خُودشِکن

قانون شِکن سے زیادہ خطرناک خُودشِکن ہوتاہے۔حکمران اس فن میں کمال مہارت رکھتے ہیں ۔ یہ طے ہے پشاور کے بچوں کی کربلا سے اٹھنے والے اتحاد کا سب سے زیادہ فائدہ بدنام گورننس اور کمزور جمہوریت نے اُٹھایا۔کاروباری لوگ چھپر پھاڑ فائدہ اٹھانے کے بعد ''مزید فائدے‘‘ کے پیچھے بھاگ پڑتے ہیں۔ پچھلے حاصل وصول فوراََ بھول کر۔ایسا ہی 99کا چکر جمہوریت کو خود شکن بناتاہے۔ چند تازہ مثالیں دیکھ لیں۔ 
سرکار کے دو بڑے اتحادیوں آصف صاحب،مولاناصاحب سمیت قومی مفاہمت والوں نے اوّلین مفاہمت کے بعد اْسے توڑنے کے اعلانات کیے۔ بہانہ یہ تراشاکہ انہیں فوجی عدالتیں منظور نہیں۔ایسے نعرے لگانے والوں کے تین گروہ تھے۔پہلے گروہ کے رُکن صرف دو عدد۔ان میں سے پہلا اقتداری لیڈر۔ جس نے فون اٹھاکر کہا اعتراض اُٹھاؤ... فون سُننے والے نے فون سْن کر کہا‘ اعتراض حاضر ہے۔ گروہ ِثانی کوکچھ وزیروں نے بغاوت کر کے ریٹ بڑھانے کا مشورہ دیا۔تیسرے گروہ کی حیثیت ''جْمّا ں جَنج نال‘‘ والی تھی۔یہ لوگ سمجھتے رہے اُن کی قیادت ڈٹ گئی‘ جس کی وجہ سے فوج بند گلی میں داخل ہو کر ٹریپ میں آگئی ۔اب ان کی بھارت یا ترا''ہیرو‘‘ کے طور پر ہو گی۔پھرارجنٹ میٹنگ میں فوج کی مونچھ ، برتاؤاور موڈ میںفرق دیکھ کر بڑے تاجروں کو ڈھیرہونا پڑا۔اس طرح پر چُون فروش بے چارے ''جُھونگے‘‘ میں مارے گئے۔
قوم کے سامنے سوال سیدھا ہے‘ جسے اتحادی حکمران گمبھیر بنا کر کنفیوژن میں اضافہ کررہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا بحیثیت ریاست ہم نے زندہ رہنا ہے؟ جس کا جواب ہے‘ جی ہاں۔ اگلا مرحلہ یہ ہے کہ ریاست کے قانون شکن کون ہیں؟ اس معاملے پر حکومت اندر سے خود ہی دوعملی، دورُخی بلکہ دوغلے پن کا شکار ہے۔ ایک وزیر کہتا ہے تاجر، صحافی، سیاسی کارکن نہ دہشت گردہے نہ دہشت گردوں کا حامی۔اگر فیصلہ حکومت نے دینا ہے‘ پھر کون پولیس والا صحیح ایف آئی آر درج کرے گا؟کون تفتیشی تھیلا پکڑ کر ملزم تلاش کرنے کی تکلیف اُٹھائے گا؟ کون پراسیکیوٹر جان ہتھیلی پر رکھ کر ملزموں پر دہشت گردی کی فردِ جُرم لگوائے گا؟گواہ جان پر کھیل کر شہادت دینے کیوںآئیں گے؟ جبکہ لالچ اور دھمکیوں کی زد میں جج منصفی کریں یا سکہ رائج الوقت نُمامفاہمت؟وزیروں کا تیسرا گروہ کہتا ہے ہم مجبور ہیں۔مجبوری کی حالت میں سپیڈی ٹرائل کور ٹ کاقانون بن گیا ۔
قوم ان وزیروں سے یہ سوال کرتی ہے کہ تم کس کے ہاتھوں مجبور ہو؟مجبور کرنے والے کا نام تولے لو؟فوج نے کُھل کر کہا ، وزیراعظم اور وزارتِ داخلہ کو فوجی عدالتیں بنانے کا شوق تھا ہمیں نہیں۔معذور جمہوریت کے مجبور وزیر فوج کے خلاف منافقانہ چارج شیٹ نہ لگائیں ۔ہاتھ کے اشارے سے کندھے کو چُھو کر مت کہیں ''یہاں سے مجبور ہیں‘‘۔ اگر فوج کا موقف درست ہے تو پھر حکومت بتائے کیا اُسے امریکہ نے 9\\11جیسے قوانین بنانے پر مجبور کر رکھا ہے؟یا حکمران اپنی عادت سے مجبور ہیں ''آدھا تیتر اور آدھا بٹیر‘‘ نُما پالیسی والی عادت۔
جو حکومت اس قدر مجبور ہے کہ وہ اپنے ہی بنائے ہوئے قانون کو‘ اپنے ہی رولز آف بزنس کے تحت اور اپنے ہی ملک کے آئین کے مطابق اپنی ہی کابینہ میں منظوری کے لیے پیش نہیں کر سکتی تھی وہ جرائم پیشہ افراد یا گروہوںپر'' رُول آف لاء‘‘ کا نفاذ کیسے کرے گی۔
پوٹھوہاری کی ایک مثال ہے ''دلہنوں کی فوج ڈکیت کا مقابلہ کیسے کرے؟‘‘ حکومت خود کہے جا رہی ہے قانون اچھا نہیں ہے۔خود شکن حکومت خود ہی یہ بھی اعلان کرتی ہے کہ نئی تشکیل شدہ عدالتیں Abnormal یعنی غیر متوازن ہیں۔حکومت کے اندر سے یہ آوازیں اُٹھتی ہیںکہ نیا نظامِ انصاف، ماورائے آئین اور مساوات کے قانون سے بالاتر ہے۔دوسری جانب حکومت جو خود ایک آئینی ادارہ ہے اُس نے ملک کے ایک اور آئینی ادارے عدلیہ پر عدم اعتماد کا اظہار کر دیا‘ بلکہ اس عدم اعتماد پر پارلیمنٹ کی سِیل بھی لگوا دی۔
وزیراعظم ،وزیراعلیٰ پنجاب،وفاقی کابینہ اور سرکاری پارٹی کے عہدیدار بیک آوازہو کر فرماتے ہیں ملک میں انصاف ختم ہو گیا۔ قانون غیر موثر ہے۔ مسئلے کا واحد حل فوجی عدالت ہے۔ لہٰذا انصاف کا ترازو عسکری منصف کے ہاتھ میں دینا مجبوری ہے۔خود شکن جمہوریت کے خود شکن ماہرینِ قانون نے پارلیمنٹ میں بھجوانے کے لیے دو بِل تیار کیے۔ان میں سے ایک آرمی ایکٹ کی ترمیم کا بِل جبکہ دوسرا آئین میں اکیسویں ترمیم کا بِل۔ وزیراعظم نے ان دونوں بلوں کو وحشت گری اور لا قانونیت سے نجات کا راستہ بتایا۔ میں نے اختلافی نوٹ میں وہ سب قوم کے سامنے کھول کر رکھ دیا جو ہونے جا رہا تھا۔
اتفاقِ رائے پشتو کہاوت کے مطابق ''ناوئے دَہ یَوہ شَپئیے‘‘ ثابت ہوئی۔جس کا مطلب ہے صرف ایک رات کی دلہن۔اگلے دن حکومت کے اتحادیوں نے دلہن پر اعتراضات کی بارش کر دی۔پہل مولانا صاحب نے کی،پھر گیارہ سالہ ''مقبولِ عام‘‘ ڈکٹیٹر شپ کے فرزند نے گِرہ لگائی ۔قدرت جمہوریت پر پوری طرح مہربان ہے۔لاہور کے ''پھّجے‘‘ والے پائے سلامت رہیں۔ جب بھی کوئی فکِری مغالطہ یا علمی بحث میں فتح حاصل کرنی ہو تو''پھّجے‘‘ کے پائے کی "ایک ڈوز "اپنا کام دکھا دیتی ہے۔
پاکستان کا مسئلہ صرف مخصوص دہشت گردی ہی نہیں بلکہ عمومی لاقانونیت ہے۔جس کا سبب بھی کوئی ایک تنظیم یا ایک سوچ نہیں۔ جس ملک میں جلوس میں بندے مار کر ملزم بچ سکتے ہوں‘ دن دیہاڑے پولیس مقابلہ سٹیج کرنے والوں سے قانون نظریں بچا کر گزر جائے‘ جہاں فرقہ وارانہ اور صرف مذہبی نہیں بلکہ کمرشل اور لینڈ مافیا بھی ذاتی لشکروں کے ساتھ سرِعام گھومتے ہوں‘ ہر شہر میں نو گوایریا بنانے کی کُھلی اجازت ہو‘ وفاق کا ترجمان آئینی نظامِ عدالت کو کہہ سکے کہ عدالت صحیح فیصلے نہیں کرتی‘ وزیرداخلہ ملزموں کے پکڑے جانے سے پہلے انہیں بری کرنے کے اعلان کی صلاحیت سے مالا مال ہو‘ وہاں یہ والی عدالتیں ہوںیا وہ والی عدالتیں ۔یا پھر دونوں مل کر بھی پورے ملک کی خرابی دور کر لیں گی؟خدا کرے ایسا ہوجائے۔ 
ذرا ایک اور پہلو دیکھ لیں۔جہاں پولیس ناکام ہوئی حکومت نے وہاںرینجرز بُلا لیے۔جہاں سول انتظامیہ فیل ہوتی ہے وہاں فوج طلب کرنا ایک روٹین بن چُکی ہے۔اب جو نظامِ انصاف آیا اس کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ پہلے حکومت یعنی ایگزیکٹو اتھارٹی نے اور پھر پارلیمنٹ یعنی مقننہ نے اپنے ہی عدالتی نظام پر عدم اعتماد کیا۔اس عدم اعتماد کی پُشت پر صرف ایک اعلان نہیں بلکہ پارلیمنٹ اور سیاسی جماعتیں بھی کھڑی ہیں۔ سوال تو یہ بھی اُٹھتا ہے کہ گم کردہ راہ جمہوریت آخر قوم کو کہاں لے جا رہی ہے۔؟
یہ دنیا کا واحد جمہوری نظام ہے جہاں ووٹنگ کے وقت سرکاری اور غیر سرکاری ممبران ایک دوسرے کو طعنے دیتے رہے ۔ جیسے مِل مالکان سے تنگ آئے مزدور سائیکل پر گھر جا رہے تھے۔ راستے میں سائیکل پنکچر ہو گئی۔ ایک نے دوسرے سے پوچھا‘ کیا ہوا؟ دوسرا بولا، یہ بھی کوئی ملک ہے جہاں سب کے سامنے سائیکل پنکچر ہو جائے؟ پنکچر لگا کر جو حکومت بنائی گئی اس میں پنکچر شدہ جمہوریت کی پنکچر شدہ پارلیمنٹ کی سائیکل کی ہوا نکل گئی ہے۔ سارے حیرانی کی ایکٹنگ کر کے ایک دوسرے کا منہ دیکھ رہے ہیں۔ جیسے کہہ رہے ہوں یہ پنکچر کی ہوا نکلنے کی آواز کہاں سے آئی۔
ستاروں کے نشیمن پر کمندیں پھینکنے والو!
کبھی سوچا ہے تم، اس دور میں پرکھا، تو کیا نکلے
بھیانک ہو چکے ہیں رہزنوں کے خشمگیں چہرے
ضروری ہے کہ ان حالات میں اک رہنما نکلے

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں