گو گُلّو گو

پنجاب کے داستان گو کہتے ہیں، جگاّ ان اُستروں سے مارا گیا جو اس نے خود اپنے نائیوں کو خرید کر دیئے تھے۔شاہ جہاں نے جو سلوک جہانگیر سے کیا، اورنگزیب عالمگیر نے شاہ جہاں کے ساتھ کئی سو گُنا اضافہ کر کے وہی تاریخ دہرا دی۔بحیثیت وکیل مجھے امید تھی شاید گُلو بٹ کے مقدمے میں فوجداری انصاف کا گلو بٹ نہیں ہو گا، لیکن میری دُعا ٹرائل کے گلو بٹ کا کچھ نہ بگاڑ سکی ۔
تعزیرات پاکستان میں پرائیویٹ املاک کو نقصان پہنچانے کے لیے علیحدہ دفعہ موجود ہے: 427ت پ۔اس دفعہ کے تحت پرائیویٹ املاک کونقصان پہنچانے والے کو 3 ماہ سے 2سال تک قید کی سزا اور جرمانہ کیا جا سکتا ہے ۔نہ جانے گُلوبٹ کو کسی کی نظر لگی یا کسی کی سفارش کھا گئی۔ اس کا مقدمہ، اس کی تفتیش اور پھر ٹرائل بالکل ویسا ہی ہوا جیسا پاکستان میں مارشل لاء کے نفاذ کے مقدمے کا ہو رہا ہے۔گُلو بٹ کون ہے مجھے معلوم نہیں ۔گلو بٹ کیا ہے اس پر ساری قوم کو تشویش ہے۔ کیونکہ گُلوایک شخص نہیں بلکہ ایک رویہ ہے۔ ایسے نظام کا مشقتی رویہ ہے جو قانون کو پاؤں کی جوتی، انصاف کو جیب کی گھڑی اور اخلاق کو موم کی ناک سمجھتے ہیں ۔
جدید امریکہ میں ایک ایسا ہی چیف جسٹس آیا تھا جو ''جج مارشل‘‘ کے نام سے مشہو ر ہوا ۔ایک دفعہ اٹارنی صاحب جج مارشل کی عدالت میں بحث کرتے ہوئے اسے بتا رہے تھے کہ امریکہ کا آئین کیا کہتا ہے ۔امریکی نظام انصاف کے گُلو بٹ عرف جج مارشل نے آئین کی تشریح کو اپنی توہین سمجھا۔اسے عدالت میں چیخنے کی عادت تھی ۔اس نے اٹارنی کو ٹوکا اور چلّا کر کہا "Amercian constitution is what Judge Marshal says" (جو جج مارشل کہتا ہے ،وہی امریکہ کا آئین ہے ۔)ہمارے ہاں بھی ایک ایسا ہی سیاسی جج تازہ تازہ ریٹائرڈ ہوا ہے، جس کی نوکری کے نقصان پر اس کے ہردل عزیز سیاسی لیڈروں نے جنرل مشرف کے خلاف ٹرائل کا گُلو بٹ بنادیا۔ایک ایسے ٹرائل میں جہاں درحقیقت وہ سابق جج بڑا ملزم ہے۔ جس نے ظفر علی شاہ کی پٹیشن پر مشرف کو ''ون مین‘‘ پارلیمنٹ بنا ڈالا ۔وہ یہیں نہیں رُکا، اس نے ڈکٹیٹر شپ کو تین سال دیئے۔جج مارشل کی طرح اس نے بھی ہمیشہ کہا ،آئین وہ ہے جو اس سیاسی جج کی تشریح پر پورا اترے۔ کچھ دن پہلے ایک ٹی وی اینکر صاحب نے ایک عددریٹائرڈ جرنیل کا نام لے کر مجھ سے پوچھا ،کیا آپ نے اس کی تازہ کتاب پڑھی ہے۔ میں نے جواب دیا کیوں پڑھوں ؟جو جرنیل نوکری میں ایڑیاں اٹھا کر ڈکٹیٹر کوسلیوٹ کرتا تھا،نواز شریف کی گرفتاری اور شدید توہین کا کریڈٹ لیتے تھکتا نہیں تھا، اب وہ کہتا ہے مشرف اکیلا ہے ۔ایسے بے باک جھوٹے کا جھوٹ پڑھنے کے قابل کہاں ہے ۔ اینکر صاحب بولے ،اب اس کا ضمیر جاگ اُٹھا ہے ۔میں نے کہا، اسے کہو پینشن ،بنگلہ،پلاٹ اور مراعات واپس کرے۔ اپنے کندھے کے سٹار جی ایچ کیو میں جمع کروائے ،پھر اس کی غلطی کو لوگ غلطی مان لیں گے۔گُلو بٹ کے مقدمے کا جو گلو بنا، وہ غداری کیس کی تفتیش سے ذرہ بھر بھی مختلف نہیں ۔
ذہن کو پیچھے دوڑائیے ۔گُلو بٹ موقع واردات پرلاٹھی سمیت ٹی وی کیمروں کے سامنے نمودار ہوتا ہے ،جبکہ اس کے پیچھے درجنوں باوردی '' گُلو‘‘ نظر آتے ہیں، جن کی قیادت کرتے ہوئے و ہ زور دار نعرہ لگاتا ہے۔ پولیس کی پوری بٹالین مکمل تابعداری کے ساتھ اس نعرہ کا جواب دیتی ہے ۔بٹالین بے گناہ ،گُلو مجرم۔ بٹالین کے ساتھ گزٹیڈ اور نان گزٹیڈ پولیس آفیسر بھی موجود ہیں،جو کارروائی کے دوران ٹی وی کیمروںکے سامنے نہ صرف کھڑے رہے بلکہ گُلو بٹ سے ڈرنک شیئر کرتے بھی نظر آئے۔یہ ذمہ دار پولیس افسر کاروں اور دکانوں جیسی پبلک پراپرٹی کو لُٹتے اور پِٹتے دیکھ کر ٹس سے مس نہ ہوئے،پھر بھی وہ سارے بے گناہ ہو کر بحال ہوئے اور گلو اکیلا گنہگار ٹھہرا۔گُلو مشن کی کامیابی کے ساتھ آپ کے ٹیکسوں پر پلنے والے گُلو سے گلے جاملے۔ اس کی تعریف کی اور اسے شاندار کارکردگی کی شاباش دی اور'' مشن امپاسیبل‘‘ کی تکمیل پر گلے لگا کر مبارکباد بھی۔ یہ سارے کے سارے بھی بے گناہ ٹھہرے مگر تنِ تنہا گُلو ملزم ۔جن کی کاریں ٹوٹیں ،ان میں سے کوئی گُلو کا جاننے والا نہیں،جس نے گاڑیاں تڑوائیں اُسے سب جانتے ہیں۔ تڑوانے والا بے گناہ اور توڑنے والا اکیلا گُلو مجرم۔ بس یوں سمجھ لیں چھوٹا گلو اندر اور بڑے گلو باہر بیٹھے ہیں۔ 302والے آزاد اور شیشہ توڑنے والا قید۔ نظام ِ عدل کا گلو چھا گیا۔
جلیاں والا باغ سے زیادہ قتل ماڈل ٹاؤن میں ہوئے ۔خون کی ہولی کے سارے کردار بے گناہ ،گُلو بٹ اکیلا ملزم ۔حاملہ خواتین، بزرگ شہری ،جوان بچے اعضاء ،بینائی اور ٹانگوں سے معذور ہو گئے۔ساری کارروائی بہادر کیمرہ مینوں نے پوری دنیا کو لائیو دکھا دی ۔دن دیہاڑے قتلِ عام کرنے والے سارے بے گناہ ،گُلو تنہا ملزم ۔ یہ درست ہے انصاف اندھا ہوتا ہے، مگر منصف تو آنکھوں والے ہوتے ہیں۔
12 اکتوبر 1999ء کے دن اپنے پسندیدہ آرمی چیف کو چند گھنٹے کے لیے گھریلو تمغوں کی طرح بیج لگانے والے سارے بے گناہ ۔ٹی وی سٹیشن کی دیوار پھلانگ کر نشریات بند کرنے والے بھی معصوم۔ اس دور کے تین وزرائے اعظم ،سپیکر،چیئرمین سینیٹ،چاروں گورنر ،وزرائے اعلیٰ،صوبائی ایڈمنسٹریٹر ،وزارتِ قانون ،دفاع،خارجہ ،داخلہ سب معصوم ۔ مشرف کو باوردی چیف ایگزیکٹو بنانے والے ،پھر 1999ء کے سالوں بعد 2007ء میں اسے باوردی صدر بنانے والے سارے گنگا اشنان کی وجہ سے صاف ستھرے ،ایک عدد ملزم۔ ٹرائل کا گُلو بٹ اور کسے کہتے ہیں؟ گلو بٹ جیل سے داڑھی رکھ کر نکلے یا مو نچھیں کاٹ کر، اسے یہ ہمیشہ یاد رہے گا کہ ٹرائل کا گلو بٹ کیسے ہوتا ہے۔ تفتیش کا گُلو بٹ کسے کہتے ہیں۔ پراسیکیوشن کا گُلو بٹ کس چابی سے چلتا ہے اور کتنے میں۔
نا انصافی گندگی کی طرح ہے۔ جب تھوڑی سی گندگی کوئی صاف ستھری گلی میں لا کر پھینکے تو اُس کو روکنا چاہیے۔ جس سماج میں گندگی روٹین سمجھ کر قبول کر لی جائے ،وہاں گند کے ڈھیر سانس لینے والوں کا مقدر ہو جاتے ہیں۔
عادل کون ہوتا ہے۔ اس کی تشریح نوشیروان عادل سے بہتر کسی نے نہیں کی۔ گلستانِ سعدی کی حکایت نمبر 19کا ترجمہ پڑھ لیجیے۔
''نوشیرواں عادل کے نوکر ایک دن شکار گاہ میں شکار کئے ہوئے جانور کے کباب بنانے لگے مگر ''نمک موجود نہ تھا ،ایک غلام کو قریب ہی ایک گاؤں کی طرف نمک لینے کے لیے بھیجا گیا۔نوشیرواں نے کہا ،نمک قیمت ادا کر کے لانا تاکہ رسم نہ پڑ جائے اور یہ گاؤں برباد نہ ہو جائے۔‘‘کسی نے کہا اتنی چھوٹی سی بات سے کہاں خلل پڑے گا۔ نوشیرواں نے جواباً کہا ''دنیا میں ظلم کی بنیاد پہلے پہل تھوڑی تھی ،پھر جو کوئی آتا گیا ،اس میں اضافہ کرتا گیا حتیٰ کہ نوبت یہاں تک آ پہنچی۔‘‘
جس ملک میںتفتیش، رول آف لاء اور عدل تینوں میں سے کوئی ایک گُلو بٹ ہو ،تب بھی اُسے نہیں سنبھالا جا سکتا ہے ، مگر جہاں گلو بنانے والی فیکٹری کے مالکان سارے نظام کے ''مالکِ قبضہ ‘‘ہوں، روزنامچے سے ضمنی تک ان کے اشارۂ ابرو پر چلیں، وہاں گلو سے گلو ملے کر کر لمبے ہاتھ۔
آئیے ایک نعرہ انصاف کے نام پر لگا دیں۔ گو گُلّو گو۔
گرتی ہوئی دیوار سے ناتا توڑو بھی
خوش فہمو ! اب سامراج کو چھوڑو بھی
وقت کی جو آواز کو اب بھی نہیں سُنے گا
نہیں رہے گا 

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں