہوا جیسے اس سرکار نے کھیوڑہ نمک کے ساتھ ساتھ سرزمین کی ہمدردی بھی بھارت ایکسپورٹ کر دی ہے ۔
دوسرے دن لوڈشیڈنگ کے فروغ کی وزارت کے آدھے وزیر نے اس سے بھی بڑا کمال کر دکھایا۔موصوف نے فرمایاکہ بھارت جتنے ڈیم بھی تعمیر کر رہا ہے، وہ معاہدے کے مطابق ہیں۔ ان ڈیموں کی تعمیر سے پاکستان کا کوئی نقصان نہیں ہو رہا ،جبکہ اصل حقائق کے مطابق ایک طرف بگلیہار ڈیم سمیت مختلف ڈیموں کے حوالے سے بھارت اور پاکستان کے تنازعات ثالثی اور سماعت کے لیے عالمی عدالتوں تک پہنچ چکے ہیں،جن میں پاکستان کا مضبوط موقف یہ ہے کہ بھارت پنجاب کو بنجر بنانے کی پالیسی پر چل رہا ہے ۔اس طرح کے نازک موضوعات پر بولنا وزیر خارجہ کی ذمہ داری ہوتی ہے ۔جمہوریت کو تلاش کے باوجود ابھی تک سرکاری صفوں میں کوئی ایسا اہل آدمی نظر نہیں آیا، جسے وزیر خارجہ بنایا جا سکے ۔اس لیے پاکستان سٹراٹیجک علاقائی اور عالمی مفادات سے متعلقہ مسائل پر گاما،نتھو اور خیرا ،بول رہے ہیں ۔دوسری جانب روانڈا،برونڈی ،افغانستان اور ٹمبکٹو جیسے ملکوں کے پاس قومی مفادات کے تحفظ کے لیے وزرائے خارجہ موجود ہیں۔یادش بخیر...! پاکستان میں ایک وزارتِ قانون بھی ہوا کرتی تھی،جس کی سربراہی ہمیشہ وکیل کے حصّے میں آتی رہی۔آج کل سرکاری صفوں میں یہ قحط بھی پڑ چکا ہے کہ انہیں مرکز میں دو سالہ اور صوبے میں سات سالہ مسلسل حکمرانی کے بعد بھی دو عدد ایسے وکیل دستیاب نہیں ہیں جن کو قانونی و آئینی معاملات کو ڈھنگ یا سلیقے سے چلانے کے لیے وزیر قانون مقرر کیا جا سکے۔
سینیٹ میں تابعدار اپوزیشن کے دو سرکردہ راہنماؤں کی ''میاؤں میاؤں‘‘ برانڈ احتجاج پر ایک استاد کا شعر یاد آیا ؎
دل خوش ہوا ہے‘ مسجدِ ویراں کو دیکھ کر
میری طرح خدا کا بھی خانہ خراب ہے
پہلے ایک ایسے سینیٹر صاحب جو تابعدار اپوزیشن کی صفِ اول میں بیٹھے ہیں،حکومت کو مخاطب کر کے یوں بولے ۔ یاد کرو وہ وقت ،جب ہم نے تمہیں بچا لیا،ہم آپ کا ساتھ نہ دیتے تو آج حکومت اور جمہوریت کہاں ہوتی ،وزیر اپنا رویہ درست کریں ۔ زیرِ بحث مسئلہ یہ تھا کہ ایک نیم مولوی وزیر نے سینیٹ کے فلور پر ایک دن میں اپنی وزارت کی کارکردگی اور الزامات کے حوالے سے ایجنڈے میں درج ایک ،دو،چار ،پانچ نہیں بلکہ 24عدد سوالات سے جان بچانے کے لیے پیغام بھیجا کہ وہ ایوان میں نہیں آ سکتے۔ وجہ اس کی یہ بتائی، وزیراعظم نے بلایا ہے۔ بعد میں ایک اہم ذریعے نے مجھے بتایا کہ وزیر صاحب وزیرِ اعظم پر دبائو ڈالنے گئے تھے کہ خیبر پختونخوا میں پرویز خٹک کی حکومت کا دھڑن تختہ کیا جائے۔اس عزت افزائی کے بعد ہاؤس کی دوسری عزت افزائی تب ہوئی جب اپوزیشن کی اس آواز کو عادی فقیر کی صدا سمجھ کر حکومتی لیڈر منہ دوسری طرف کر کے بیٹھ گئے۔اسی طرح کا مزید پارلیمانی شاہکار ایک اور جنگجو سینیٹر کے حوالے سے دیکھا گیا۔موصوف نے بھی سرکاری بلی ہو کر سرکار کو میاؤں سنانے کی کوشش کی، جس کا جواب ایک وزیر نے دیا۔وزیر صاحب نہ تو منہ سے پھوٹے اور نہ ہی مسکرائے۔یہ تو محض ٹریلر لگتا ہے۔ وہ دن دور نہیں جب سرکار کی تابعداری میں مزاحمتی سیاسی کارکنوں کامذاق اڑانے والے درباری مقررین پارلیمنٹ میں کھڑے ہو کر یہ کورس گائیں گے اور یہ کورس گا کر وزیر اعظم اور کابینہ کے حضور یوں التجا کریں گے ع
پیاسی نگاہوں کو تیرا انتظار ہے
درباریوں نے مفاہمت کے عوض سرکاریوں کو اوپر کی منزل پر چڑھا دیا ہے ۔ چھت پر چڑھانے سے کیا مراد ہے ، یہ سمجھنے کے لیے عکسی مفتی کی تازہ کتاب ''پاکستانی ثقافت‘‘ کا دوسرا باب پڑھیے۔ لوک ورثے کے امین عکسی مفتی لکھتے ہیں: گلگت، دریا پار ایک بستی ہے، جہاں کے لوگ سادگی کے لیے مشہور ہیں۔ کہتے ہیں ایک دن سادہ لوح مروٹیا اپنے بھاری بھر کم یاک کو دھکیل دھکیل کر مکان کی سیڑھیاں چڑھانے کی کوشش میں تھا۔ یاک تھا کہ پاکستانی اکانومی کی طرح دو سیڑھیاں چڑھتا تو دو نیچے پھسل جاتا۔ کسی راہ گیر نے پوچھا۔ ''کیوں بے چارے یاک کو مصیبت میں ڈال رکھا ہے؟‘‘
مروٹیا انتہائی معصومیت سے اپنی معذوری بیان کرنے لگا۔
کہنے لگا ۔''کیا کروں بھائی ،یاک ذبح کرنا چاہتا ہوں مگر چھری اوپر کی منزل پر ہے!!‘‘
عکسی مفتی نے اسی باب میں اصغر ندیم سید کی ایک نظم ''14اگست کے مسافر‘‘بھی شامل کی ہے۔ یہ نظم کئی رنگ بازوں کو بے نقاب کرتی ہے۔ آپ بھی پڑھیے:
مسافر ساٹھ برسوں کے بہت حیران بیٹھے ہیں
کہ اب تاریخ کے برگد کے نیچے
مذہبوں کے اور عقیدوں کے کئی تاجر،
مؤرخ بن کے بیٹھے ہیں
کبھی تاریخ کے برگد کے نیچے
صوفیاء سنتوں، ملنگوں اور بھگتوں کا بسیرا تھا
مگر اب تو وہاں بازار ہے، منڈی ہے
ہر اک فلسفے اور فکر کی معجون بِکتی ہے