یہ فقرہ پہلے مونٹی سری، پلے گروپ، نرسری اور پرائمری سکولوں میں سُنا جاتا تھا۔ خاص طور پر تب‘ جب عجیب و غریب حُلیے یا نرالی عادتوں والے کسی انوکھے لاڈلے کو اس کے ساتھی طالب علم ''بُلی‘‘ کرتے تھے۔ خیر سے اب یہ اصطلاح سیاسی بھی ہو گئی ہے کہ میرے ابّا کو آنے دو یا چاچو کو آنے دو۔
انہی جملوں میں سے ایک اور مشہور جملہ تازہ دریافت کیا گیا ہے۔ جن دنوں اٹک قلعے کے اندر آصف زرداری، نواز شریف، اعظم ہوتی اور احتساب کے درجنوں دیگر مقدمات چل رہے تھے‘ تب میرا ہر ویک اَینڈ اس شاہی قلعے میں گزرتا تھا۔ کبھی کبھی تو صبح نو بجے سے لے کر رات گیارہ بجے تک بھی۔ ایسے ہی ایک مِڈ نائٹ ٹرائل کے دوران مجھے پتہ چلا کہ مغلِ اعظم نے اٹک کے شاہی قلعے کو دل و جان سے کیوں چاہا۔ رات کے دوسرے پہر‘ میں جسٹس پرویز ملک پر مشتمل احتساب عدالت سے باہر نکلا۔ یہ رمضان کا مہینہ تھا۔ اس روز جونیئر وکلا میں سے مصطفی نواز کھوکھر، بیرسٹر مسرور شاہ، بیرسٹر خرم ہاشمی، صغریٰ چوہدری، تنویر خالد اعوان اور دیگر میرے ساتھ تھے۔ صبح سے رات تک نیب کے 23 گواہوں کے بیانات قلمبند ہوئے۔ میں نے ان کے بیانوں پر صفائی کی جرح مکمل کی۔ قلعے کے انچارج نے بتایا کہ قلعے کی ایک دیوار اٹک دریا کے پانی میں ہے۔ جہاں آدھی رات کا چاند زمین پر اترتا ہے اور اسے پانی میں دیکھا جا سکتا ہے۔ میں نے پوچھا دیوار کس طرف ہے؟ کمانڈر نے کہا: اس طرف اور میں اُسی طرف چل پڑا۔ ڈیوٹی پر موجود سپاہی دوڑتے ہوئے آئے۔ کہا: اس طرف جانے کی اجازت نہیں ہے۔ میرے اصرار پر ہمیں جانے دیا گیا۔ تب مجھے پہلی بار پتا چلا کہ بادشاہوں اور شہزادوں کے نخرے کیا ہیں؟
کچھ دن پہلے میں نے وکالت نامہ میں موجودہ نظام کو لنگڑا لولا اور معذور قرار دیا۔ تب ایک انتہائی محترم استاد نے‘ جو اِن سطور کے قاری بھی ہیں‘ مجھ سے کہا: آپ کچھ سخت نہیں کہہ گئے! میں نے جواباً عرض کیا: آپ کی رائے محترم مگر میں نے جو کچھ لکھا‘ وہ صرف مشاہدہ ہی نہیں بلکہ تجربہ بھی ہے۔ ایک تازہ مشہور زمانہ ٹوئٹ سے وہ بھی متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔ فرمانے لگے اگلے روز جو آپ نے لکھا وہ درست تھا‘ لیکن بہت ہی کم۔ یہ والی جمہوریت دھوکہ، نظام نابینا، انصاف اندھا اور سرکار مزاحیہ فنکاروں جیسی حرکتیں کرتی ہے۔ اس سرکار نے ٹیچر مرد اور عورتوں کو سڑکوں پر گھسیٹا‘ ان کی پٹائی کی اور پھر بیان دیا ہم ٹیچروں پر تشدد نہیں ہونے دیں گے۔ گورننس آنکھوں والی ہوتی تو اُسے معلوم ہوتا، تشدد تو پہلے ہی ہو چکا۔
ینگ ڈاکٹرز پر یوں حملے ہوئے جیسے دشمن کی فوج پر یلغار۔ پھر بیان آیا جو ڈاکڑ ہڑتال کرے گا‘ نوکری سے فارغ کر دیا جائے گا۔ اگلے دن خادموں کی حکومت کو پتہ چلا کہ ڈاکٹر تو مسیحا ہوتے ہیں۔ جبکہ ینگ ڈاکٹر ننھے مُنے اور نوخیز مسیحائی کی کلیاں۔ ظلم کرنے کے بعد بیان آ گیا‘ ڈاکٹروں پر ظلم نہیں ہونے دیں گے۔
او جی ڈی سی ایل کے ملازمین ادارے کی لُوٹ سیل کے خلاف پارلیمنٹ کی طرف بڑھے۔ جی ہاں! بالکل!! وہی پارلیمنٹ جہاں سے ہر روز پکار آتی ہے کہ مسائل کا حل چاہیے تو پارلیمنٹ آ جائو۔ او جی ڈی سی ایل کے ملازمین پر گولیاں برسائی گئیں۔ لاٹھیاں سویٹ ڈش کے طور پر‘ وہ بھی مفت۔ اگلے دن وہی لکھا لکھایا بیان آ گیا، او جی ڈی سی ایل کی نج کاری اب نہیں ہو گی۔ بجٹ کے موقع پر کلرک اور چھوٹے سرکاری ملازم چیختے ہی نہیں بلکہ گلے میں سُوکھی روٹیاں ڈال کر چھاتی پیٹتے رہے... تنخواہ میں اضافہ کرو۔ پہلے ان پر یلغار ہوئی۔ پھر بیان آیا‘ کلرکوں پر کسی کو ظلم نہیں کرنے دیں گے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب یہ سب کچھ ہو ا تب تو ابّا گھر پر ہی تھے اور چچا محترم بھی پڑوس میں۔ ہم برطانیہ کی جمہوریت کے گُن گاتے ہیں۔ اس کی ایک وجہ فرنگی راج کی 200 سالہ غلامی ہے۔ دوسری وجہ وہاں ہمارے لیڈروں کے وِلاز، سروس اپارٹمنٹس، بینک اکائونٹس اور بعض کیسوں میں گوری بیگمات بھی ہیں۔ موجودہ دور میں ایک بڑی وجہ قرضے کا میگا سائز کشکول ہے۔ انگلینڈ کی جمہوریت ہمیں ریجنٹ پارک سے ہیتھرو ایئر پورٹ تک ہی اچھی لگتی ہے۔ پاکستان کے ہوائی اڈّے پر اُترنے کے ساتھ ہی ہمارا لیڈرانہ مزاج گورے بادشاہ ایڈورڈ ہشتم دی گریٹ جیسا بادشاہی بن جاتا ہے۔ برطانیہ میں مارگریٹ تھیچر کے بعد سب سے لمبی حکومت کرنے والا وکیل ٹونی بلیئر وزارتِ عظمیٰ سے نکل کر پبلک ٹرین کے ذریعے گھر پہنچا‘ مگر تنِ تنہا‘ اور اکیلا۔
یادش بخیر 1979ء میں موجودہ خادموں کے مرشدِ اعلیٰ جنرل ضیا نے پنڈی صدر سے مری روڈ تک سائیکل چلائی تھی‘ جس کے لیے پورے پنجاب کی پولیس اور کارِ خاص والے سفید کپڑوں میں سائیکل تماشے پر تالیاں بجاتے رہے۔ دوسری طرف اس سرکس سے آٹھ کلومیٹر آگے ڈپلومیٹک انکلیو میں ایک بڑی ایمبیسی مظاہرین نے جلا کر راکھ کر دی۔
اندھے انصاف، نابینا قانون اور معذور جمہوریت کے منصب دارِاعلیٰ کی شاہی سواری اتنی اہم ہے میں کبھی سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔ ویسے ذرا یہ تو دیکھیں کہ صدر صاحب کرتے کیا ہیں؟ کیا ان کو سرکاری جہاز تک پہنچانے کے لیے ضروری تھا کہ پنجاب پولیس لاٹھی چارج کے ذریعے سفید چھڑی توڑ دے۔ جو چل نہیں سکتے اور جو اُٹھ نہیں سکتے ان کی وہیل چیئرز الُٹ دی جائیں۔ جو سہارا مانگتے ہیں اُن کے خلاف للکارا مارا جائے۔ یوں لگتا ہے خادمِ اعلیٰ کی ٹیم نے ایک اور عالمی ریکارڈ بنانا تھا‘ جو تاریخ میں کالے حرفوں کے ساتھ بن بھی گیا اور لکھا بھی۔ میں نے اختلافی نوٹ نہیں لکھا صرف سرکار کی خوبصورتی بیان کی۔ ایسی جمہوریت کا تحفظ آپ سب کا فرض ہے جو معذوروں سے حسنِ سلوک کی ریکارڈ ہولڈر ہے۔
یہ ایسا حسنِ سلوک تھا جس پر جمہوریت کے علاوہ پوری قوم شرمندہ ہوئی ہے۔ کہتے ہیں وہ بے عزت ہو جاتا ہے جس کی کوئی عزت ہو۔ اسی طرح شرمندہ ہونے کے لیے آنکھوں میں پانی ضروری ہے:
دل انقلابِ حال سے نالاں ہے دوستو
شیرازۂ حیات پریشاں ہے دوستو
ناسازگار آب و ہوا ہے کہاں چلیں
صَرصَر کی زد میں نظمِ گلستان ہے دوستو
جو کچھ سلوک ہم سے چمن میں کیا گیا
تاریخ اس پہ ششدر و حیراں ہے دوستو
چکمہ دیا اجل نے غریب الدّیار کو
لُوٹا ہے فصلِ گُل میں خزاں نے بہار کو