کشکول توڑنے کا طریقہ

ریلیف تو ملتا ہے لیکن انہیں جن کے منہ میں سونے کا چمچ ہے۔ باقی سارے رب کی لکھی ''تقدیر‘‘ کے سہارے جیتے ہیں‘ مگر اصرار یہ ہے کہ یہی جمہوریت ہے۔
جمہوریت کی جو مٹی پاکستان میں پلید ہوئی اس کی مثال پانچ سو سال میںکہیں اور نہیں ملتی۔ جمہور کی بنی حکومت عوام کے لیے ہوتی ہے ۔ساری دنیا میں اس کے ایجنڈے کا پہلا ،دوسرا،تیسرا آئٹم عوام ہیں ۔لیکن پاکستان میں پارلیمنٹ بلکہ اقتدار کے سارے ایوانوں میں عوام کی طرح لفظ عوام کا ''داخلہ‘‘بھی بندہے۔ ہاں البتہ الیکشن مہم کے دنوں میں امیدوار اور ان کے سر پرست اکثر عوام کے ٹھیکیداروں سے رابطہ کرنا پسند کرتے ہیں۔ووٹ دلوانے والے ٹھیکیداروں کی کئی قسمیں ہیں۔ یہ ٹھیکیداری نظام معاشی کاریڈور، موٹروے، جنگلہ بس سے بھی بڑا میگا پروجیکٹ ہے ۔جن ملکوں میں کرپشن زیرو کے قریب ہے‘ وہاںبدعنوانی نام کو بھی نہیں۔ ہر کام میرٹ والے'' فرنٹ ڈور‘‘ سے ہوتا ہے ۔اس نظام میں اور پاکستانی جمہوریت میں بنیادی فرق ہی ''میگا پروجیکٹ‘‘ ہے۔اسے آسان زبان میں سمجھنے کے لیے یہ جان لیں کہ امریکہ، برطانیہ، فرانس، جرمنی، ہالینڈ،آسٹریلیا اور کینیڈا جیسے ملکوں میں سیاستدان ان کے حواری اور ارکانِ پارلیمنٹ ،بیوروکریٹ سرمایہ دار نہیں ہوسکتے ۔ماسوائے خاندانی نوابوں یا پدرم سلطان بود والوں کے ۔ اس کا سادہ سبب یہ ہے کہ ان ملکوں میں لوگ نہ عوام کا پیسہ لوٹ سکتے ہیں نہ ہی رشوت یا بد عنوانی پراپنا خاندانی حق جتاتے ہیں۔وہاں نالی سے موٹروے، سٹریٹ لائٹ سے ہائی وے تک اور معاشی کوریڈور سے میگا پروجیکٹس تک کہیں بھی حکمرانوں کے پاس نہ کوئی اختیار ہوتا ہے نہ ہی ان کا کوئی عمل دخل۔ قوم، صوبوں ،ضلعوں اور علاقوں کی تعمیرو ترقی مقامی حکومت کی عملداری ہے ،جیسے ہمارے ہاںبلدیاتی ادارے ہوتے ہیں ۔ان ملکوں میں بیورو کریسی کو معلوم ہوتا ہے نہ لیڈر کمیشن کھا سکتا ہے نہ ہی سرکاری ملازموں کو کھلا سکتا ہے۔لہٰذا وہ لیڈر کو اپنی ملازمت سے کمتر درجہ دیتے ہیں ۔وہاںاکثر لیڈر تین،چاریاپانچ سال کے لئے آتے ہیں۔جبکہ ان کے مقابلے میں سرکاری ملازم‘ ریٹائرمنٹ تک اور یا زندگی بھر ڈیوٹی کرتاہے۔لہٰذا ریاست کے ملازم نہ کسی کی چمچہ گیری کے پابند‘ نہ خوشامد اور نہ ہی انہیں ذاتی ملازموں کی طرح سیاستدانوں کے آگے پیچھے دُم ہلانے کی ضرورت ۔
دوسری جانب سیاستدان بھی یہ جانتے ہیں کہ پارلیمنٹ کی ممبری‘ وزارت یا اقتدار کے عرصہ میں نہ ڈالر کمائے جا سکتے ہیں نہ پاؤنڈ سٹرلنگ نہ ریال نہ یورو۔ان ملکوں کے لیڈر وں اور حکمرانوں کے لیے جعلی اکاؤنٹ بنانا‘ پھر اس کے ذریعے دوسرے ملکوں میں منی لانڈرنگ والے پیسے بھجوانا خواب میں بھی نہیں ہو سکتا۔ لہٰذا ان جمہوری معاشروں کے اندر تشکیل دیا گیا آئینی اور قانونی نظام رشوت ،بد عنوانی اور بد معاشی کو نہ موقع فراہم کرتا ہے نہ ہی اس کی ترغیب ۔اسی لیے میرٹ ،احتساب اور احساسِ جواب دہی کے تحت بننے والی ہر حکومت میں لیڈر قوم کی ڈیوٹی کرتے ہیں اورخلقِ خدا راج کرتی ہے۔
ایک بنیادی سوال جس پر ہمیں ضرور غور کرنا چاہیے وہ یہ ہے کہ موجودہ برائے نام جمہوریت کے ہوتے ہوئے بھی اقتدار پرستوں اور اقتدار کے مالکوں کے'' آئیڈیلز ‘‘کیا ہیں ...؟یہ بات آسانی سے کہی جا سکتی ہے کہ ان کے آئیڈیلز نوابوں کی بگھیاں، شہزادوںکی داسیاں ،شہنشاہوں کے محلات اور'' پیٹرو ڈالر‘‘ کمانے والی ریاستوں کے مالکان کے بینک اکاؤنٹ ہیں۔ پاکستان میں کوئی پیشہ ور خواہ کتنی بھی محنت کر لے‘ وہ جائز طریقے سے ایک خاص حد سے زیادہ دولت بنا ہی نہیں سکتا۔چاہے وہ کامیاب ترین ٹیکنو کریٹ ہو ،لائق ترین بیورو کریٹ، اعلیٰ ترین جرنیل ہو یا مُنصف ترین جج ۔
جج سے یاد آیا ایک سابق چیف جسٹس نے ملک میں ہر بڑے ٹھیکے کے لیے سوموٹو نوٹس کی خبریں چھپوائیں۔ چنانچہ سینڈک سے سٹیل ملز تک، چینی کے بحران سے اسلام آباد نیو ایئر پورٹ تک، قوم کو اربوں نہیں بلکہ کھربوں روپے کی پھکی پڑ گئی ۔اسلام آباد ایئرپورٹ پر ایک فرم نے اپنا کام بروقت مکمل کر لیا اور باقی ڈیڑھ درجن کنٹریکٹرز کے کام کی تکمیل زیرِ التوا تھی کہ ازخود نوٹس شروع ہو گیا۔ خبریں چلوائی گئیں اربوں روپے کی دھاندلی ہو گئی۔نتیجہ یہ نکلا کہ ہر سرکاری ملازم نے اپنا کام کرنے سے ہاتھ کھینچ لیا۔ ادائیگی بِلز شجرِ ممنوعہ قرار پائی اور فائلیں پروپیگنڈے کی گَرد تلے دب گئیں۔تفصیلی کہانی پھر کبھی سہی۔ نتیجہ ہمارے سامنے ہے۔ لیکن قوم اسے بھی جمہوریت کا پھل فروٹ سمجھے کہ جس نے پاکستان کی حکومت،تجارت اور سروس کے لیے ظلم کی داستانوں کے ڈھیر لگائے ہوں وہ کوئین آف انگلینڈ سے زیادہ سرکاری پروٹوکول کے سائے میں موج مستی کرتا پھرے۔
وطنِ عزیز میں کرپشن ،اقربا پروری،دھاندلی،بد انتظامی وہ بڑی وجوہ ہیں جن کی وجہ سے قومی خزانے سے ریلیف کا ایک قطرہ بھی غریب تک نہیں پہنچتا۔ ان سب بداعمالیوں کی وجہ یہ ہے کہ لوگ سیاست ،حکومت اور راج نیتی کو منافع بخش کاروبار جان کر اس میں سرمایہ کاری کرتے ہیں ۔کوئی زمانہ تھا جب بادشاہوں کے بیٹے بیٹیاں اپنے آباؤاجدادکے سپاہی ہونے پر فخر کرتے تھے۔ اور آباء کے پیشہ سپاہ گری کو باعثِ اعزاز سمجھتے۔ وطنِ عزیز میں فرنگی آقا کے جانے کے بعد نئے آقا حکومت کو مال بنانے کی جگہ، اقتدار کو مال کمانے کا وسیلہ اور پاکستان کو معاشی چراگاہ کہتے ہیں۔
گزشتہ ہفتے کچھ دوستوں کو متحدہ عرب امارات کے ایک وزیر کے بیان پر تکلیف ہوئی۔جس کا جائز طور پر اظہار بھی کیا گیا۔کچھ حلقے کہتے رہے ایک چھوٹے سے جزیرے کا وزیر ایٹمی ریاست کی توہین کرنے کی جرأت کیسے کر سکتا ہے؟ ان کے سوال کا جواب یہ ہے کہ یہ جرأت آپ کے ان کرپٹ سیاستدانوں اور کالے دھن والوںنے دی ہے جن کے محلات ،جزیرے،ٹاور،شاپنگ پلازے اور ڈانسنگ فلور امارات کی چھ کی چھ ریاستوں میںدیکھے جا سکتے ہیں۔ میرے نزدیک اماراتی وزیر کی دھمکی پاکستان کے مزدوروں یا دبئی کے ٹیکسی ڈرائیوروں کے لیے نہیں ۔محنت کشوں کے پاس ہے کیا جو کوئی چھین لینے کی دھمکی دے گا...؟ پھرآپ نے دیکھا جونہی یہ دھمکی آئی‘ درباری صفوں میں بھگدڑ مچ گئی۔وزارتِ خارجہ کی خاموشی نے اس بھگدڑ کو جیٹ سپیڈ لگا رکھی ہے۔
کاش حکمران اپنے لوگوں پر یقین کریں، اپنے وسائل پر جینے کی ہمت بھی کریں۔ خاص طور سے دولت کی منصفانہ تقسیم اورقومی وسائل میں غریبوں کی حصہ داری کے بغیر کشکول نہیں ٹوٹ سکتا۔ لیکن مشاورت اور خوشامد میں فرق کون سمجھے یا سمجھائے...؟ جالبؔ بھی اسی نظام کے متاثرین میں سے ایک ہے ؎
کج فہم و کج کُلاہ ادیبوں کو دیکھیے
بستی اُجڑ چکے گی تو لکھیں گے مرثیے
تم نے تو یہ کہا تھا اجالا کریں گے ہم
تم نے تو سب چراغ دلوں کے بجھا دیے
کرتے ہیں یونہی دُور جہالت کی تیرگی
رکھنا تھا جن پہ ہاتھ وہی سر قلم کیے
جس ہاتھ نے اجاڑ دیا میرا گلستاں
اُس ہاتھ کو خدا کے لئے اُٹھ کے روکیے
ہو گا طلوع کوہ کے پیچھے سے آفتاب
شب مستقل رہے گی کبھی یہ نہ سوچیے

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں