تفسیرِ دستور

پاکستانی عدل کے ایوانوں میں جس قدر وقت ،وسائل اور طاقت دستور کی تشریح یعنی(Interpretation) پر لگایا گیا اتنا وقت نہ کبھی کسی فوجدار ی مقدمے پر خرچ ہوا نہ ہی کسی دیوانی تنازع پر صرف ہوا اور نہ ہی انسانی حقوق کے کسی معاملے پر۔تفسیر دستور کی تاریخ مختصر ترین لفظوں میں اتنی سی ہے ''مرض بڑھتا گیا،جوں جوں دوا کی‘‘۔ نظریہ ضرورت کو کبھی غائبانہ نمازِ جنازہ نصیب ہوئی تو کبھی اسے پورے قومی اعزاز کے ساتھ دفنانے کا اعلان کیا گیا۔لیکن ہر دفعہ کسی نہ کسی بڑے کی بے لگام خواہش کی تکمیل کے لیے کاؤنٹ ڈریکولا کی طرح اسے مزار سے نکال کر پھر دربار کی رونق بنا دیا گیا۔ضرورت مندوں کے اس رہبرِ اعظم نے 2013-14ء کے دو سالوں میں جو کمالات دکھائے ان کی جھلکیوں کا بحراعظم وکالت نامہ کے کوزے میں بند نہیں کیا جا سکتا۔پھر بھی قند ِمکرّر آپ کا حق ہے جسے یہاں ادا کر تے ہیں۔
حالیہ الیکشن کے اگلے روز ہی سیاسی جماعتوں نے اسے ٹھپّہ اور جُھرلو نہیںبلکہ انتخاب کی بجائے ''دھاندلہ‘‘ کہہ دیا۔ جس کا سادہ سا مطلب ووٹوں کی ڈکیتی تھا۔ بالکل ویسی ہی ڈکیتی جیسی 70 ارب روپے کے جعلی بجلی بل کے ذریعے غریبوں کی جیب پر جمہوریت نے ماری ۔لیکن دھاندلی کی پیداوار اسمبلیوں میں سے حصّہ بقدر جُثہ وصول کرنے والوں نے نظریہ ضرورت کے تالاب میں دھو کرالیکشن کے نتائج کو شفاف بنا لیا۔یہی وجہ ہے35 پنکچرز لگانے والوں کو اس شفافیت کے نتیجے میں بننے والی حکومتوں نے ابھی تک ہاتھ بھی نہیں لگایا۔نہ کوئی مقدمہ قائم ہوانہ کوئی ایف آئی آر کاٹی گئی نہ تفتیش ہوئی اور نہ کوئی ملزم چالان کیا گیا۔ نہ ٹرائل ہوا اور نہ ہی احتساب۔ایسا کمال پچھلی ہزار سالہ تاریخ میں دنیا کی کوئی بھی دوسری جمہوریت نہیں کر سکی جو ایشین ٹائیگرز نے کر دکھایا۔ ثابت کیا کہ شیر جنگل کا بادشاہ ہوتا ہے۔ وہ انڈا دے یا بچہ یا دل بہلانے کے لیے کسی کو دھوکہ دے یاغچّہ۔ یہ شیر کی مرضی ہے کیونکہ شیر کسی سے ڈکٹیشن نہیں لیتا۔ باقی سب کچھ نظریہٗ ضرورت کے تحت قبول کر لیتا ہے۔
اسی طرح جن دنوں دھرنوں کی ''جوڑی‘‘ برقرار تھی تب اس جوڑ کاتوڑ نکالنے کے لیے پنجاب کے منتخب علاقوںمیں فرمائشی سیلاب لایا گیا۔نظریہ ضرورت کے کمالات کبھی رُکے نہیں ۔ایک اکمل ترین کمال کی نشاندہی میں نے تین ہفتے پہلے کی جب کہامیں مُک مُکا کی کابینہ میں شامل ہونے سے ''انکاری‘‘ ہوں۔ اب یہ دیگ پک کر تناول کے لیئے تیار ہے۔بلکہ اس کے لانگری کب کے پلیٹیں سجائے پرشاد کے منتظر ہیں۔ وزارتوں کے نئے امیدواروں کی لسٹ میں گڈی لُٹ جتھے تیار،بلکہ بے قرار ہیں۔ پہلے گروپ کی تربیت تازہ جمہوریت کے مرشدِ اعلیٰ ضیاء الحق نے بقلم خود کی تھی ۔ مشرف نے انہیں مزید پالش کیا۔ گروہ کی نظریںوزارتِ داخلہ ،خارجہ ،دفاع اور کامرس پر ہیں۔دوسرے گروہ میں اپوزیشن کے وہ ارکان شامل ہیں‘ جنہوں نے اپنی وزارتوں کے دو سال بعد بھی وزارتی کالونی والے گھر خالی نہیں کیے۔ ان میں سے ایک صاحب سے تڑاخ کر کے نوجوان رپورٹر نے پوچھا آپ اپنا وزارتی گھر کب خالی کر رہے ہیں۔ موصوف نے شرمناک دلیری سے جواب دیا وہ گھر جلد آباد ہوگا آپ کو پھر وہاں بلاؤں گا ۔رپورٹر نے یہ کہہ کراُدھار اتار پھینکا۔ جناب میں پہلے بھی آپ کے گھر کبھی نہیں آیا۔نظریہ ضرورت کو اس نظام کی ماں بھی کہا جا سکتا ہے ۔ ایسی ماں جومامتا سے معذور،جذبات سے عاری،ہمدردی اور قانون کے خوف سے آزاد ہے۔ایسی مائیں ہر روز اخبار کے پہلے صفحہ یا ٹی وی کے بریکنگ نیوز میں دیکھی جا سکتی ہیں۔ ان کا کمال یہ ہے کہ وہ اپنی محرومی، ناکامی یامایوسی کے جرم میں جگر گوشوں کو یوں قتل کر تی ہیں جیسے عیدِ قربان والا اناڑی قصائی قربانی کے جانور کو ادھیڑتا ہے۔
یہ نظریہ ضرورت ہی تو ہے جس نے فرنگی دور کی یاد گار دفعہ 144کوا سلام آباد میں رُول آف لاء کہہ کر نافذ کرنے کی بڑھکیں مارنے والوںکو مجبور بنا دیا۔ معذوروں کا لشکر اگلے روز ریٹائرڈ جج کے ایسے قافلے کے پیچھے بھاگتا نظر آیا جس کی قیادت کرنے والی مرسڈیز نمبر پلیٹ کے بغیر تھی ۔موٹر وہیکل آرڈیننس ہو یا آئین کا آرٹیکل 25یا پھر آئین کا آرٹیکل نمبر4اور 9۔اسلام آباد کی باوردی اشرافیہ دارالحکومت میں آنے والی موٹر سائیکل ،مورس ٹیکسی اور لوڈنگ سوزوکی پردَب دبا کر قانون کو لاگو کرتے ہیں۔ سنگ جانی ترنول موڑ سے بارہ کہو تک۔ روات سواں کیمپ سے گولڑہ چوک تک ہرناکہ اور چیک پوسٹ قانون کے نفاذ کا منہ بولتا ثبوت ہے ۔جہاں سوزوکی و موٹر سائیکل والوں سے ''با مقصد مذاکرات‘‘ کرنے والے قانون کے رکھوالے دن رات مصروف دیکھے جا سکتے ہیں۔ پروٹوکول بلیو بُک چیف ایگزیکٹو، صدر، آرمی چیف، چیف جسٹس سمیت سب کو پابند کرتی ہے کہ وہ رجسٹرڈ گاڑی میں بیٹھیں ۔ رجسٹریشن نمبر گاڑی کے آ گے اور پیچھے لکھا ہوا ہو۔بغیر نمبر پلیٹ کے صرف تین طرح کی گاڑیاں سڑک پر ہیں۔ایک وہ جو کارخانے سے نکل کر شوروم پر آ جائے اس پر (Applied for)لکھا ہوتا ہے۔ ساتھ خریداری والے شو روم کا ٹیگ بھی۔ دوسری طرح کی گاڑیاں وہ ہیں جن کا ٹیکس چوری کیا جائے ان پر نمبر پلیٹ نہیں ہوتی۔ٹیکس چوروں سے بھی بہادر کار چورہیں جو گاڑی چوری کر کے فوراً نمبر پلیٹ اتارکر پھینک دیتے ہیں ۔دیگر کسی قسم کی بغیر نمبر پلیٹ گاڑی سڑک پر نہیں چل سکتی ۔
کیا کوئی ادارہ یہ تفتیش کرے گا کہ یہ گاڑی کس کیٹگری کی ہے جس نے برسرِ عام سارے قانون اور آئین کو شہرِ آئین میں کچل کر رکھ دیا۔یقین کریں نظر یہ ضرورت کے تحت اس بم پروف گاڑی کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہو سکے گی۔ کارروائی سے یاد آیا اگر کہیں آپ کو وہ ''کارروائی باز‘‘ مل جائے جو ہر روز لوگوں کو پروٹوکول کا میٹھا گُڑ چکھنے سے منع کیا کرتا تھا تو آپ اس بات پر بالکل حیران نہ ہوںکہ وہ خود اسی گُڑ کا پرچون فروش نکلا۔ 
دستور کا ذکر آتے ہی حبیب جالب کا نام گونجتا ہے۔ ساتھ ہی دستور کو لہرا کر گانے والے مائیک توڑتے دکھائی دیتے ہیں۔ ڈیڑھ سال میں معاشی ترقی، قومی غیرت، امن و امان کو جو ریورس گیئر لگا‘ اس کی روشنی میں جالب کا دستور پڑھیئے ؎
دیپ جس کا محلاّت ہی میں جلے
چند لوگوں کی خوشیوں کو لے کر چلے
وہ جو سائے میں ہر مصلحت کے پلے
ایسے دستوـر کو صبح بے نور کو
میں نہیں مانتا‘ میں نہیں مانتا
پھول شاخوں پہ کھلنے لگے‘ تم کہو
جام رندوں کو ملنے لگے‘ تم کہو
چاک سینوں کے سلنے لگے‘ تم کہو
اِس کھلے جھوٹ کو‘ ذہن کی لوٹ کو
میں نہیں مانتا‘ میں نہیں مانتا
تم نے لوٹا ہے صدیوں ہمارا سکوں
اب نہ ہم پر چلے گا تمہارا فسوں 
چارہ گر میں تمہیں کس طرح سے کہوں
تم نہیں چارہ گر‘ کوئی مانے‘ مگر
میں نہیں مانتا‘ میں نہیں مانتا 

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں