میں سیاسی حکومتوں کے لئے پانچ سال والے لمبے عرصے کا مخالف ہوں۔ ساتھ ہی سینیٹ آف پاکستان اور صدرِ اسلامی جمہوریہ کے عہدوں کے لئے براہِ راست الیکشن کا حامی بھی ہوں۔ شہرِ اقتدار میں آج کل تیزی سے گردش کرنے والا سوال یہ ہے، کیا 2015ء الیکشن کا سال ہے؟
سپریم کورٹ آف پاکستان نے اس سال کی پہلی سہ ماہی میں تین اہم الیکشنی حکم جاری کیے اور چوتھے پر سرکار دو سالہ خرابی کے بعد ازخود رضامند ہو گئی۔ عدالتِ عظمیٰ کا پہلا حکم عشروں بعد ملک کے تینتالیس کنٹونمنٹ بورڈز کے الیکشن منعقد کرنے کے حق میں جاری ہوا۔ ساتھ ہی 25 اپریل کی تاریخ بھی طے ہو گئی۔ کینٹ ایریاز گنجان آباد ترین علاقوں میں شمار ہوتے ہیں‘ اس لئے بلاشبہ کروڑوں لوگ اس انتخابی عمل میں شامل ہوں گے۔ مثال کے طور پر Twin city پنڈی‘ اسلام آباد میں واہ کنٹونمنٹ بورڈ، چکلالہ کنٹونمنٹ بورڈ، ویسٹرج کنٹونمنٹ بورڈ راولپنڈی اور کوہ مری کا کنٹونمنٹ بورڈ شامل ہے۔ اسی طرح کراچی، لاہور، کوئٹہ، پشاور، ملتان سمیت باقی کنٹونمنٹ بورڈز بھی بھرپور آبادی رکھتے ہیں۔
عدالتِ عظمیٰ کا دوسرا حکم سارے صوبوں میں بلدیاتی انتخابات اسی سال منعقد کرانے کے لئے جاری ہوا‘ جس پر پنجاب اور سندھ کی حکومتیں ٹال مٹول کے ذریعے ڈھیلا ڈھالا‘ جیب کے رومال جیسا نظام لانے پر بضد ہیں۔ اس کے باوجود الیکشن تو الیکشن ہی ہو گا۔ امیدواروں میں سے کچھ تعداد احتساب، اپوزیشن اور فیئرپلے کو پسند کرے گی‘ لہٰذا عوامی نمائندگی کا راستہ کسی حد تک ضرور کھل جائے گا۔ اس کے ساتھ ہی وفاقی دارالحکومت میں 1979ء کے ایکٹ کے نفاذ کے بعد دوسری مرتبہ بلدیاتی الیکشن منعقد کروانے کے احکامات صادر ہوئے۔
اس سیاسی منظرنامے میں پورے پاکستان کے اندر انتخابی فضا کا پیدا ہونا قدرتی بات ہے‘ لیکن الیکشن کا اصل''ٹارگٹ‘‘ تو قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات ہیں۔ ان انتخابات کے بارے میں مختلف آوازیں اُٹھ رہی ہیں، جنہیں دھاندلی کمیشن کے قیام کی طرح کسی قیمت پر ٹالا نہیں جا سکتا۔ مثال کے طور پر کراچی آپریشن کے بعد کراچی کی تمام اپوزیشن پارٹیاں (ماسوائے ایک کے) مسلسل کہہ رہی ہیں کہ کراچی میں نئے انتخابات کرائے جائیں۔ گزشتہ الیکشن کے دوران کراچی میں ہونے والی منظم اور مسلسل دھاندلی کی نشاندہی ہر طرف سے ہوتی رہی۔ پھر ایسے الیکشن کی کیا اخلاقی اور قانونی حیثیت ہے جسے جیتنے والے کے علاوہ کوئی بھی فریق تسلیم کرنے پر تیار نہ ہو۔ اس طرح کے الیکشن تیونس کا بُو علی، مصر کا حُسنی مبارک اور شام کے کیپٹن حافظ الاسدکا بیٹا بشارالاسد ہر دفعہ بلامقابلہ لڑتے آئے ہیں‘ جس میں وہی امیدوار، وہی الیکشن کمیشن، وہی ریفری، وہی کھلاڑی اور خود ہی امپائر کی ایکٹنگ کا مزا بھی۔
پاکستان ان ملکوںمیں سے ایک ہے جہاں عوام کی سوچ میں تبدیلی طوفان کی رفتار سے آگے بڑھ رہی ہے۔ سوشل میڈیا نے میڈیا کو قابو رکھنے کے سارے حربوں کا جنازہ نکال دیا ہے۔ اب جس کے پاس سمارٹ فون ہے وہ صحافی ہے، بلکہ اینکر پرسن بھی۔ مجھے کہنے دیجیے کہ درحقیقت رپورٹر اور ایڈیٹوریل انچارج بھی۔ ازخود سمارٹ فون بکری سے کیا‘ مرغی سے بھی سستے ہیں۔ بکری خریدنے کے لیے بکرا منڈی ڈھونڈنا پڑتی ہے جبکہ مرغی کی خریداری کے لیے کنٹرولڈ شیڈ تک جانا پڑتا ہے۔ سمارٹ فونز کے ٹھیلے آلو کی ریڑھیوں سے بھی زیادہ آباد ہو گئے ہیں۔ یادش بخیر پچھلے دو انتخابات میں دھاندلی شدہ الیکشن میں ووٹوں کی چوری کے بے شمار ویڈیو مناظر سوشل میڈیا پر اپ لوڈ ہوئے۔ اس تصویری گواہی کے ذریعے ووٹوں کی چوری اور ڈکیتی کے بے شمار ثبوت سامنے ہیں۔ وفاقی حکومت اور اس سے بھی زیادہ جمہوری الیکشن کمیشن کہتا ہے کہ اگر کسی کے پاس دھاندلی کا ثبوت ہے‘ تو وہ پیش کرے۔ ساری دنیا واقعاتی شہادتوں، فرینزک سائنس ثبوت اور ٹیکنیکل سہولیات کے ذرائع پر زیادہ انحصار کرتی ہے‘ جس کی وجہ بڑی سادہ ہے اور وہ یہ کہ آدمی گواہی دیتے وقت جھوٹ بول سکتا ہے‘ کیمرہ، فنگر پرنٹس اور ڈی این اے جھوٹا نہیں ہو سکتا۔ ان حالات میں سابق سیاسی چیف جسٹس کے دباؤ میں الیکشن کے ریٹرننگ افسروں کا طرزِ عمل اور بھی مشکوک لگتا ہے۔ اس بحث اور سارے دلائل کو ایک طرف رکھا جا سکتا ہے اور وہ بھی اس لیے کہ جب الیکشن تنازع کے دو سال بعد وفاق اور صوبوں میں اقتدار کی کرسیوں سے چمٹے ہوئے خود یہاں تک پہنچ جائیں کہ آئیے تحقیق کرتے ہیں‘ دھاندلی کا سائز کیا تھا‘ پھر مزید کِس ثبوت کی ضرورت باقی بچتی ہے؟
ایشین ڈویلپمنٹ بینک نے ایوب خان کی طرح ترقی کے جھوٹے دعووں کی قلعی کھول دی۔ گزشتہ دو سال حکومت کہتی رہی ملکی ترقی کی رفتار 5 فیصد سے زیادہ ہو جائے گی۔ پچھلے سال تو کیا اس مالی سال بھی حکومت شرح نمو کا یہ ٹارگٹ پورا نہیں کر پائی۔ عوام کے لیے ریلیف غائب۔ امیر زادوں کے لیے ڈالروں سے اُبلتے کنٹینر اور بریف کیس۔ امیروں کے پاکستان میں ڈالر اُٹھانے والی بھی حسینائیں۔ غریبوں کے پاکستان میں سکول اور ہسپتال‘ گندگی اور غلاظت کے ڈھیروں میں ڈوب چکے ہیں۔ چند روز پہلے مجھ سے ایک سابق صدر پاکستان نے پوچھا: نظام پر تمہارا کیا تبصرہ ہے۔ میں نے کہا: کِس نظام کی بات کرتے ہو‘ فلمی کریکٹر ''نظام لوہار‘‘ کبھی نہیں مرا‘ سیاسی نظام کا تابوت بھی گل سَڑ چکا ہے۔ اب تو عوام اس کی بدبو سے تنگ ہیں۔ الیکشن کا عرصہ کم کیے بغیر مافیاز کی طاقت کم نہیں ہو سکتی۔ سرمایہ دارانہ نظام نے امیروں کے لیے الگ سیکٹر، بستیاں اور شہر آباد کر دیے‘ جہاں غریب پاس، پرمٹ، شناخت نامے نما ویزے کے بغیر داخل ہی نہیں ہو سکتے‘ جبکہ غریب اپنی غریبی کو قومی وسائل پر قابض قبضہ گروپوں کی کارستانی نہیں اپنی تقدیر سمجھتے ہیں۔ اس تقدیر میں تبدیلی کا ہومیوپیتھک ہی سہی آئینی راستہ جلد الیکشن سے کھلتا ہے۔ اسی لیے فیصلہ سازوں میں اس کی گفتگو جاری ہے اور قبضہ گروپوں میں اس کی دہشت کی لہر کا اثر قابلِ دید ہے۔
23 مارچ کے قومی دن کے لیے صدر کی تقریر ڈیزائن کرنے والوں میں سے ایک نے کئی چیزوں کا کریڈٹ مانگا۔ ان میں سے ایک یہ بھی کہ حکومت کی انتہائی غیر مقبولیت کو چھپانے کے لیے فوج بہترین ڈھال ہے۔ اس لیے موصوف نے یہ دعویٰ کیا کہ میں نے ہی وزیر اعظم کو کہا ہے‘ جہاں جاؤ جنرل راحیل کو ساتھ رکھو۔
پاکستان کے پاس دو میں سے ایک آپشن کھلا ہے۔ افراد کی کاروباری سیاست بچاؤ یا ریاست۔ جو ریاست کو ڈالروں سے بھری چراگاہ سمجھتے ہیں‘ انہوں نے اپنا نام خادم رکھ لیا ہے‘ اپنے مفادات کا نام آئین اور پانچ سالہ ٹرم پوری کرنے کا نام جمہوریت۔ مادر پدر آزاد جمہوریہ کو پسند کرنے والے شہزادے عوامی ریلیف کا ایک اور دروازہ بند کرنا چاہتے ہیں:
جس نغمۂ پُرشوق میں تاثیر نہیں ہے
کچھ بھی ہو مگر لائقِ توقیر نہیں ہے
اس بات کو اب کوچہ و بازار میں لکھ دو
یہ ملک کسی شخص کی جاگیر نہیں ہے
بنتی ہی نہیں بات کسی کرب و بلا میں
سینہ میں اگر جذبہ شبیرؓ نہیں ہے
دیکھے ہیں بہت میں نے فقیہانِ سیہ مست
ان میں کوئی اسلاف کی تصویر نہیں ہے
ملتان کی مٹی ہو کہ لاہور کا پانی!
اس کھیپ کی تقدیر میں تعمیر نہیں ہے