میں نے جو نہی پارلیمنٹ کے دروازے پر قدم رکھا۔ وہ لپکا‘ مجھے بازو سے پکڑ ا اور کھینچ کر علیحدہ لے گیا۔پانچ منٹ تک بغیر وقفے کے بولتا رہا پھر کہنے لگا آپ وعدہ کریں، کہیں میرا نام نہیں آئے گا۔ میںمُسکرادیا ۔اثبات میں ہاں کرنے کے لیے سر ہلایا اور کہا تمہارا راز دارالحکومت سے باہر نہیں جائے گا ۔وہ حیران ہوا کہنے لگا سر جی!!! میں نے اُسے اشارہ کیا پیچھے مُڑ کردیکھو۔ وہ اپنے ہم مرتبہ کو دیکھ کر گِرتے گِرتے بچا۔ ایک نہیں ، دو نہیں بلکہ وہ تین تھے ۔شہرِ اقتدار ایسے ہی سازشی کرداروں اور ان کی کہانیوں پر زندہ رہتا ہے۔
مجھے بَدّو والا لطیفہ یاد آ گیا۔جس کا عنوان ہے ''باقی سب ٹھیک ہے‘‘۔ بَدّو کا ذکر بعد میں کریں گے ۔پہلے ہندوتوا والے مودی کی بات سُن لیں ۔پاکستان میں اس کے سیاسی اور ''ذاتی‘‘ حمایتیوں سے اظہارِ تعزیت کرنے میں کوئی حرج نہیں۔جن کی محبوب پارٹی بی جے پی کو مقبوضہ کشمیر کے نورا ا لیکشن میں بھی بھرپور شکست ہوئی۔ مقبوضہ کشمیر کی کٹھ پتلی اسمبلی کی 87سیٹوں کے الیکشن پر سارے سرکاری وسائل کے بے دریغ استعمال اور نریندرمودی کے دوروں ،حریت پسندوں پر مظالم کے باوجود بھی بی جے پی عبرت ناک شکست کھا گئی۔ کٹھ پتلی اسمبلی میںبی جے پی کو صرف 25نشستیں مل سکیں۔جبکہ پیپلز ڈیمو کریٹک پارٹی 44نشستوں کے ساتھ واضح اکثریت لے گئی۔کٹھ پتلی اسمبلی کے الیکشن کی63سالہ انتخابی تاریخ میں یہ الیکشن ہندو انتہا پسندوں اور اسلام پسند حلقوں کے قریب سمجھے جانے والی محبوبہ مفتی کی پارٹی کے درمیان لڑا گیا۔کٹھ پتلی وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ کو اپنے آبائی انتخابی حلقے سونا وار کی نشست پر شکست ہو گئی ۔ جبکہ بُڈ گام سے عمر عبداللہ کی کامیابی مشکوک رہی۔ کیونکہ پہلے بھارتی میڈیا نے مسلسل اعلان کیا کہ وہ 1000 ووٹوں سے ہار گئے ہیں۔ شام ڈھلنے پر بتایا گیا وہ 900 ووٹوں سے جیت سکے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ اسی روز ہندو ریاست جھاڑ کھنڈ کی 81رکنی اسمبلی کا الیکشن بھی منعقد ہوا۔جس میں انتہا پسند ہندو نواز جماعت بی جے پی‘ 40نشستوں کے ساتھ جیتی۔ یوںایشیا کی سیاست میں بھارت کے سیکولر چہرے کا میک اپ اس الیکشن کے بعد دُھل گیا۔ اور مودی سرکار بے نقاب ہو گئی کیونکہ مقبوضہ کشمیر کا یہ جعلی الیکشن بھارتی آئین کے آرٹیکل 370کے خلاف کھلاریفرنڈم ثابت ہوا۔ اس کے ساتھ ہی مودی سرکار کی وہ خواہش کہ کشمیر بھارت کااٹوٹ انگ ہے کم از کم پانچ سال کے لیے سیاست کی چِتا پر جل کر کوئلہ ہو گئی۔ مودی مقبوضہ جموںوکشمیر کو بھارت میں آئینی طور پر ضم کرنا چاہتا تھا۔ ریفرنڈم کے ذکر سے یاد آیا ۔پاکستان کی تاریخ کو آگ، خون، ہیروئن کلچر اور کلاشنکوف راج میں جھونکنے کے بڑے مجرم ضیاء نے بھی ریفرنڈم کروایا تھا۔پہلے اس نے آئین کو توڑا پھر پانچ جمہوری حکومتیں پامال کیں۔پھر ایک ٹوڈی کابینہ بنائی۔جس میں کٹھ پتلی وزیر رکھے۔ وہ وزیر یا ان کی اولادیں آج کل قوم کو جمہوریت کا درس دیتی ہیں۔ اس آمریت کے سیا سی فرزند اور ُمرید زیادہ تر حکومت میں ہیں۔اور کچھ متفرق سیاسی پارٹیوں میں بھی شامل۔ ریفرنڈم ویسا ہی تھا جیسا مقبوضہ جموں کشمیر کی کٹھ پتلی اسمبلی کا مستقبل۔ پاکستان کے اندر ہیروئن کلچر کے بانی اور کلاشنکوف راج کے خالق نے جمہوریت کی لاش پر کھڑے ہو کر جو ریفرنڈم کروایا تھااسے شاعرِ عوام حبیب جالب کی چند سطروں نے اڑا دیا۔وہی جالب جس نے پہلے کہا:۔
صر صر کو صبا ظُلمت کو ضیا
بندے کو‘ خدا کیا لکھنا؟
اسی مزدور دوست عوامی شاعر کی دوسری للکار ریفرنڈم کے خلاف تھی وہ بھی ان لفظوں میں:۔
شہر میں ہُو کا عالم تھا
جِن تھا یا ریفرنڈم تھا؟
قید تھے دیواروں میں لوگ
باہر شور بہت کم تھا
کچھ باریش سے چہرے تھے
اور ایمان کا ماتم تھا
مرحومین شریک ہوئے
سچائی کا چہلم تھا
یا وعدہ تھا حاکم کا
یا اخباری کالم تھا
مودی ہار گیا مگر وہ شکست نہیں مانے گا ۔آسام میں آزادی پسند گوریلے روزانہ شہریوں کا قتلِ عام کرتے ہیں۔ گوہاٹی،ناگا لینڈ، میزو رام اور سکھوں کے علیحدہ وطن خالصتان سمیت پچاس سے زیادہ آزادی پسند تحریکیں بھارت میں علیحدگی کے لیے کبھی سرد جنگ لڑتی ہیں اور کبھی محاذ بارود سے گرم ہو جاتا ہے۔مگر مودی سرکار کا فو کس صرف ایک ہے۔ آگرہ سے اننت ناگ تک مسلمانوں کی نسل کشی۔ عیسائیوں سمیت انہیں جبراََ ہندو بنانے کا پراجیکٹ۔ بھارت میں یہ کام نیا نہیں۔ 1930ء اور1940ء کے عشرے میں شُدھی اور سنگھٹن کے نام سے پہلے بھی ہندوناپاک تحریک چلاتے رہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ آج بھارت میں 40کروڑ مسلمان ہیں۔تب شُدھی کہلانے والے آج آر ایس ایس یعنی راشٹر یا سیوک سنگھ بن گئے ہیں۔جبکہ سنگٹھن کا نام لینے والوں نے بی جے پی کا نقاب اوڑھ لیا ہے۔
تاریخ کا ایک سبق یہ بھی ہے کہ وہ عوام کی سوچ کی لہر سے ٹکرانے والوں کو پاش پاش کر دیتی ہے۔اپنے اندرونی سیاسی محاذپر دیکھ لیں۔ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت کے سب سے بڑے المیہ پر پسپائی اختیار کرنے والے باہر نکلنے سے ڈرتے ہیں۔ میں نے 2013 ء کے الیکشن سے بھی بہت پہلے کہا تھا‘ جنہوں نے عوام کے ساتھ دھوکہ کیا وہ عوام کے سامنے نہیں جا سکیں گے۔آج پھر کہنے کا وقت محسوس ہوتا ہے کہ عوام بیدار ہو گئے ہیں ۔جس طرح غریبوں نے مفاہمت کے نام پر منافقت مسترد کر دی تھی اسی طرح وہ معاہدہ کے نام پر دھوکہ قبول نہیں کریں گے۔ بھارت کی مودی ریاست ہو یا پھر پاکستان کے موڈی سیاستدان انہیں ایشیا کی نئی حقیقتوں کا سامنا کرنا ہو گا۔ایک حقیقت کشمیر میں انتخابی ڈرامے نے کھول کر رکھ دی۔دوسری حقیقت سانحہ پشاور کے بطن سے پیدا ہوئی۔ذرا آنکھ کھول کر دیکھیں تو ہمیں علاقائی نمبردار کا نپتے ہوئے ملیں گے ۔ان کے ہر کارے اور عالمی نمبردار وں کے چوکیدار ہلکان ہیں۔ مشرقِ بعید سے لے کر مشرقِ وسطیٰ تک۔طلوعِ آفتاب کی زمین سے شروع کر کے بالٹک ریاستوں تک سب کو سبق سیکھنا پڑے گا۔جو عالمی کھلاڑی ایٹمی طاقت پاکستان کو قابلِ تسخیر ثابت کرنا چاہ رہے تھے وہ اس حقیقت کو مت بھولیں کہ اس وقت داعش کے زیرِ قبضہ علاقہ آج کے برطانیہ کی پور ی ریاست کے رقبے سے بھی زیادہ ہے۔پاکستان کے حکمران علاقائی حقیقتوں سے بے خبر ہیں۔ ان کی مشاورت کا لیول گئے گزرے سے بھی گیا گزرا ہے۔جنگی زبان بولنے والے وزیراعظم کی کا بینہ تقسیم ہے۔ جو وزارت ریاستِ پا کستان کی ترجمان ہے۔جس کے ما تحت اے پی پی پی آئی ڈی،پی آئی او،پی ٹی وی کے سارے چینل، ریڈیو پاکستان اور ریاست کی اطلاعات، نشریات، مطبو عات کے سارے وسائل اور سارے ذرائع ہیں۔ اس وزار ت کا سربراہ پہلے دن ، دوسرے دن،تیسرے دن ، چوتھے روز ، پانچویں دن،چھٹے دن بھی پشاور تک نہ جا سکا۔ ساتویں روز محض کارروائی ڈالنے کے لیے وزیر موصوف نے پشاور کا جو دورہ کیا وہ ایک پرائیویٹ گھر میں نجی صوفے پر بنائی گئی تصویر سے آگے نہ بڑھ سکا۔پاکستان کے منیجروں اور لیڈر شپ کو لوگوں کا موڈ سمجھ میں نہیں آ رہا ۔عوام اس نظام حکومت اور گورننس کے سٹائل سے مکمل بیزار ہیں۔ اشرافیہ سمجھتی ہے اس کے باوجود بھی سب اچھا ہے۔ بَدّو صحرا سے دُور شہر میں دوست کو ملنے گیا۔ دریافت کرنے پر کہنے لگا تمہارا کُتا مر گیا باقی سب اچھاہے ۔ دوست بولا کیسے ؟ کہا تمہارے اونٹ کی ہڈی کھا کر۔ دوست نے کہا اونٹ مر گیا ؟ کہنے لگا تمہارے دادا کے جنازے میں گر کر۔ دوست پھر حیران ہوا دادا مر گئے ؟ بَدّو بولا دادی کا صدمہ برداشت کیسے کرتے ؟ دوست چیخا دادی مر گئی؟ بَدّو نے کہا جب تمہارا مکان گرا دادی کھجور کے نیچے بیٹھی تھی۔ باقی مکان کے نیچے دب گئے۔ دادی بعد میں اجتماعی موت کا صدمہ برداشت نہ کر سکی۔ فکر مت کرو باقی سب اچھا ہے۔