دامن یا چِنگاری

مڈل ایسٹ میں ایک کے بعد دوسری بربادیوں کے آغاز کا سال ہے 1979ء۔ جنوب مشرقی ایشیاء میں عدم استحکام کی لہر بھی اسی سال کی دَین ہے۔ آپ اس کھیل کو سمجھنا چاہتے ہیں تو ایک تصنیف ضرور پڑھیں۔ یہ دو لکھنے والوں کی جادو اثرمشترکہ کتاب ہے لیکن شہرت کا ہُماصرف یار سلوو ٹروفیموف کے حِصّے میں آیا۔ مصنف تہلکہ خیزکہانی میں یہ بھی بتاتا ہے کہ اہم ترین معلومات کس طرح مشرقِ وسطیٰ کے شہزادوں اور شاہی محلات تک رسائی رکھنے والے کرداروں کونقد رقم دے کرخریدیں۔ کتاب کا نام ہے: '' سیج آف مکہ‘‘(Siege of Mecca)۔
1979ء کا سال حیرتوں کی داستان تھا‘ پاکستانی قوم کے لیے۔ سال کے آغاز میں امریکہ نے مقدس جنگ سپانسر کرنا شروع کی۔ اسی سال جزیرہ نما عرب کے مشہور عتیبی قبیلے کے ایک سرپھِرے نوجوان جُہیمان العتیبی کی بغاوت سامنے آئی۔اسی سال پنڈی اسلام آباد میں ایک ہی وقت میں دو ایسے واقعات ہوئے جنہوں نے پاکستانی سماج کا مستقبل بدل دیا۔پہلا وطن ِ عزیز کے آمرِ مطلق ضیاء کا سائیکل چلانے کا شوق‘ جس کے لیے دارالحکومت کے محافظ سفید کپڑوں میں پنڈی کینٹ کی مرکزی سڑک پر تعینات کر دیئے گئے۔ عین اُسی وقت حرمِ کعبہ شریف پر قبضے کی خبر بریک ہوئی۔ اسلام آباد میں بپھرے ہوئے لوگوں کے ہجوم نے امریکی سفارتخانہ جلا دیا۔ پنڈی‘ اسلام آباد کی طرح آپس میں جڑے ہوئے اور گڈمڈ، ان دونوں واقعات کا ''پاکستانی ورژن‘‘ ہم سب جانتے ہیں‘ لیکن بہت کم لوگوں کو پتہ ہے کہ اس کے عالمی ایڈیشن کا سکرپٹ کس نے لکھا؟ چارلی وِلسن نے ہمارے مغربی بارڈر کے لیے جو جنگ ڈیزائن کی‘ یہ واقعات اُس جنگی ٹرین کے لیے پٹڑی ثابت ہوئے۔ کسی نے خوب کہا ؎
پھر یوں ہوا کہ ہم پہ وہ دیوار آگری
معلوم کب ہوا پسِ دیوار کون تھا؟
اطلاعات تک رسائی نے سازشوں اور اُن کے بڑے کرداروں کے چہروں سے نقاب نوچ ڈالے ہیں‘ اس لئے دنیا کو آگ، خون، کلاشنکوف، ہیروئن، لاشوں، بیوائوں، یتیموں، معذوروں کا ''تحفہ‘‘ دینے اور عوام کو غربت کی لکیرسے نیچے زندگی گزارنے پر دھکیل دینے والے مجرم اب پہچانے جا سکتے ہیں۔
مشرقِ وسطیٰ کے کئی ملکوں میں ملوکیت ختم کر کے ترقی پسند حکمران بر سراقتدار آئے۔ وہاں مکمل جمہوریت تو نہ آ سکی لیکن ان حکمرانوں نے مغرب ،اسرائیل اور امریکہ کی خواہش کے برعکس اپنی اپنی مسلح فوج منظم کی۔مثال کے طور پر مصر میں جنرل نجیب اورجنرل جمال عبدالناصر، تیونس میں حبیب بورقیبہ، الجزائر میں بومدین، سوڈان میں حزب الامّہ‘ عراق میں صدر صدام حسین اور لیبیا میں کرنل معمرالقذافی شہید۔ مگر1979ء کے ایکشن کا ''ری پلے‘‘ ترقی پسند ایفروعرب ریاستوں پر قیامت بن کر ٹوٹا ۔ تیونس سے شروع ہونے والی ''بہارِعرب‘‘ نے سوشلسٹ خیال کے حامی عرب اور افریقی ملکوں میں خون کی ندیاں بہا دیں۔ تازہ تاریخ کے تصویری خبرنامے سامنے ہیں‘ لیکن ایک چیز نے قدیم تاریخ دوبارہ تازہ کردی۔ وہ یہ کہ صدام حسین سے معمر قذافی تک ہر حکمران نے اپنی زمین پر غیر ملکیوں کے حملوں کے خلاف لڑ کر مرناتو قبول کیا، لیکن دھرتی ماں چھوڑ کر بھاگے نہیں۔ان حکمرانوں کا طرزِ حکمرانی نہ میرا آئیڈیل تھانہ پسندیدہ‘ اس کے باوجود انہوں نے آنے والی کئی صدیوںتک عرب مائو ں کو بچوں کو سنانے کے لیے بہادری کی داستانیں اور نئی لوریاں پیش کیں‘ ورنہ لارنس آف عریبیہ سے جنگِ خلیج اول تک بادشاہ اور شہزادے جنگ چھِڑتے ہی سونے کے پروں والے جہازوں میں بیٹھتے اور اچھے وقت کے انتظارمیں ہم وطنوں کو چھوڑ کر بھاگ جاتے‘ ا یسے بھگوڑوں کی تاریخ غیر ملکوں میں پناہ کی عبرتناک داستان ہے۔
عرب کے ایک انقلابی شاعر نے کائنات میں زندہ رہنے کا آفاقی اصول صرف ایک شعر میں یوں سمو دیا۔
ھُو الکون حَییٌ، یُحِبّ الحَیاۃٌ
وَ یَحتقَر اَلَمیّت، مَہماَ کَبَر
ترجمہ: یہ کائنات زندہ ہے اور زندوں کو پسند کرتی ہے۔میت چاہے جتنی بڑی ہو وہ اِسے حقارت سے پرے پھینک دیتی ہے۔
تازہ ترین تاریخ میں یمن کے40سالہ باغی انورالعولاقی کا ذکر آتا ہے‘ جو30ستمبر 2011ء کے روز امریکی ڈرون کے حملے سے مارا گیا۔ڈرون واردات پر امریکی انتظامیہ کے خلاف پہلی ایف آئی آر درج ہوئی۔اُس کا مدعی یمنی شہری انورالعولاقی کا بھائی ہے ۔ مخصوص تجزیہ کار یہ جھوٹا تاثر دینے میں مصروف ہیں کہ یمن کی صورتحال میں امریکہ کا کوئی ہاتھ نہیں ۔یہ بات واقعاتی طور پر بھی غلط ہے اور عملی طور پر بھی‘ جس کے ثبوت یہ ہیں۔
اولاً، یمن اور سعودی عرب کے درمیان تازہ تنازعہ تب شروع ہواجب یمن کی شخصی حکومت کا سربراہ علی عبداللہ صالح زخمی ہو کر یمن کے دارالحکومت صنعا سے بھاگ کر سعودی دارالحکومت ریاض میں داخل ہوا۔اس سے پہلے یمن اور سعودیہ کے درمیان تصادم یا حملے تک پہنچنے والا کوئی عسکری تنازعہ (Escalation) موجود نہیں تھا۔یہاں یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ سعودی حکومت علی عبداللہ صالح کی نہ سیاسی ہم خیال تھی نہ ہی ہم مسلک‘ کیونکہ سعودی عرب میں مکمل بادشاہی نظام ہے اور وہاں کوئی ایک سیاسی پارٹی بھی موجود نہیں‘ جبکہ یمن میں برائے نام سہی صدارتی انتخابات منعقد ہوتے تھے۔
دوسرے یہ کہ امریکہ نے یمن کے قبائلی علاقوں میں حالیہ واقعات سے تقریباً آٹھ سال پہلے ڈرون حملے شروع کر رکھے تھے۔یہ حملے جہاں ایک طرف یمن کی خودمختاری پر عملی جارحیت کا ثبوت ہیں‘ وہاں یہ بات بھی یاد رکھنے والی ہے کہ یمن کٹے پھٹے خشک پہاڑوں میں بسنے والے قبائل کا ایسا ہی علاقہ ہے جیسا افغانستان ۔
تیسرے، انورالعولاقی کو نائن الیون حملوں کے ہائی جیکرز کا استاد کہا گیا ۔اس کے پاس یمن اور امریکہ کی دوہری شہریت تھی۔ اس کا تعلق یمن کے صوبہ الجوف سے تھا جہاں ''جہنم کی آگ‘‘ نامی امریکی میزائل نے اسے نشانہ بنایا ۔یہ بات بھی ریکارڈ پر ہے کہ موجودہ امریکی صدر بارک اوباما نے اپریل 2010ء میں امریکہ کی سینٹرل انٹیلی جنس ایجنسی کوا نورا لعولاقی کو مارنے کی باقاعدہ اجازت دی۔ اس کا نوجوان لڑکا انور العولاقی کے قتل کے دو ہفتے بعد امریکی ڈرون کے ذریعے ہی مارا گیا‘ لہٰذایہ کہنا بالکل غلط ہے کہ یمن کی لڑائی میں امریکہ کا کوئی کردار نہیں ہے۔
مشرقِ وسطیٰ کی سیاست میں خلیجِ عرب اور خلیجِ فارس دونوں سے زیادہ بڑا سیاست کار امریکہ ہی ہے ۔یہ کردار امریکہ نے Kingdom of heavenیعنی جنت کی بادشاہی کے علاقے فلسطین میں پچھلی صدی کے پانچویں عشرے میں اسرائیل کی تخلیق کے ذریعے سنبھالا۔اگر تعصب کی عینک اتار کر دیکھیں تو آج اس جنگ کے دونوں طرف ''کمانڈ‘‘ امریکہ کے ہاتھ ہی میں ہے۔ شام میں ایک طبقے کی سرپرستی‘ یمن میں کسی دوسرے کی سرزنش۔ خلیجِ عرب میں کسی کو شاباش اور خلیج فارس میں کسی سے ایٹمی مذاکرات ۔پھر یہ بھی طے شدہ حقیقت ہے کہ امریکہ نے جہاں بھی جنگ چھیڑی وہاں پہلے خود براہ راست ملوث نہیں ہوا بلکہ اس کے علاقائی نمبردار اس کے لیے میدان جنگ ہموار کر دیتے ہیں۔
حبیب جالب کے چند شعر بِلا تبصرہ ۔مگر اہم سوال... اسرائیل کی خاموش ڈپلو میسی کو آپ کیا نام دیں گے؟ ہماری جنگ زدہ قوم کی ترجیح کیا ہو گی؟ دامن یا چِنگاری...؟
شیوخ و شاہ تو ہیں خُود شریکِ ظلم و ستم
شیوخ و شاہ سے رکھّو نہ کچھ اُمیدِ کرم
امیر کیسے نہ واشنگٹن کے ساتھ رہیں
انہی کے دم سے ہیں ساری امارتیں ہمدم
یہ مانگتے ہیں دعائیں برائے اسرائیل
کہ اسرائیل سے ہیں بادشاہتیں قائم
غرض انہیں تو فقط اپنے تخت و تاج سے ہے
انہیں شہید فلسطینیوں کا کیوں ہو غم...؟
یہ بندگانِ زرو سیم ہیں خدا کی قسم

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں