چونکہ، چنانچہ، اگر، مگر، لیکن وغیرہ

تابعداری کی بھی کوئی حد نہیں ہوتی۔تابعدار تابعدار ہوتا ہے چاہے وہ اپوزیشن کہلائے یا کچھ اور۔اگر آپ نے اپوزیشن کی تابعداری کا تصویری خبر نامہ نہیں سُناتو تصویر دیکھ لیں... جی ہاں بالکل بولتی ہوئی تصویر جس میں کرسیِ صدارت پر وزیراعظم کے سمدھی شریکِ صدارت ہیں۔
تصویر کی طرف پھر آئیں گے۔پہلے بابائے جمہوریت نوابزادہ نصراللہ کی یاد تازہ کرتے ہیں۔ 1997ء میں شریفانہ احتساب سیل کو آزاد صحافی احتساب الرحمن سیل کہتے تھے۔ اس کے سربراہ موجودہ وزیراعظم کے سینیٹر تھے۔انہی دنوں اسلام آباد،پنڈی اور لاہور میں میرے وکالتی لاء چیمبر ز پر چھاپے مار کر توڑ پھوڑ کی گئی۔چنانچہ بڑے اردو روزنامے میں برادرم اسد اللہ غالب نے زور دار احتجاجی کالم لکھا۔ عنوان تھا ''وکیلِ صفائی پر چھاپہ‘‘ جو میرے کالموں کے مجموعہ وکالت نامہ میں شامل ہے۔ کالم کئی اعتبار سے ہماری سیاسی تاریخ پر بھرپور تبصرہ بھی ہے اور طنز بھی۔اگلے دن مجھے بابائے جمہوریت کا فون آیا۔ فرمایا،تم سے ملنا ہے۔ کہا‘ بتائیے آپ کہاں ہیں‘ حاضر ہو جاتا ہوں۔بولے‘ نہیں ویسے تو آپ چھوٹے ہیں لیکن آپ کی جیل یاترا مجھ سے بھی تازہ ہے۔ فیصلہ تھا وہ میرے گھر آئیں گے ۔اس یادگار موقع کی تصویر انٹرنیٹ پرہے ۔کہنے لگے‘ تمہیں معلوم ہے میں کیوں آیا ہوں؟ کہا‘ تشریف آوری کا شکریہ‘ وجہ آپ جانتے ہیں۔نوابزادہ صاحب نے قہقہہ لگایا اور کہنے لگے‘ تیری وکالت میری سیاست سے ملتی جلتی ہے۔نوابزادہ صاحب‘ محترمہ بینظیر بھٹو ،مولانا بھا شانی یا ولی خان اپوزیشن جماعتیں اکٹھی کرتے تو سرکار کی نیندیں اُڑ جاتیں۔مگراب وقت ،معیار ،سیاسی اخلاقیات اور مزاحمتی جمہوریت سب کچھ بدل گیا ۔ تازہ مظاہرہ اور ثبوت وہ تازہ تصویرہے جس میں اپوزیشن کے اکٹھ میں سرکار کے سب سے با اثر ،بلکہ گھریلو وفاقی وزیر بھی موجود تھے۔ اجلاس شہید بینظیر کے اس گھر میں ہوا جہاں سے میرا گھر گِن کر ایک درجن گھروں کے فاصلے پر ہے۔مان لیں یہ ایک احتجاجی اجلاس تھا‘ جس میں حکومت کے تازہ ترین ،غلط ،بے ہنگم اور بے دستور اقدامات کے خلاف اپوزیشن نے لائحہ عمل بنایا ۔ تصویر کے نیچے درج ذیل کیپشن فِٹ بیٹھتا ہے۔
جابر حکمران کے سامنے کلمہ حق کہنا سب سے بڑا جہاد ہے مگر حکمران سے اجازت لینے میں حرج ہی کیا ہے۔واہ اپوزیشن۔
جن کو تھا زباں پہ ناز
چُپ ہیں وہ زباں دراز
چَین ہے سماج میں 
بے مثال فرق ہے
کل میں اور آج میں
اپنے خرچ پر ہیں قید
لوگ تیرے راج میں
آدمی ہے وہ بڑا
در پہ جو رہے پڑا
جو پناہ مانگ لے
اُس کی بخش دے خطا
میں نے اُس سے یہ کہا...
تازہ ترین مفاہمتی برانڈ جمہوریت کی مِڈل ایسٹ پر مشترکہ پارلیمانی قرارداد بھی تابعداری کاشاہکار ہے اور کاروبار بھی۔ چنانچہ وہ حکمران جن کے محل اور مِلیں عرب ملکوں میں ہیں قرارداد کو چاٹ کر تھوک رہے ہیں۔قرارداد کی جو وضاحت یہ لیڈر پاکستان میں کرتے ہیں۔عربستان جا کر اس کی توجیہہ 180 ڈگری یو ٹرن لیتی ہے۔بہت کم لوگوں کو پتہ ہے گزشتہ دو سالوں میں ہم نے آئی ایم ایف سے اتنا قرض لیا جو پچھلی ساری جمہوریتوں کے مقدر میں نہیں آیا۔اس کی وجہ بھی مفاہمت ہے جس کے تین زاویے دیکھنے کے قابل ہیں۔
پہلا ،پاکستان میں بلاواسطہ اور ''اِن ڈائریکٹ‘‘ Multiple Taxation ٹیکس لگائے گئے۔
ایشیا میں کوئی دوسرا ایسا ملک نہیں اور شاید دنیا میں بھی جہاں عوام پر اس قدر بے رحمانہ ٹیکس لگائے جا رہے ہوں۔ایک بجٹ وہ تھا جو پچھلے سال جون میں آیا ۔اس کے بعد ہر ہفتے مِنی بجٹ آتا رہا ۔کبھی پٹرول مہنگا،کبھی ڈیزل ،کبھی تیل اور کبھی ٹرانسپورٹ کا کرایہ ،کبھی زندگی بچانے والی دوائیاں۔ کبھی بچوں کی تعلیم ،کبھی پیشہ ورانہ ٹیکس ،کبھی سیلز ٹیکس ،کبھی جنرل سیلز ٹیکس ،کبھی ایڈوانس ٹیکس ،کبھی وِد ہولڈنگ ٹیکس۔ پیدائش سے موت تک ٹیکس ہی ٹیکس ۔
ستم بالائے ستم یہ کہ ملک میں پارلیمنٹ کے 6 ایوانوں میں عوام دشمن ٹیکسوں پر سرمایہ دار،جاگیر دار اور چور بازار اکھٹے ہیں۔لیکن عوام کو گروہی،فروعی،مسلکی،علاقائی،لسانی اور پتہ نہیں کس کس تقسیم والی سیاست کے گورکھ دھندے میں پھنسادیا گیا۔ کوئی جماعت مزدوروں ،کسانوں ،ہاریوں اور عوام کی چمڑی اتارنے پراحتجاج کرتی ہے‘ نہ پارلیمنٹ کا بائیکاٹ ۔دوسری جانب عام آدمی پارٹی کا دہلی میں احتجاج ہواہے جہاں اس کے فدائی کارکن راج بھون کے سامنے پھانسیوں پر جھول گئے۔
دوسرا یہ کہ ناپ تول‘پرائس کنٹرول ‘انصاف اور مہنگائی کا کوئی ادارہ اس قابل نہیں کہ وہ منافع خوری کے منہ زور مافیاز کے سامنے کھڑا ہونے کی ہمت کر ے۔ہر محلے اور علاقے کے دکانداروں کے اپنے ریٹ ہیں‘ شاپنگ مال کی اپنی مرضی۔جائز ناجائز اور حلال حرام کا تصور مِٹ گیا ۔ اس تصور کو واضح کرنے کے لیے اللہ نے جنہیں وسائل،علم یا شعور دیا وہ جنت میں داخلے کے آسان ٹکٹ بانٹ رہے ہیں ،لیکن اپنی مرضی کے ریٹ پر ۔پچھلے دنوںایک مہربا ن سینیٹر نے کہا‘ اب لیفٹ اوررائٹ کی سیاست ختم ۔جس ملک میں ایک شہر کا اتحادی دوسرے شہر میں اتحادی سے مقابلہ کرے‘ اپوزیشن کے اجلاس حکومت کی زیرِ صدارت منعقد ہوں‘ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کی قرارداد پتلون کی پچھلی جیب میں اور ''پیٹرو ڈالر‘‘ کوٹ کی سامنے والی جیب میں رکھے جائیں‘ وہاں کون سا رائٹ اور کیسا لیفٹ؟ عوام ٹیکس دے دے کر مر گئے۔ لیڈر بیچارے لینڈ کروزر خرید خرید کر تھک چکے ہیں‘ لیکن لگژری گاڑیاں بنانے والی کمپنیاں باز ہی نہیں آ رہیں۔ ہر چھ ماہ بعد نیا ماڈل آ جاتا ہے ۔قوم کے غم اور غریبوں کی حمایت کا تقاضا پورا کرنے کے لیے جہاں عوامی لیڈر کروزر خریدتے ہیں‘ وہاں حق کاعَلم بلند رکھنے اور ''آبروئے ملتِ مرحوم‘‘ کی بحالی کے لیے مذہبی سیاست والی پارٹیاں ڈٹ کر مقابلہ کرتی ہیں۔غریبوں کے کسی لیڈر یا حکمران نے آخری بار ٹرین کب دیکھی تھی؟ ٹماٹر کب خریدے تھے؟ پاکستانی سول ہسپتال میں علاج کب کروایا تھا؟گورنمنٹ ہائی سکول یا پرائمری میں پڑھنے کے لیے بچہ کب بھیجا تھا؟اس کا جواب ویسا ہی ہے جیسا اقوامِ متحدہ سے کوئی پوچھ لے کہ اس کے حکم پر کسی غیر مسلم ملک پر آخری حملہ کب ہوا تھا؟
آج کل اسلامی جمہوریہ کے سرکاری بابو + کاروباری بابو صبح پاکستان میں‘ دوپہر دبئی میں اور رات واشنگٹن میں گزارتے ہیں۔اللہ کے ''فضل و کرم‘‘ سے اور غریبوں کی محنت سے ان کی کاوش رنگ لانے والی ہے۔بجٹ آنے میں اتنے ہی دن رہ گئے جتنے دھاندلی کمیشن کی رپورٹ میں ۔
ایک دفعہ پھر کسان،مزدور ،مِڈل کلاس اور غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے والے بجٹ اجلاس کے دن تازہ ترین ماڈل والی لینڈ کروزر،بہترین ٹائی سوٹ اور فائیو سٹار میک اپ دیکھ سکیں گے۔پارلیمنٹ کے ''بیرونی ریمپ‘‘ پرواک کرنے والے ٹی وی کیمروں کے سامنے بجٹ کے حق میں یوں بولیں گے جیسے وہ نیلسن منڈیلا کے لانگ واک ٹوفریڈم یا مائوزے تنگ والا لانگ مارچ کر کے واپس آ ئے ہوں ۔
ایک سادہ سوال پوچھیں تو حکمران آپ کو مارنے دوڑیں گے۔ سوال یہ کہ اس نظام ،اس پارلیمان اور اس صدی میں عوام کو ریلیف کب ملے گا؟ ہر سال قوم کو بتایا جاتا ہے کہ اس سال بجٹ آپ کی تقدیر بدل دے گا ۔پنجابی زبان کے عوامی شاعرنے وہ سیدھی بات کہی جس پر تابعداراپوزیشن چونکہ،چنانچہ،اگر، مگر،لیکن وغیرہ کر رہی ہے۔ 
کہندے سَن ،خو شحالی آسی
ہر مکھڑے تے لالی آسی
ڈیزل تے پٹرول وی مہنگے
آٹا، چینی، چَول وی مہنگے
ما چس اِک سو تیراں دی
کیتی حد ہنیراں دی
جیوے جوڑی شیراں دی

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں