ویسے تو لوگ مظلوم کی بد دعا سے ڈرتے ہیں‘ لیکن پاکستان میں مظلوموں کو پتہ نہیں کس کی بددُعا لگ گئی ۔ نہ انہیں انصاف سستا ملتا ہے اور نہ ہی فوری۔ سپریم کورٹ آف پاکستان کے سینئر ترین جج جوادایس خواجہ کے انکشاف نے مجھے حیران کر دیا۔ یہی کہ پہلی عدالت سے آخری اپیل تک انصاف کے لئے مظلوم24 تا26 سال انتظار کرتا ہے۔ سستا اور فوری انصاف نہ تھا اور نہ ہے۔
پاکستانی سیاست ایک مستقل حیرت کدہ ہے۔یہاں چُھپ کر وار کرنے والوں کو بہت مزہ آتا ہے۔ ہماری آدھی تاریخ فوج کے پیچھے چھپ کر وار کرنے والوں سے بھری پڑی ہے۔ اور باقی وقت سیاست بذریعہ عدالت ہوئی۔ آج کل پھر بڑے سیاسی معاملات پارلیمنٹ، الیکشن کمیشن، حکومت سے ہوتے ہوئے عدالت میں پہنچ چُکے ہیں۔ اس ہفتے دو بڑے مقدمات سب سے بڑی عدالت میں پورے ملک کے کیمروں اور رپورٹرز کو کھینچ لائے۔ پہلا فوجی عدالتوں کے قیام کے قانون کو چیلنج اور دوسرا عدالتِ عظمی کے سہ رکنی بنچ میں الیکشن دھاندلی کا مقدمہ۔ اس مقدمے میں انتخابی دھاندلی کے الزامات، جوابی الزامات، کراس الزامات، ون آن ون الزامات، تھرڈ پارٹی الزامات بلکہ الزامات ہی الزامات کے ڈھیر لگ گئے ۔ لیکن ثبوت ڈھونڈنے کے لیے جو ٹیمیں میدان میں اتری ہیں وہ اکثر ''انڈر 19‘‘ جیسی ہیں۔ اس لیے ایک ہفتے بعد الزامات کا ایک سیلاب الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا پر ساری سیاست کو ناک تک ڈبو چھوڑے گا۔
1980ء کے عشرے سے لے کر آج تک میرا ایک پہلو سے وکالتی اور عدالتی تجربہ طے شدہ ہے۔ یہ کہ جب انصاف کے فورم سیاسی مقدمات سے بھر جائیں تو پھر عام آدمی ہاتھ میں انصاف حاصل کرنے کے لیے پکڑی ہوئی درخواست سمیت اس رش اور بھگدڑ میں نیچے گر جاتا ہے۔ گرے ہوئے مظلوموں پر چڑھ دوڑنے کے لیے بڑی لگژری گاڑیاں اور لمبے بُوٹ بے شمار ہیں۔ ایسے میں عام دیوانی، خاندانی، فوجداری نوعیت کے مقدمات پسِ منظر میں یا ''بیک بَرنر‘‘ پر چلے جاتے ہیں ۔ اس لیے پاکستان کے موجودہ چیف جسٹس کا سب سے بڑا امتحان یہ ہے کہ وہ آئین میں درج انصاف کے دونوں ستون نہ گرنے دیں اور نہ ہی لرزاں ہونے دیں۔ یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ کافی عرصے بعد عدالتیں روٹین میں مظلوموں کو انصاف دینے کی طرف توجہ اور فوکس کے ساتھ آگے بڑھ رہی ہیں۔ایسے میں سیاست پھر سے عدالت میں گُھس آئی ۔
پاکستانی عوام کی ایک اور بد قسمتی بھی ہے کہ آئینی اور قانونی فورم سیاست، راج نیتی اور ایگزیکٹو جیسے تنازعات حل کرنے سے گھبراتے ہیں ۔چنانچہ وہ گھما پھرا کر کسی نہ کسی طرح سے مسائل کی گٹھڑی انصاف کے ترازو میں ڈال کر خود جان چھڑا کر بھاگ جاتے ہیں۔اب بھی بالکل یہی ہو رہا ہے ۔مثال کے طور پرالیکشن کمیشن آف پاکستان انتخابی تنازعات طے کرنے کے لیے بنایا گیا۔ اس کام میں وہ مکمل طور پر ناکام ہے۔انتخابی ٹربیونل آئینی ادارے ہیں ۔ان کو چلانے والا قانون ان کی ٹوٹل عمر 120دن بتاتا ہے۔اب180دن ہو چکے ہیں اور ٹربیونل میں محض چند ایک نے بروقت فیصلے کیے ۔ایسے ٹربیونل کو شاباش ۔لیکن اکثر کا خیال ہے کہ 2013ء کی الیکشن پٹیشن مسئلہ کشمیر کے ساتھ طے ہوگی۔ لہٰذا 120دن جمع 120دن مزید جمع 120دن بھی ایسے ٹربیونل کا کچھ نہیں بگاڑ سکے۔ دوسری جانب ایگزیکٹو اتھارٹی ،کابینہ ،وزیراعظم ہاؤس اور اس کے مشیروں کا بنیادی کام سیاسی اور انتظامی مسائل سے نمٹنا ہے ۔آئینی عہدے بھی مسائل کے حل کی اہلیت ثابت کرنے میں بُری طرح ناکام ہوئے ۔اس کے نتیجے میں کئی درجن شہریوں نے جان گنوائی۔ سینکڑوں زخمی ہوئے اور ہزاروں گرفتار۔آخر کار سرکار کے بُدھو گھر کو لوٹ آئے اور قوم کو بتایا اب مسئلہ عدالت حل کرے گی۔
یوں لگتا ہے جس طرح موجودہ نظام میں پارلیمنٹ اور حکومت آئینی نہیں بلکہ دو تجارتی ادارے ہیں‘جن کے ذمے صرف 2 کاروبار ہیں۔پہلا ذاتی اور دوسرا سرکاری۔دنیا کے مصروف ترین شہروں میں جہاں ایک ایک دن میں 10سے 20لاکھ لوگ صرف سیر کے لیے آتے ہیں‘ ریلوے ،ٹیکسی اور بس سروس پرائیویٹ کمپنیوں کے پاس ہے اور ہر بس سروس یا ٹرام ساتھ ساتھ ایک ہی سڑک پر چلتے دکھائی دیتے ہیں۔ ہماری جمہوریت کو یہ فارمولا پسند نہیں ۔لہٰذا اس نے اپنی گردن کے سریے کے زور پر بس کو 25فٹ اونچی پھانسی پر لٹکا دیا۔یہاں ایک اور ڈبل شاہ پالیسی بھی قابلِ ذکر ہے۔ منافع بخش بنک ،کارپوریشن ،سرکاری املاک اور ادارے لوٹ سیل میں بیچے جارہے ہیں ۔اس کاروبار کا نام نجکاری یا پرائیویٹائزیشن رکھا گیا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ دوسری طرف یہی سرکار میٹرو بس کو پرائیویٹ رکھ کر اس کو کروڑوں روپے فی گھنٹہ سبسڈی دے رہی ہے۔جس حاتم طائی نے میٹرو خواب دیکھا اس کی تعبیر قوم کو اربوں نہیں کھربوں روپے میں پڑی ہے۔ذاتی کاروبار پر حکومتی توجہ کایہ حال ہے کہ چین جیسے ملک کا سربراہ آئے تو اسے پارلیمنٹ سے چھپا کر رکھا جاتا ہے۔صرف سرکار کے کاروباری دوست ایسے دورے کے میزبان بننے کی سعادت حاصل کرسکتے ہیں۔
دو روز پہلے فاٹا اور خیبر پختونخوا صوبے والوں نے مطالبہ کیا ہے کہ چین سے ہونے والے معاہدوں میں ان کو بھی شامل کیا جائے۔یہ مطالبہ بالکل جائز اور آئینی ہے‘ بلکہ سندھ ،بلوچستان ،گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کے لوگوں کو بھی ترقیاتی پلاننگ اور منصوبوں میں شریک کیا جائے۔ورنہ عدالتیں مزید سیاست سے بھر جائیں گی اور انصاف سیاسی فائلوں کا بھاری بھرکم بوجھ اُٹھا اُٹھا کر ''کُبڑا‘‘ ہو جائے گا۔
لہٰذا، حالات جس طرف چل پڑے ہیں وہاں سیاسی مسائل کا عدالتی حل ممکن نہیںرہا۔عدالت ریکارڈ ، شہادت، ثبوت دیکھتی ہے۔سیاسی جذبات سے بالاتر ہو کر۔جبکہ ہر سیاستدان ''ملکۂ جذبات‘‘ کا کردار ادا کر کے ریلیف سے محروم عوام کی توجہ بانٹنا چاہتا ہے۔
آنے والے دن نئے چیلنجز کا زمانہ ہے۔کچھ بوجھ بُری گورننس انصاف کی پیٹھ پر لادے گی اور باقی حصہ نااہل ریاستی اداروں کا ہو گا۔ لہٰذا جو سیاست عدالت جا پہنچی ہے وہ چند ماہ میں پھر کوچۂ سیاست کی طرف لوٹ آئے گی۔ آئین لاکھ کہتا رہے پاکستان میں اختیارات کی مثلث (Trichotomy of power) ہے۔گزشتہ تجربہ یہی بتاتا ہے کہ ادارے نا اہلی کے ٹریننگ سنٹر بن گئے ہیں۔ نالائقی کی حد دیکھیں کہ حکومت سوشل میڈیا پر کلہاڑا چلانے جا رہی ہے۔ نئی سنسر شپ نظریۂ ضرورت کا لاڈلہ بچہ ہے۔
ظلمت کو جو فروغ ہے دیدہ وروں سے ہے
یہ کاروباِ شب انہی سوداگروں سے ہے
کیا عقل کیا شعور کی باتیں کریں یہاں
سر کو معاملہ تو یہاں پتّھروں سے ہے
اب سے نہیں ہیں تشنہ لبوں کو شکایتیں
یہ میکدہ تو کب سے تہی، ساغروں سے ہے