چائلڈ آف وار

پارلیمنٹ کے مشترکہ سیشن میں میری نشست اپوزیشن لابی کے دروازے کے عین سامنے ہے۔پہلے دن کا اجلاس دھوکہ سیشن کہلائے گا۔دوسرا گو نگلو نشست۔ اس سے آگے سب نورا ہی نورا۔
تقریباََ ایک کروڑ روپیہ روزانہ کے خرچ سے بیٹھنے والے پارلیمنٹ کے مشترکہ سیشن کے فلور کا آنکھوں دیکھا حال بعد میں پہلے پارلیمنٹ پر عوام کے اعتماد کی ایک داستان ۔میرے چیمبر میں میرے سامنے عطاء خان بیٹھا تھا۔ ایک شہید کا بھائی ۔ایسے شہید کا جس نے پاکستان میں سیاسی مزاحمت کے ذریعے عوامی بالادستی کی تازہ مہم میں جان ہم وطنوں پر قربان کی۔فیصل آباد کا حق نواز شہید جو ابھی زندگی کی صرف بیس سے کچھ ہی زیادہ بہاریں دیکھ سکا تھا۔ عطا کہنے لگا، سر جی! حکومت کہتی ہے سارے مسائل کا حل پارلیمنٹ میں تلاش کرو ۔مجھے یہ بتائیں پارلیمنٹ میرے لیے کیا کر رہی ہے...؟ پھر اس نے اپنے چھ فُٹے قد کے نوجوان بھائی کے آخری دن کی تصویر نکالی اور میرے سامنے رکھ دی۔
وہ تھیلے کھولتا چلا گیا ۔پہلے میں سارے ٹی وی چینلز کے ویڈیو کلپس پر مشتمل سی ڈیز۔ دوسرے تھیلے میں حق نواز کے قتل والے دن کے اخباری تراشوں کے بنڈل۔تیسرے میں قتل کے نامزد ملزم اور ان کے نامزد سرپرستوں کی دوستانہ تصویریں۔چوتھے میں دستاویزی شہادتوں کے پلندے۔ پانچویںتھیلے میںواقعاتی ثبوتوں کی بھرمار۔عطا پھر بولا: یہ سب نہ توجے آئی ٹی والے دیکھنے کے لیے تیار تھے۔ نہ ہی ایوان ِ اقتدار کی زنجیر ِ عدل اس پر دھیان دیتی ہے‘ نہ ان ثبوتوں کے داخلے کے لیے انصاف کے کسی مندر کا دروازہ کھل سکا۔ میرے پاس کسی سوال کا جواب نہ تھا۔
میں پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کے پہلے دن اپنی نشست پر بیٹھا تو میرے ذہن میں فیصل آباد کے حق نواز شہید کی کہانی تھی۔ اتنی دیر میں دو درجن زنانہ آوازوں میں نعرہ بلند ہوا‘ آیاآیا شیر آیا ۔ پھر گو عمران گو کے نعرے اس میں شامل ہو گئے۔ اُس کے بعد بے دِلی سے چند آوازیں آئیں گو نواز گو۔ جس پارٹی نے واک آئوٹ کرنا تھا وہ عین میری نشست پر گھیرا ڈال کر کھڑے ہو گئے ۔
اسی دوران میرے اٹک قلعے کے دیرینہ کلائنٹ اور کے پی کے‘ کے سابق وزیرِاعلیٰ امیر اعظم خان ہوتی نے ہاتھ ملایا اور کہا ''سر آپ میری نشست پر آجائیں ‘‘۔ میں نے کھڑے ہو کر دیکھا کہ پورے ملک کی قومی قیادت یا سیاسی اشرافیہ تین حصوں میں تقسیم ہے۔ پہلے وہ جو یمن کے مسئلے کے حل اور یثرب و حجاز کے تحفظ کے لیے بلائے گئے اجلاس میں ایک دوسرے کی بے عزتی کر رہے ہیں۔ دوسرے وہ جو اس ''بے عزتی میلہ‘‘ کی خوشی میں تقریباً ناچنے کے انداز میں ایک دوسرے کو مبارکبا دیں دے رہے ہیں اور تیسرے وہ جو میرے سمیت فلور آف دی ہائوس پر چُلو بھر پانی تلاش کرتے رہے۔کیونکہ جدید پارلیمانی تاریخ میں ایسا پہلے کبھی نہیں ہوا کہ وزیرِاعظم اور کابینہ کسی پارلیمانی گروپ کو مطالبہ اور درخواست ہی نہیں بلکہ باقاعدہ التجا کر کے فلور پر لائیں اور پھر انہیں دھکے دے کر نکالنے کی ''اوور ایکٹنگ ‘‘بھی کریں۔ یہ کوئی راز کی بات نہیں کہ پارلیمنٹ کا اجلاس منعقد کرنے کے لیے ہر روز سینکڑوں خفیہ اہلکاروں کے علاوہ ہزاروں باوردی آن ڈیوٹی اہلکار‘ سینیٹ کے ملازمین ،اسمبلی سیکر ٹریٹ ،سرکاری خرچ پر اسمبلی تک پہنچنے والے ارکانِ پارلیمنٹ‘ اسمبلی سیشن کے دوران'' ڈبل اعزازیہ‘‘ لینے والے وزارتوں اور مختلف ڈویژنوں کے بیوروکریٹ اور ملازم‘ سینکڑوں صحافی ارکان ،گاڑیاں ، موٹر سائیکل ، جھنڈے والے درجنوں اسکارٹ‘ بجلی کے ہزاروں بلب،اسلام آباد کے ایک مکمل سیکٹر جتنی بڑی بلڈنگ میں ائیر کنڈیشننگ‘ گیس، پانی، سیوریج، صفائی، کھانا پینا، سب اخراجات شامل کریں تو یہ ایک کروڑ روپے روزانہ سے کہیں زیادہ کا بل بنتا ہے۔
پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کی ایک اور خاص بات یہ بھی ہے کہ اس کی کوریج کے لئے مغربی دنیا، بھارتی ذرائع ابلاغ ،جزیرہ عرب اور خلیج فارس کے ٹی وی اور ریڈیو اوراخبار کے نمائندے بہت بڑی تعداد میں پارلیمنٹ کی صحافتی گیلری اور دروازے پر موجودرہتے ہیں ۔ان کی نگرانی اور سکیورٹی پر نظر رکھنے کے لیے چند ناپسندیدہ ارکانِ پارلیمنٹ اور صحافیوں کے ٹیلیفون ریکارڈ کرنے اور ان کی جاسوسی کرنے پر اُٹھنے والے اخراجات اس کے علاوہ ہیں۔
اس قدر وسیع و عریض عالمی میلہ لگانے کے بعد حکومت نے قوم کے مستقبل اور پارلیمان کی آبرو کا جو بھرم رکھا ہے‘ ذرا اس کی تفصیل دیکھ لیں۔اجلاس کے دوسرے دن وزیراعظم کا پارلیمنٹ سے ابتدائی خطاب دو باتیں کہتا ہے۔ پہلی یہ کہ انہوں نے ترکی میں کچھ طے کیا ہے جس کے بارے میں وہ نہ پارلیمنٹ کوکچھ بتانے کو تیار تھے نہ ہی 18کروڑ لوگوں کو اس قابل سمجھتے ہیں کہ انہیں اعتماد میں لیں۔ دوسرے یہ کہ نواز شریف نے یہ بھی کُھل کر کہہ دیا، وہ پارلیمنٹ سے کوئی مینڈیٹ لینے کے موڈ میں نہیں ہیں۔ پارلیمنٹ چاہے تو ان کی خدمت میں اپنی سفارشات پیش کر سکتی ہے۔
مینڈیٹ اور سفارشات میں فرق مَیں آپ کو سمجھا دیتا ہوں۔ اگر پارلیمنٹ مینڈیٹ کسی قرارداد کی صورت میں دے تو حکومت پارلیمنٹ کے مینڈیٹ کی پابند ہو جاتی ہے لیکن اگر پارلیمنٹ حکومت کے نام کوئی سفارشی رُقعہ دے تو اس سفارش کا حشر اُس سفارش سے مختلف نہ ہو گا جیسا اسحاق ڈار کو بجٹ میں ریلیف کے لیے دی گئی‘ پارلیمنٹ والی سفارشات کا ہوا۔ اس لیے یمن پر فیصلہ وہ ہے جو کہیں اور ہو چکاہے ۔جس کا اصل مسودہ ترکی میں ہے ۔ جو ہوا اس کے علاقائی نمبردار اور ضامن کوئی اور ہیں ۔ہماری حکومت کا کام اس پر عملدرآمد کی گارنٹی دینا ہے اور اس کام میں پارلیمنٹ کی حیثیت وہی ہے جو ایبٹ آباد آپریشن کے وقت ایس ایچ او تھانہ کینٹ ایبٹ آباد کی تھی۔
عالمی برادری میں ہماری سفارتی حیثیت کاا ندازہ لگا نا ضروری ہے۔اس کو جانچنے کے لیے آپ اتنا سمجھ لیں کہ جن طاقتوں نے مِڈل ایسٹ میں اتحادی فوج بنا کر یمن کے حوثیوں پر بمباری کی اجازت دی‘ ان میں سے کسی نے عالمِ اسلام کی اکلوتی'' ایٹمی قوت‘‘کے لیڈروں کو نہ مشورہ کے قابل سمجھا اور نہ ہی یمن کرائسز کے حل کے لیے کسی اجلاس میں شرکت کی دعوت دی۔
میں اسرائیل کو عالمی استعمار کا ناجائز بچہ سمجھتا ہوں۔اس کے خلاف لکھنے اور بولنے کو فلسطینیوں کی جدوجہد میں اپنے حصّے کا فرض‘ لیکن کیا یہ حقیقت نہیں کہ اسرائیل کے سارے پڑوسی مسلم ممالک مصر سے لبنان تک اور اردن سے غزہ تک بلکہ قطر تک اس کے ساتھ سفارتی تعلقات بھی رکھتے ہیں اور مذاکرات بھی کرتے ہیں‘ لیکن یہ عظیم مسلمان دوست حکومتیں غریب ترین عرب ملک یمن میں گفتگو پر یقین نہیں رکھتے۔حالانکہ سب جانتے ہیں جو آگ اور بارود کی چنگاری عراق ایران جنگ کے ذریعے مشرق وسطیٰ میں پھینکی گئی تھی اس نے بیشمار بچے پیدا کیے ۔
ایک عظیم چینی جنگجو نے جو کہہ رکھا ہے اس کاا نگریزی ترجمہ یہ ہے۔
"Every war leaves behind its children and every conflict gives birth to child of war."
''ہر جنگ بچے پیدا کرتی ہے اور ہر تصادم کے نتیجے میں ایک تصادمی بچہ جنم لیتا ہے۔‘‘ پارلیمنٹ کے موجودہ سیشن کے تیسرے روز وزیراعظم نواز شریف اس قدر بور تھے کہ وہ اجلاس میں گنتی کے چند منٹ آئے ۔تجاویز کون پیش کرے گا اور کس کو...؟ کیونکہ تجاویز لکھنے والا ہی کوئی وزیر موجود نہیں ۔ موجودہ جمہوریت سرکار جمع اپوزیشن عرف ''تابعدار‘‘ کا مشترکہ ایجنڈا یوں ہے:
قوم برفابِ حرارت کے سوا کچھ بھی نہیں
ایک اندھے کی بصارت کے سوا کچھ بھی نہیں
خوفِ یزداں بھی غلط ،حاصلِ ایماں بھی غلط
دامنِ شب میں امارت کے سوا کچھ بھی نہیں
اس سیاست گہہِ دوراں میں عروج و اقبال
پادشاہوں کی سفارت کے سوا کچھ بھی نہیں
مصلحت کا یہ تقاضا ہے کہ خاموش رہو
شوقِ لیلائے وزارت میں وفا کوش رہو

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں