چور یا چوکیدار ؟

اگلے روز میں نے محکمہ ٹیلی فون کے کارکنوں کے مقدمے میںبحث مکمل کی۔ یہ خود اختیاری کا کیس تھا۔ ایسا ہی ایک اور مقدمہ بھی میرے پاس ہے‘ گدون کی ٹیکسٹائل مل کا۔ دونوں جگہ voluntary یعنی رضاکارانہ معاہدہ، بازو مروڑ کر کروایا گیا۔ گدون امازئی خیبر کی حکومت کی توجہ چاہتا ہے۔ ہری پور والی حطار انڈسٹریل سٹیٹ کی طرح فوری توجہ۔ نہ جانے کیوں حکمرانوں نے نیا روزگار پیدا کرنے پر توجہ کرنا چھوڑ دی ہے۔
فیصل آباد غارت گری کے بعدوزیرِ اعظم کی طرف سے ''رضاکارانہ مذاکرات‘‘ بھی اوپر بیان کردہ خود اعتمادی سکیم جیسے ہیں۔ویسے ریکارڈ کی بات یہ بھی ہے کہ وزیرِ اعظم نے کہا، ہم مذاکرات کے لیے تیار ہیں۔اُسی دن اخبار میں فیصل آباد کے لشکری گروپ کا بیان چھپا۔ اب مذاکرات نہیں ہوں گے۔اس تضاد بیانی سے ایک سوال تو لازماً پیدا ہوتا ہے۔ وہ یہ کہ کیا وزیرِ اعظم کی رِٹ کابینہ سے بھی غائب ہو گئی ؟وہی مشہورِ زمانہ اچھا سپاہی اور بُرا سپاہی والا کھیل کھیلا جا رہا ہے؟اسی طرح پنجاب کے خادمِ اعلیٰ کی کارگزاری پر بھی ایک بنیادی سوال اٹھتا ہے۔ جب محکمۂ صحت کا کوئی نچلے درجے کا اہلکار ڈینگی مچھر مار دے تو خادمِ اعلیٰ اپنی تصویر کے ساتھ مچھر مارنے کا کریڈٹ بھی خود ہی لیتے ہیں‘ لیکن اسی کرسی پر بیٹھ کر جب کوئی شہروں کو گُلّووں کے حوالے کرتا ہے تو اس وقت وزیرِ اعلیٰ کی تصویر والے اشتہار غائب ہو جاتے ہیں۔ بالکل ویسے ہی جیسے فیصل آباد سے ڈی پی او اور ڈی سی او غائب ہوئے تھے۔
اگر ہم اس نظام کو جمہوریت کہہ لیں تو پھر ہمیں تلاشِ گمشدہ کا اشتہار دینا پڑے گا۔ وہ بھی پچاس لاکھ روپے کا انعام رکھ کر‘ تاکہ یہ پتہ چلایا جا سکے کہ اہم ترین ملکی معاملات یا بحرانوں پر فیصلے کون کرتا ہے ؟ اگر آپ مجھ سے پوچھیں تو میں پورے وثوق سے کہہ سکتا ہوں ایسے فیصلے ''اکّڑ بکّڑ‘‘ کر کے لیے جاتے ہیں۔جسے یقین نہ آئے وہ دھرنے والوں کے ساتھ مذاکرات کے موضوع پر نوازشریف، وزیرِ اطلاعات اور وزیرِاعظم کے سمدھی وزیر کے بیانات پڑھ کر دیکھ لے‘ اُسے یقین آ جائے گا۔فیصلہ سازی میں بے ہنری کو اس قدر عروج ایشین ٹائیگر کے علاوہ اور کوئی نہیں دے سکتا۔
سرکاری اندازوں کے مطابق ان ڈیڑھ دو ہزار لوگوں نے پورا کراچی جام کرکے دکھایا۔ سرکار کے ماتھے پر دسمبر کی ٹھنڈ میں پسینے کا نتیجہ مذاکرات کی صورت میں نکلا۔ اب وزیرِ خزانہ اور وزیرِ منصوبہ بندی راگ مذاکراتی گا رہے ہیں جبکہ وزیرِ اطلاعات اور وزیر ریلوے راگ اختلافی کی تان ٹوٹنے نہیں دیتے۔ایسے میں دو اہم واقعات ہوئے۔ پہلا لاہور میں سامنے آیا جہاں NA-125 لاہور کے 5عدد پولنگ سٹیشنز پر 22 فیصد سے زائد ووٹ جعلی نکلے۔ بالکل ویسے ہی جیسے چین سے درآمد شدہ ریلوے انجن۔اس جعل سازی کے سرپرستوں کا خیال ہے کہ چور اب بھی نہیں پکڑا جائے گا۔ یہ سمجھتے ہیں یہ کون ثابت کرے گا کہ جعلی ووٹ کیسے پڑے؟ جبکہ اس اٹکل پچّو ترکیب کوقانون نہیں مانتا۔
عوامی نمائندگی کے ایکٹ مجریہ1976ء کی رُو سے کسی بھی الیکشن کو کالعدم قرار دینے کی صرف دو وجوہ کافی ہیں۔ پہلی il-legal practicesیعنی الیکشن کے دوران قانون سے ماورا کوئی بھی حرکت الیکشن کا نتیجہ مسترد کرنے کے لیے کافی سمجھی جاتی ہے۔ دوسرے Corrupt Practicesجس کا مطلب ہے الیکشن کی شفافیت کے عمل کو داغدار بنانے کے لیے کی گئی کوئی بھی حرکت الیکشن کو کالعدم بنا ڈالے گی۔ NA-125میںکیسا ''دھاندلہ‘‘ ہوا‘ یہ راز ہارے ہوئے امیدوار کے ہاتھ نہیں آ سکا۔ انگریزی کا محاورہ ہے کہ جھوٹ کی ٹانگیں نہیں ہوتیںاس لیے یہ کھڑا نہیں رہ سکتا ہے۔اُردو میں کہتے ہیں جھوٹ کے پائوں کہاں ؟NA-125لاہور کے الیکشن کی شفافیت کا بھانڈا سرکاری ادارے نادرا نے پھوڑ ڈالا۔ سرکار کی رپورٹ سرکاری امیدوار کے بارے میں کہتی ہے کہ اس کے حلقے میں شناختی کارڈ جعلی نکلے۔جعلی شناختی کارڈ بنوانا‘ اسے رکھنا یا استعمال کرنا قابلِ دست اندازی پولیس جرم ہے۔اگر قانون کی حکمرانی ہوتی تو اب تک جعلی شناختی کارڈ کے معاملے پر مقدمات درج ہو جاتے۔ نادرارپورٹ مزید کہتی ہے کہ 5پولنگ سٹیشنز کے متعدد ووٹوں کی تصدیق نہیں ہو سکی۔ گھوسٹ ووٹ ڈالنا یا ڈلوانا یا گھوسٹ ووٹنگ کی معاونت کرنا بھی فوجداری جرائم ہیں۔ کہاں ہے لاہور کی شیر دل پولیس ؟ اور کہاں ہے قانون کی حکمرانی ؟ یہی رپورٹ مزید کہتی ہے کہ بیلٹ پیپرز کی کائونٹر فائلوں پر شناختی کارڈ کے نمبر جعلی تھے۔
رپورٹ میں بھاری مینڈیٹ کا پول یوں کھولا گیا۔پولنگ سٹیشن نمبر 6پر ایک ایک شخص نے چھ چھ مرتبہ ووٹ کاسٹ کیے۔ جبکہ پولنگ سٹیشن نمبر 98میں جعلی ووٹروں کی تعداد ڈبل یعنی بارہ ہوگئی۔سب نے دو دو بار ووٹ ڈالا۔ اس حلقے کے سرکاری امیدوار نے بارہا ٹی وی پرکہا‘ جعل سازی ثابت ہوگئی تو سیاست چھوڑ دوں گا...! کیا اب وہ واقعی سیاست چھوڑ دیں گے یا پبلک وعدے کا حشر وہی کریںگے جو تین ماہ میں لوڈ شیڈنگ ختم نہ کی تو میرا نام بدل دینا والے وعدے کا ہوا ؟ابھی تو صرف ایک حلقے کے صرف اور صرف وہ 5پولنگ سٹیشن کھولے گئے جن کے بارے میںجیتے ہوئے اور ہارے ہوئے امیدوار نے معاہدہ کیا کہ انہیں کھولا جائے۔اگر یہ پورا حلقہ کھل گیا؟ اور اگر NA-122بھی کھل گیا ؟ اور اگر عمران والے چاروں حلقے کھل گئے تو پھر ہم سب مل کر اس بھاری مینڈیٹ کا دفاع کریں۔ 
دوسرا واقعہ یہ کہ سپریم کورٹ نے انتخابی نتائج کو ٹربیونل میں چیلنج کرنے کا فیصلہ دے دیا۔ہفتے کے روز تفصیلی فیصلہ آیاجس میں 29 اکتوبر کے شارٹ آرڈرکی وجوہات بیان کی گئیں۔ اس فیصلے کا دلچسپ پہلو چیف جسٹس ناصرالملک اور سپریم کورٹ بینچ کے یہ ریمارکس ہیں: 
"Since we were not provided with any assistance on these propositions, we refrain from dialting upon them".
''چونکہ سپریم کورٹ کو ان قانونی مُوشگافیوں پر کوئی معاونت فراہم ہی نہیںکی گئی اس لیے عدالت ان پر تفصیل میں جانے سے رُک رہی ہے‘‘۔ اس قضیے کا وہ پہلو جدھر لوگوں کا دھیان کم گیا ہے‘ وہ سابق سیاسی چیف جسٹس کا ایک پسندیدہ پٹیشنر ہے جسے ہائی کورٹ سے ریٹائرمنٹ کے بعد پہلے سیاسی چیف جسٹس نے اپنے گروپ کے وکیلوں سے بار کا عہدے دار بنایا۔ پھر اسے سپریم کورٹ میں بھرتی کر لیا۔ جس روز اس کی پٹیشن سپریم کورٹ کے بینچ نمبر1میں سُنی گئی ،میں دیگر مقدمات کے سلسلے میں بینچ میں موجود تھا۔ کراچی کے ایک انتہائی سینئر وکیل اور سابق وزیرِ قانون نے مجھ سے پوچھا‘ یہ کس طرف سے آیا ہے ؟ میں نے کہا‘ سیاسی چیف جسٹس کے بیٹے کی طرف سے۔ وہ حیران ہوئے اور کہنے لگے وہ کیسے؟ میں نے کہا‘ سیاسی چیف جسٹس بیٹے کو جڑانوالہ سے سرکار کے ٹکٹ پر اسمبلی میں لاناچاہتا ہے اور پرائم منسٹر کی نا اہلی کے لیے بے دلی کے ساتھ ڈھیلی ڈھالی پٹیشن لا کر وہ نواز شریف پر احسان کرے گا اور پھر ٹکٹ مانگے گا۔اب ذرا آئیے اس پہلو کی جانب جہاں سپریم کورٹ کا تفصیلی فیصلہ میری پٹیشن کی تصدیق کرتا ہے۔ فیصلے میں پوائنٹ آئوٹ کیا گیا کہ دلائل کے دوران عدالت نے سیاسی چیف جسٹس کے دوست سابق جج محمود شاہ کے وکیل میاں اللہ نواز صاحب کو بتایا :
"that he had not filed any document in support of the alligations with his petition".
''وکیل کو بتایا گیا کہ عدالت میںدائر کی جانے والی پٹیشن کے ساتھ لگائے گئے الزامات کی حمایت میں قطعاً کوئی ثبوت پیش نہیں ہوا‘‘۔ جس وکیل کی وکالت ایک دن کی ہو گی وہ بھی جانتا ہے کہ جس اسمبلی کے ممبران کو نا اہل قرار دلوانا مقصود ہے اس کے ممبران کو مقدمے میں فریق بنانا ضروری ہے۔ خاص طور پر آئین کے آرٹیکل10 Aکی موجودگی میں جو اٹھارویں ترمیم کے دوران بطور وزیرِ قانون میرے دور میں آئین کا حصہ بنایا گیا۔ اب یہ ممکن ہی نہیں رہا کہ کسی متاثرہ شخص کو فریق بنائے اور اسے سُنے بغیر اس سے عہدہ چھینا جا سکے یا نا اہل قرار دیا جا سکے۔ سپریم کورٹ نے واضح طور پر کہا کہ اسمبلیوں کے ارکان ان پٹیشنوں میں ضروری بھی اور متاثرہ فریق بھی تھے مگر انہیں مقدمے میں شامل ہی نہیں کیا گیا۔مجھے معلوم نہیں نورا کشتی کا آغاز کس ملک کے کس صوبے سے ہوا لیکن آج نورا کشتی ڈینگی مچھر کی طرح یا سرکاری خرچ پر دورے کرنیوالے جہازوں کی طرح ہر جگہ اُڑتی پھرتی نظر آتی ہے۔
اس بحث کو چھوڑیں مذاکرات رضاکارانہ ہیں یا مجبوری کے تحت آئین کا آرٹیکل 225اور نہ ہی سپریم کورٹ نے یہ کہا کہ الیکشن میں ووٹوں کی چوری کی تفتیش نہیں ہوسکتی۔ آرٹیکل 225میںنئے ٹربیونل بنانے کی اجازت ہے۔ ایک نہیں بلکہ بہت سارے۔ اگر چور چوکیدار نہیں ہیں تو پھر چوری پکڑنے سے کیوں ڈرتے ہیں...؟
جوٹھ آکھاں تے تاں کُجھ بچدا اے
سچ آکھیاں بھانبھڑ مچدا اے 

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں