ہو گا کیا...؟اِسے چھوڑ دیں ۔پہلے یہ دیکھیں کہ کیا ہو چکا ہے...؟
پاکستان میں الیکشن کی تاریخ دو حصوں پر مشتمل ہے ۔پہلا 1973ء کا آئین بننے سے پہلے۔دوسرے وہ انتخابات جو موجودہ دستور کے تحت منعقد ہوئے‘ لیکن دونوں ادوار میں ایک حقیقت قدرِ مشترک ہے ۔ وہ یہ کہ الیکشن میں ہارنے والوں نے ہمیشہ دھاندلی کے الزامات لگائے‘ مگر دھاندلی کی تحقیقات کرنے کے لیے یہ ریکارڈ موجودہ جمہوریت کے حصے میں آیاکہ اس نے ''دھاندلی‘‘ کمیشن بنا دیا۔ ''دھاندلی کمیشن‘‘ کے لیے صدرِ پاکستان کو آرڈیننس جاری کرنا پڑا‘ جس پر عملدرآمد کی خاطر جس حکومت کا مینڈیٹ چیلنج ہوا اُسی کو سپریم کورٹ کے نام چٹھی بھیجی۔عدالتِ عظمیٰ نے چیف جسٹس کی سربراہی میں تین رکنی ''دھاندلی‘‘ کمیشن بنا دیا جس نے 45دن کے اندر انتخابی دھاندلی کی تحقیقات کر کے نتیجہ قوم کو بتانا ہے ۔
اگر پاکستان کے انتخابی قوانین کا سرسری جائزہ لیا جائے تو عوامی نمائندگی کے ایکٹ 1976ء اور آئین پاکستان میں دھاندلی کی تعریف دو نکات میں ملتی ہے۔ ان دو لفظوں میں سے کسی ایک میں بھی دھاندلی ثابت ہو جائے تو یہ ثبوت باعث تنازع الیکشن کو کالعدم قرار دینے کے لیے 100فیصد کافی ہے۔
دھاندلی ثابت کرنے والا پہلا قانونی تقاضا ہے‘ غیر قانونی طریقہء کار(Illegal Practices)۔ الیکشن ایک ایسی مشق ہے جس کے لیے انتخابی عمل حلقہ بندی سے شروع ہوتا ہے‘ پھر ووٹرز لسٹ بنتی ہے‘ کٹتی ہے اور اس پر نظر ثانی بھی ہوتی ہے۔ پھر انتخابی قواعد اور ضابطے بنتے ہیں۔یہ ضابطے کاغذاتِ نامزدگی سے لے کر اعتراضات تک اور پارٹی ٹکٹ جاری ہونے سے انتخابی نشان الاٹ ہونے تک الیکشن کو قانون کے دائرے میں رکھتے ہیں۔ امیدواروں کی اہلیت ،الیکشن کے اخراجات،انتخابی مہم کے قوانین ،انتخابی جلسے جلوس اور ریلیاں‘ سب مرحلے ضابطوں کے پابند ہیں۔ اسی طرح انتخابی عملے کی تعیناتی ،ان کی پوسٹنگ، ٹرانسفر، پولنگ سٹیشن کا چناؤ، انتخابی زبان، تقریریں، پولنگ سٹیشنز پر پابندیاں، قانون کے مطابق ووٹنگ، ضابطوں کے تحت انتخابی پرچیوں کا اجراء‘ اصلی انگوٹھوں کے نشان ،پریزائڈنگ افسروں کے دستخط تک الیکشن کا قانونی طریقۂ کار کہلاتے ہیں۔
پھر انتخابات کے فوراََ بعد ووٹوں کی درست گنتی،نتائج کو مرتب کر کے فارم نمبر 14میں ڈالنا‘ پریزائڈنگ آفیسرز کی طرف سے یہ تفصیلات فارم نمبر 15 میں منتقل کرنا اور انہیں ریٹرننگ آفیسرز ، ضلعی ریٹرننگ آفیسرز کے پاس بھجوانا۔ وہاں مسترد ووٹوں یا سارے ووٹوں کی گنتی جیسے مراحل ہمارے انتخابی قوانین کا تقاضا ہیں ۔ اس سارے عمل میں جہاں کہیں گَڑ بَڑ ہو یا کوئی کمی کوتاہی رہ جائے، اسے Illegal Practiceکہا جاتا ہے ۔
اس تناظر میں دیکھا جائے تو 2013ء کے جتنے بھی انتخابی حلقے آج تک کھلے ہیں‘ وہاں بدانتظامی اور غیر قانونی حرکتوں کے ڈھیر برآمد ہوئے۔اسی بنیاد پر پہلے وفاقی وزیرِ داخلہ نے کہا کہ اکثرانتخابی حلقوں میں آدھے سے زیادہ ووٹ ایسے ہیں جن پر ووٹروں کے انگوٹھوں کی شناخت ممکن نہیں ۔یہ پچھلے سال کا بیان تھا۔اس ہفتے وزیراعظم نواز شریف نے ہری پور میں ایک تقریب کے دوران یہ تک کہہ دیا کہ دھاندلی ہمارے ساتھ بھی ہوئی، لیکن ہم خاموش ہیں۔وزیراعظم کا یہ بیان بالکل ان تفتیش کاروں جیسا ہے جو کہتے ہیں ایئرپورٹ پر پکڑی گئی ماڈل کے پاس ڈالر تو غیر قانونی تھے ،لیکن یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ وہ اتنے ڈالر لائی کہاں سے...واہ کیا ایٹمی راز ہے...!
انتخابات کو کالعدم قرار دینے کے لیے دوسرا قانونی نکتہ کرپٹ طریقہ کار (Corrupt Practices) کے استعمال کا ہے۔یہاں کرپشن کا مطلب صرف مالی لین دین نہیں۔ بلکہ جو کوئی ضابطے سے تجاوز کرے، اسے کسی کے فائد ے یا کسی دوسرے کو نقصان پہنچانے کے لیے استعمال کرے‘ وہ بھی کرپٹ پریکٹسز کے زمرے میں آئے گا۔پھر یہ بھی پاکستان کا آئین ہی کہتا ہے کہ تمام وفاقی و صوبائی ادارے الیکشن کی تنظیم اور اس کے انعقاد کے لیے الیکشن کمیشن آف پاکستان کی معاونت کرنے کے پابند ہیں۔یہ دو معیار سامنے رکھ کر سابق چیف جسٹس کے ریٹرننگ آفیسرز سے خطاب کا جائزہ لیں تو الیکشن کو Illegal PracticesاورCorrupt Practices کے زمرے میں لانے کے لیے کسی مزید ثبوت کی ضرورت ہی باقی نہیں رہتی۔
گزشتہ تین دنوں میں ملک کی تین بڑی جماعتوں کی لیڈر شپ نے دھاندلی کمیشن والے آرڈیننس اور اس کے طریقہ کار کے حوالے سے مجھ سے تفصیلی رائے لی‘ جس کی بنا پر میں آسانی سے کہہ سکتا ہوں کہ 2013ء کے انتخابات میں دھاندلی کے حوالے سے 16اپریل سے ایسا پنڈورا باکس کھلے گا جس کا عنوان ہو گا ''پگڑی سنبھال جَٹاّ‘‘
دھاندلی کے عنوان سے جو آرڈیننس جاری ہوا اس نے کچھ باتوں کی تصدیق کر دی۔مثال کے طور پر یہی کہ پاکستان کی ساری سیاسی جماعتیں 2013ء کے الیکشن کو غیر شفاف سمجھتی ہیں ۔خاص طور پر وہاں جہاں ان کو شکست ہوئی ۔الیکشن کمیشن کو چاہیے تھا کہ وہ آئینی تقاضا پورا کرتے ہوئے ایسی سیاسی جماعتوں کے دھاندلی والے بیان کی تصدیق کرواتا۔ پھران بیانات پر انحصار کرتے ہوئے ملک میں نئے سِرے سے درمیانی مدت کے انتخابات کروا دیتا۔اس کے بعد نہ کوئی دھاندلی کا شور کرتا اور نہ ہی کوئی الیکشن چوری کرنے کا واویلا۔ الیکشن کمیشن خود بری طرح سے ''سٹیٹس کو‘‘ کا شکار تھا۔ اس لیے کمیشن نے نظریہ ضرورت کو زیرو پوائنٹ کے قبرستان سے نکال کر پھر گلے لگا لیا ۔کون نہیں جانتا، الیکشن سیاسی جماعتیں لڑتی ہیں ۔جب الیکشن لڑنے والی سیاسی پارٹیاں الیکشن کو دھاندلی زدہ قرار دیں‘ تو پھر کس بات کی تحقیقات؟ کس کام کے لیے تفتیش...؟ کیسی گواہی اور جرح کس لیے؟ یہی راستہ دھاندلی کمیشن کے لیے بھی کھلا ہے ۔اگر الیکشن میں حصہ لینے والی اکثریتی پارٹیاں‘ جن میں مرکز اور پنجاب کی حکمران جماعت، سندھ، کے پی کے،بلوچستان کی پارٹیاں لکھ کر دے دیں کہ الیکشن دھاندلی زدہ تھے اور انتخابی عمل کی بنیاد Illegal Practicesاور Corrupt Practicesپر کھڑی کی گئی‘ تو پھر یہ بیان جوڈیشل ریکارڈ پر لاکر کمیشن کو چاہیے کہ وہ سیاسی جماعتوں کے موقف کو تسلیم کرتے ہوئے ،انہیں دوبارہ عوام سے مینڈیٹ لینے کا موقع دے۔
اس حوالے سے جاری ہونے والے صدارتی آرڈیننس میں کئی ابہام اور کھلے تضاد بھی موجود ہیں ۔ایک جگہ آرڈیننس کہتا ہے ، جوڈیشل کمیشن اپنی کارروائی کا طریقہ کار خود وضع کرے گا۔دوسری جگہ آرڈیننس ،کمیشن کو چلانے کے لیے وفاقی حکومت کے نوٹیفکیشن کا ذکر کرتا ہے۔ایک طرف کمیشن دھاندلی کی تحقیقات کا مکمل اختیار رکھتا ہے جبکہ دوسری طرف دھاندلی ثابت ہو جانے کی صورت میں کمیشن محض سفارشی چٹھی ہی لکھ سکے گا۔
16اپریل سے سارا میڈیا سپریم کورٹ میں ہوگا۔ جہاں میڈیا ہو وہاں ذاتی تشہیر کے لیے پٹیشن دائر کرنے والوں کی لائنیں لگ جاتی ہیں۔ سیاست دانوں نے تو کوریج کے لیے سپریم کورٹ آنا ہی آنا ہے‘ ان وکیلوں کی بھی چاندی ہو جائے گی جو اس طرح کی پٹیشنوں کے دنوں میں ہی نظر آ سکتے ہیں۔مخمصہ،ابہام ،شک و شبہ اور دراڑ والا نظام 1930ء ماڈل کا ریلوے انجن ہے اسی لیے ہر سٹیشن پر کھڑی سواریاں روتی ہوئی نظر آتی ہیں۔
کچھ ایسے باغباں اس مادرِ گیتی نے پالے ہیں
کہ ہر شاخِ نشیمن رہنِ برق و باد کرتے ہیں
یہ ہے عقلِ جُنوں پیشہ وہ ہے عشقِ خرد ساماں
فقیہہِ شہر اس بارے میں کیا ارشاد کرتے ہیں؟
کہا اک رندنے نے کل شام یہ‘ یارانِ محفل سے
ہمیں دانشوروں کے طائفے برباد کرتے ہیں
کمال ان کا یہی ہے خانماں برباد لوگوں کو
کبھی آباد کرتے ہیں کبھی برباد کرتے ہیں
کہاں تک کوئی ان کی ہمنوائی پر ہو آمادہ
یہ ظالم آئے دن اک مخمصہ ایجاد کرتے ہیں