پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس زیادہ زوردار ہونا چاہیے۔اس کے علیحدہ علیحدہ ایوان ملتے ہیں تو کچھ ہی ایسی آوازیںسنائی دیتی ہیںجن میں لفظ عوام بولا جاتا ہے‘ لیکن یہ حادثہ ہے یا ظالمانہ طرزِعمل ہے کہ جب دونوں ایوان اکٹھے ہوتے ہیں تو یہ آوازیں دبا دی جاتی ہیں ۔یہ حادثہ اتفاقیہ برپا نہیں ہوتا بلکہ اس کا باقاعدہ اہتمام کیا جاتا ہے ۔ملک کا سب سے مضبوط ادارہ پارلیمنٹ اسی لیے بے توقیر اور بے حیثیت ہو کر رہ گیا ۔
سوموار کے دن وکالت نامہ اور پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس‘ دونوں آپ کے سامنے ہوں گے۔ پارلیمنٹ کے ممبر کی حیثیت سے ایک عشرے سے زائد تجربات کی روشنی میں کچھ چیزیں آپ سے شیئر کرنا چاہتا ہوں۔ آپ سوچ رہے ہوں گے کہ کوئی آواز دبائی جائے اور وہ بھی پارلیمنٹ کے اندر، یہ کیسے ہو سکتا ہے؟ بظاہر اس دلیل میں بڑا وزن نظر آتا ہے‘لیکن مفاہمت کے نام پر منافقت سے بھر پور ''مُک مُکا ‘‘والا پارلیمانی نظام اس کی گارنٹی دیتا ہے۔آئیے یہ جان لیں کہ کیسے؟
1: سیاسی جماعتوں کے پارلیمانی درباری ایسے اجلاسوں کا یجنڈا ایک دوسرے کوا کاموڈیٹ کر کے تیار کرتے ہیں‘ جس کے لیے صرف مشاورت ہی نہیںبلکہ اس میں قیمت بھی شامل ہوتی ہے اور یہ قیمت طے کرنے کا فارمولا بہت ہی سادہ ہے یعنی حصّہ بقدرِ جُثہ کے عین مطابق‘ اور پارلیمانی جمہوریت کی روح کے عین مطابق۔
2: اسمبلیوں کے اجلاس سے پہلے ہاؤس بزنس ایڈوائزری کمیٹی بلائی جاتی ہے ۔جس کا اجلاس بڑے کمیٹی روم میں سرکاری خرچ پر منعقد ہوتا ہے۔نفیس مِنی پیسٹریاں، سمارٹ اور سلِم سینڈوچ ،چکن کیوب، فنگر فِش اور قیمے اور پنیر سے تیار کردہ چھوٹے سموسے گرم کافی کے کپ کے ساتھ اس کا ایجنڈا نمبر ایک اور دو ہوتے ہیں‘ جس کا بِل غریب عوام کی جیب سے کاٹا جاتا ہے ۔ایسے ہر اجلاس میں تین سے چار وزراء شرکت کرتے ہیں تا کہ اپوزیشن ارکان کے ''مسائل‘‘ ایڈوانس ہی حل کیے جاسکیں۔میں نے جس کو مسائل لکھا ہے آپ اسے درحقیقت ذاتی مطالبات یا شخصی کام بھی کہہ سکتے ہیں۔
گزشتہ ہفتے سپریم کورٹ آف پاکستان میں ایک دلچسپ مکالمہ ہوا ۔میں صوبہ بلوچستان کی اسمبلی کے ایک ایم پی اے کے خلاف صادق اور امین کی بنیاد پر نا اہلی کے مقدمے میں وکیل تھا۔چیف جسٹس ناصر الملک اور جسٹس اعجاز چوہدری پر مشتمل بنچ نے مجھ سے ایک دلچسپ سوال کیا ۔بنچ نے پوچھا: آپ نے بطوروزیرِ قانون آئین میں ترامیم کیں ۔کیا اس وقت 62,63زیرِ بحث نہیں آئے؟ میں نے جواباً کہا: آئینی کمیٹی میں آرٹیکل 62اور63زیرِ بحث آئے تھے‘ وہاں جو سیاسی پارٹیاں صادق، امین اور پارسا جیسی شرائط کو شرعی تقاضا کہہ رہی تھیں وہ الیکشن کے دوران ان شرائط کے نام سے کانپ اُٹھتی ہیں ۔
3: اب آئیے اس واردات کی طرف جو مشترکہ اجلاس کے موقع پر ڈالی جاتی ہے اور وہ یہ کہ ایوان کا پریزائڈنگ آفیسر سیاسی جماعتوں سے مقررین کی لِسٹ طلب کرتا ہے ۔لِسٹ میں موجود پارلیمانی لیڈروںسے تقریروں کا آغاز کرایا جاتا ہے‘ جن کی 99فی صد تقریریں اصل موضوع کے علاوہ دنیا کے ہر موضوع پر ہوتی ہیں۔پھر ان تقریروں کے بعد لذیز کھانا ،قہقہے اور ملاقاتوں کے دور چلتے ہیں۔ اگر کوئی رُکن پارلیمنٹ اپنی سیٹ کا بٹن دبا کر کھڑا ہو جائے اور سپیکر سے کہے کہ وہ بولنا چاہتا ہے تو سپیکر اسے ٹرک کی بتی کے پیچھے یوں لگا دیتا ہے: ''محترم ممبر صاحب! میں آپ کی بات سنوں یا آپ کی پارٹی کی۔ پہلے جن کے نام دیئے گئے ہیں‘ ان کی تقریریں ہوں گی ان کے بعد آپ کو ''چانس‘‘ ملے گا۔‘‘تین یا چار دن تک ڈھیلا ڈھالا پھیکا بد مزہ اور زمینی حقائق سے لاتعلق اجلاس بولنے کے اکثر خواہشمندوںکو تھکا دیتا ہے۔ اس طرح جمہوریت کو منہ کی کھانی پڑتی ہے اور اسے ڈی ریل کرنے کی کوشش ناکام بنائی جاتی ہے۔
میں نے بھی پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں شرکت کرنی ہے لیکن ابھی تک پارلیمنٹ سمیت کسی ذریعے سے ممبران کے پاس اجلاس بلائے جانے کی وجوہ کا نوٹس پہنچا‘ نہ ہی اجلاس کا ایجنڈا۔اس کی تین وجوہ میں نے اوپر کھل کر لکھ دی ہیں‘ جس کا صاف مطلب یہ ہے کہ پارلیمنٹ کا یہ مشترکہ اجلاس بھی ویسا ہی ہو گا جیسا ہر مشترکہ اجلاس ہوتا آیا ہے ۔مجھے یہ خبر بھی ملی کہ مشترکہ اجلاس صبح اور سینیٹ کا اجلاس اسی شام کے لیے طلب کیا گیا ہے۔خدا کرے کہ یہ خبر غلط ہو کہ سینیٹ کا اجلاس بھی ''نورا مصالحت‘‘ کا شکار ہو جائے گا‘ جس میں اجلاس تو ہو گا مگر رسمی تلاوت تک۔اس کے بعد یہ ملتوی ہوتا رہے گا۔
یہاں بر سبیلِ تذکرہ تھوڑا سا تقابلی جائزہ لینا مناسب ہے۔ اگر آپ برطانیہ، بھارت، امریکہ، فرانس، جرمنی، روس، جاپان، کوریااور ملائیشیا کے پارلیمانوں کا جائزہ لیں تو وہ شان و شوکت میں ہمارے پارلیمان کے نوکر یعنی خادمِ اعلیٰ دکھائی دیتے ہیں۔ ہماری لابیاں ان سے سینکڑوں گُنا بڑی‘ ہماری کرسیاں بادشاہانہ۔ ان کے ہاں پھٹیـ نُما بنچ‘ جن پر بیٹھ کر نیند تو پوری نہیں کی جا سکتی لیکن صرف اُچھل اُچھل کر بولا جا سکتا ہے۔ ہمارے پارلیمان میں قائداعظم والی شیروانی چپڑاسی پہنتے ہیں‘ جناح کیپ دربا ن جبکہ پنجاب کا کُلہ دروازے کھولنے اور کرسیاں کھینچ کر صاحب کو بٹھانے والے اہلکار پہنتے ہیں۔ اپنی پارلیمنٹ میں نئی سے بھی نئی گاڑی،جدید سے جدید تر لباس، فلمی بناؤ سنگھار اور ڈرامائی پروٹوکول ملتا ہے۔اس کے مقابلے میں باقی دنیا کے پارلیمانوں کے رکن ہم سے حسد کر تو سکتے ہیں ہمارا مقابلہ کبھی نہیں کر سکتے۔
ہاں البتہ ایک بات میں یاد کرا دیتا ہوں ۔وہ یہ کہ یہ ساری نوابی اور بادشاہی ہم ان ملکوں سے قرضہ لے کر کرتے ہیں جن کے پارلیمنٹرین ہماری شاہی عادتوں کے ''متاثرین‘‘ کی صف میں شامل ہیں ۔پنجابی کا ایک بڑا پُرانا محاورہ یہ ہے ''خاناں دے خان پروھنے‘‘ اس کا مطلب ہے کوئی خان ہی خان کا مہمان بن سکتا ہے ۔کون نہیں جانتا ہمارے حکمران بادشاہوں اور شہزادوں کے پسندیدہ مہمان ہیں۔ ایسے مہمان‘ جنہیں پاک سر زمین پر کسی لوکل محل میں سرور نہیں ملتا ۔اس لیے ہماری شاہانہ عادتوں کی وجہ بڑی جائز ہے۔ کسی زمانے میں بگڑے ہوئے 20خاندان ہوا کرتے تھے ۔ اب یہ خیر سے 2ہزار تک پہنچ گئے۔ایک بھائی اسمبلی میں، دوسراپولیس ،تیسرا کسٹمز ،چوتھا ایف آئی اے، پانچواں سِول سروس۔باقی جو بچتا ہے اُسے عام آدمی کہا جاتا ہے(I mean mango People)۔ 2ہزار بادشاہوں کے مشترکہ دربار میں 18کروڑ لوگوں کے لیے یہ حصہ کافی نہیں؟ باقی بچے فیصلے تو وہ پارلیمنٹ میں نہ پہلے ہوتے تھے اور نہ اب ہوں گے۔ بھلا پارلیمنٹ بھی کوئی فیصلہ کرنے کی جگہ ہے۔یہاں لوگ لمبی تان کر تھکن اُتارتے ہیں:
ابھر آئی ہے سچی بات تشبیہوںکے پردے سے
فسانے ہیں کہ ڈھلتے جا رہے ہیں استعاروں میں
وفا غائب، حیا عَنقا، سِتم حاضر، غضب وافر
خدا رکھّے بہت سی خوبیاں ہیں شہریاروں میں
یہ مصرع ایک مل اونر کے دروازے پہ لکھا تھا
خدا کے خوف کی پر سش نہیں سرمایہ داروں میں
حکایت ہے کہ ان سے سو قدم بھی اٹھ نہیں سکتے
روایت ہے کہ ناہنجا ر بھی ہیں شہسواروں میں
مجھے اندیشۂ شاہانِ دوراں ہو نہیں سکتا
کہ میں ہوں سرورِ کونین ؐکے مدحت گزاروں میں