پھر قصرِ جہانگیر ہے زنجیر سے خالی

جس صوبے کا انسپکٹر جنرل آف پولیس کہے‘ 60 مارے جانے والے پاکستانی شہری اور ہسپتالوں میں پڑے دو سو زخموں سے چُور لوگ میری ذمہ داری نہیں ، آپ سمجھ جائیں کہ اس صوبے میں نہ ایڈمنسٹریٹر ہے نہ ایگزیکٹو اتھارٹی نہ قانون اور نہ انسانیت۔۔۔۔۔ وہاں بس خادم ہی خادم ہیں ۔ جس ملک کا وزیراعظم کابینہ اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے کہے کہ میں نے گیس مہنگی ہونے کا نوٹس لے لیا مگر اگلے دن اس کا''پارٹنر وزیر‘‘ پارلیمنٹ کی سٹینڈنگ کمیٹی میں بیٹھ کر بولے گیس ضرور مہنگی ہو گی کیونکہ گیس مہنگائی کی سمری کابینہ نے مسترد نہیںکی، تو آپ جان جائیں اُس ملک میں اشرف المخلوقات کا نہیں بلکہ اشرف الجنگلات یعنی شیروںکا راج ہے۔
جس سماج میں مزدور اینٹوں کے بھٹے کی آگ میں ڈال کر زندہ روسٹ کر دیے جائیں، آپ یقین کر لیں کہ وہاں انصاف سستا بھی ہے اور فوری بھی۔ جس پارلیمنٹ کے دروازے پر خالی ہاتھ شہری قتل ہو جائیں، لیکن قتل کی تفتیش ہو نہ ٹرائل ، نہ گرفتاری اور نہ ہی داد رسی تو آپ سمجھ جائیں کہ وہاں غریب عوام مضبوط پارلیمنٹ کے سائے میں مکمل محفوظ ہیں۔ جہاں خادمِ اعلیٰ اور اس سے بھی بڑے خادمِ اعظم کے محلے میں حاملہ عورتوں سمیت شہریوں کا قتلِ عام اور پھر قتلِ عام کے''ایکشن ری پلے‘‘ جیسی وحشیانہ وارداتیں ہوں ، نہ کوئی پکڑا جائے نہ کوئی تفتیش ہو تو آپ راستہ چھوڑ دیں، ایشین ٹائیگرز سے آپ کی ملاقات ہونے والی ہے۔ جہاں عفت مآب بیٹیاں آبروکا جنازہ لے کر تھانے جائیں ، واپسی پر انہیں چوک میںخود سوزی کرنی پڑے ، وہاں یقین کر لیں کہ اختیار باہمت ہی نہیں باحمیّت لوگوں کے ہاتھ میں قومی غیرت کی طرح مکمل محفوظ ہے۔ جو نہ مانے وہ جمہوریت کا دشمن اورآئین کا باغی ہے۔ اس کے باوجود میں اس نظامِ حکومت کو عوام کے ساتھ فراڈسمجھتا ہوں بلکہ مسلسل فراڈ۔ اس فراڈ کی وجوہ سیاسی بھی ہیں، معاشی بھی اور معاشرتی بھی۔
ایک کھلا معاشی فراڈ فیروز ٹائون چکوال روڈ چُوا سیدن شاہ کے مرزا غلام احمد مغل نے بھی پکڑا ہے۔ ان کا خط ملاحظہ کیجیے:
جناب واجب الا حترام سینیٹربابر عوان صاحب !
مؤدبانہ التماس ہے کہ ہر حکومت کی یہ اولین ذمہ داری ہے کہ وہ عوام کی جان ومال کی حفاظت کے ساتھ انہیںبہتر معیار زندگی بھی فراہم کرے تاکہ معاشرہ خوشحال ہو سکے۔ یہ کہ موجودہ حکومت غریب عوام کی پسماندگی کو دور کرنے کے لیے کوشاں ہے اور یہ اس کا فرض ہے کہ جمہورکوطاقت ور، خوشحال اور تفکرات سے آزادکرے تاکہ جمہوریت مضبوط ہو سکے اور ادارے کرپشن سے پاک ہو سکیں۔ یہ کہ کچھ مفاد عامہ کے ادارے ایسے ایسے غیرمرئی طریقے اختیارکرتے ہیں کہ محا صل100فیصد خزانے میں جانے کی بجائے ان کا کچھ حصہ ان کی ذاتی جیب میں چلا جاتا ہے اوریہ کرپشن ہے،اسی طرح ادارے کمزور ہوتے ہیں۔
جناب والا! سوئی گیس ایک اولین ضرورت ہے۔ جہاںیہ ایندھن کے طور پراستعمال ہورہی ہے وہاں اس کے اوربھی فوائد ہیں،کثیرالمقاصدفوائد۔ یہ کہ سوئی گیس کاٹیرف جو عوام سے وصول کیا جا رہا ہے اس کے بارے میں درخواست گز ار ہوں۔ یہ تین سٹیپس یاتین کیٹیگریاں ہیں:
نمبر1۔۔۔ 1-0ایم بی یوز جزوضربی 106روپے
نمبر2۔۔۔ 2-1 ایم بی یوز جزوضربی 212 روپے 
نمبر3۔۔۔ 2 سے اوپر ایم بی یوز جزوضربی 530 روپے 
اگر ایم بی یوز 3 ہوں تو سب پرجزوضربی530 لاگوہوگا۔اگر2 ایم بی یوزہوں تو دوسری کیٹیگری میں آئیں گے جبکہ ایک تک پہلی کیٹیگری ہے ؛ حالانکہ 3 ایم بی یوزمیں سے0.1 سے 1.00تک پہلی کیٹیگری بقایا ایم بی یوز1.01 سے2.00 تک دوسری کیٹیگری اور اگر2.01 سے اوپر ہوں تو تیسری کیٹیگری میں آنا چاہیے۔ 
عالی قدر! بجلی ٹیرف پر یہی انٹرنیشنل فارمولا یا طریقہ کار رائج ہے۔ مثلاً پہلے200 یونٹ پہلی کیٹیگری، 200 سے 300 تک دوسری کیٹیگری اور اس سے اوپر آخری کیٹیگری۔ التماس ہے کہ سوئی نادرن گیس کا ٹیرف بھی واپڈاکی طرح وصول کیا جائے۔ ٹیرف کی حدبے شک 106روپے کی بجائے 110 روپے، 212 روپے کی بجائے220 روپے اور 530 روپے کی بجائے 600 روپے کر دی جائے۔ اس طرح عام آدمی بالخصوص تنخواہ دارطبقہ جو کسی معاشرہ کی ریڑ ھ کی ہڈی ہوتی ہے‘ اسے کافی ریلیف ملے گا، یعنی ٹیرف کی وصولی، بجلی کے ٹیرف کی طرح کی جائے، یعنی پہلی کیٹیگری کو منہاکرکے دوسری میںاور دوسری کو منہا کر کے تیسری میں داخل ہوا جائے۔اللہ آپ کا اقبال بلند کرے ، توفیقات خیر میں اضافہ فرمائے،آمین۔ 
وکالت نامہ کے ایک اور قاری نیشنل بینک آف پاکستان، آفیسرز فیڈریشن کے چیئرمین حاجی انور بلوچ نے نواب شاہ سے خط میں 15دن سے جاری احتجاج کی طرف توجہ چاہی ہے۔ چیئرمین فیڈریشن انور بلوچ فریاد کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ان کے جائز مطالبات کی طرف انتظامیہ نے اندھی آنکھ اور بہرہ کان رکھا ہوا ہے جس کے نتیجے میں نیشنل بینک کے ملازمین نے صوبائی اور ریجنل ہیڈ کوارٹرز میں ریلیاں نکالنے، سیاہ پٹیاں باندھنے اور برانچوں میں بینرز لگانے کا سلسلہ شروع کیا ہے۔ نیشنل بینک کے ملازمین کا دکھ، سٹیل مل کے ملازمین اور او جی ڈی سی ایل کے ورکروں والا ہے۔ وہ چاہتے ہیں پرائیویٹائزیشن کے نام پر اس پرائیویٹ ادارے کی لُوٹ سیل روکی جائے۔ ان کے باقی مطالبات بھی انتہائی معقول اور قانونی ہیں۔ موجودہ طرزِ حکومت کا ڈیڑھ سالہ مسلسل ریکارڈ ہے کہ اس نے کبھی قانونی بات معقول طریقے سے نہیں سُنی، اس کے باوجود خدا کرے کہ ان کا یہ ریکارڈ وہ خود اپنے ہاتھ سے ہی توڑ دیں اور اس کے نتیجے میں نیشنل بینک کے محنت کشوں کے مطالبات مان لیں۔ 
بادشاہوں، شہزادوں اور درباریوں کے منہ پر جس طرح کے جرائم پاکستان میں ہو رہے ہیں اس کی مثال شاید ہی کہیں اور سے مل سکے۔ ابھی اگلے روز لاہور میں ''لیپ ٹاپ ڈکیتی‘‘ کی واردات ہو گئی۔ تفصیلات کے مطابق چھ لڑکیاں لیپ ٹاپ ہاتھ میں پکڑے سرکاری تقریب سے باہر نکلیں تو اُن کے لیپ ٹاپ ڈاکوئوں کے ہتھے چڑھ گئے۔ اللہ کا شکر ہے کہ وہ خود بچ گئیں۔ خاندانی اقتدارکو جمہوریت کہا جائے یا اسے خلافت کا نام دیا جائے۔۔۔۔۔ درحقیقت یہ ملوکیت ہی ہوتی ہے۔ ملوکیت کی تعریف کے مطابق اس کا مطلب ہی ہر چیزکی ملکیت ہے ۔ صرف مرغی، دودھ، چینی، دوائی، آٹا، بجلی، بینک اور سرکاری زمینوں کی ملکیت نہیں بلکہ انسان، اُن کے جذبات اور ان کی ضروریات سمیت سب کچھ غلامی کی نشانیوں میں شمار ہوتے ہیں۔ اسی لیے بادشاہ کالا ہو یا پیلا، لمبا ہو یا پستہ قد ساری پولیس اُسے عوام سے محفوظ رکھنے کے لیے بھرتی کی جاتی ہے۔ پاکستان وہ واحد آئینی ریاست ہے جہاںآلو آئین سے زیادہ اہم ہے۔ اگر آلو مودی سرکار نے بھیجا ہو تو اس کی اہمیت ڈبل۔
معاشی انصاف، قانونی انصاف، عدالتی انصاف، برابری اور مواقع کا انصاف، بچوں کے لیے انصاف، جائداد ، جان اور عصمت لُٹا دینے والوں کے لیے انصاف کے دروازے بند ہو رہے ہیں۔ یہ کون خوش فہم ہیں جو کہتے ہیں انصاف کے دروازے بند کرنے کے بعد بھی ''سب اچھا‘‘ رہ سکتا ہے: 
پھر قصرِ جہانگیر ہے زنجیر سے خالی
ایوان کوئی عدل کے قابل نہیں ملتا
اُس کوچۂ وحشت میں، ہم آباد ہیں جس میں
مقتول تو مل جاتے ہیں، قاتل نہیں ملتا 

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں