"HAC" (space) message & send to 7575

انٹرا افغان ڈائیلاگ کے ذریعے امن کی تلاش

افغانستان گزشتہ چالیس سالوں سے پُرتشدد حالات کا سامنا کررہا ہے۔ یہاں غیر ملکی فوجی مداخلت ہوئی‘ دوسرے ممالک کی پشت پناہی میں داخلی مزاحمت جاری رہی‘ خانہ جنگی ہوتی رہی اور پھر طالبان کا دور آیا۔ ابھی ان حالات سے سنبھلا نہیں تھاکہ افغانستان کو اکتوبر 2001 میں ایک اور غیر ملکی مداخلت کا سامنا کرنا پڑا۔ اس کے نتیجے میں افغانستان ایک بار پھر داخلی جھگڑوں کا شکار ہو گیا۔ یہ آسیب آج تک افغانستان پر سوار ہے کیونکہ غیرملکی سپورٹ کے ساتھ یا اس کے بغیر نئے گروپ اور تنظیمیں سامنے آ چکی ہیں۔ 
انسانی زندگی اور اثاثوں کے ضیاع کا افغانستان میں اندازہ نہیں لگایا جا سکتا۔ سرسری سا حساب کتاب غمازی کرتا ہے کہ صورتحال گمبھیر ہے۔ افغانستان کی آبادی کا ایک بڑا حصہ دوسرے ممالک میں مہاجر کی زندگی گزار رہا ہے۔ ایک وقت تھا جب پاکستان چالیس لاکھ افغانوں کی میزبانی کررہا تھا۔ آج بھی کم و بیش بیس لاکھ رجسٹرڈ یا غیر رجسٹرڈ افغان باشندے پاکستان میں رہ رہے ہیں‘ لیکن اب افغانستان میں صورتحال تبدیل ہونے کے امکانات پیدا ہو رہے ہیں کیونکہ ماہ رواں کے دوران افغان طالبان اور افغان حکومت کے مابین بات چیت کے معاملات میں پیش رفت ہوئی ہے۔ اس معاملے میں بڑی رکاوٹ اس وقت دور ہوئی جب تین ہفتے قبل کابل حکومت 400 طالبان قیدیوں کورہا کرنے پر رضامند ہو گئی۔ 80 قیدیوں پر مشتمل ایک جتھے کو پچھلے ہفتے ہی رہا کیا گیا ہے۔ توقع کی جا رہی ہے‘ جلد مزید قیدی آزاد کیے جائیں گے۔ کابل حکومت ان قیدیوں کورہا کرنے کی ذمہ داری قبول نہیں کرنا چاہتی تھی‘ کیونکہ اس کی نظر میں یہ بے حد خطرناک قیدی ہیں اور ان میں سے کچھ کو عدالتوں نے پھانسی کی سزا بھی سنا رکھی ہے؛ چنانچہ صدر اشرف غنی نے لویا جرگہ بلایا تاکہ ان خطرناک قیدیوں کی رہائی کی اجازت اس سے لی جائے۔ لویا جرگہ کی اجازت کے بعد کابل حکومت نے طالبان قیدیوں کو گروپوں کی صورت میں رہا کرنا شروع کردیا ہے۔ طالبان کابل حکومت کے قیدی پہلے ہی رہا کر چکے ہیں۔
ممکنہ انٹرا افغان ڈائیلاگ دوحہ معاہدے کا نتیجہ ہیں‘ جو امسال 29 فروری کو طالبان اور کابل حکومت کے مابین طے پایا تھا اور جس کا مقصد افغانستان میں امن کے قیام کیلئے فریم ورک کا تعین تھا۔ اس معاہدے کا ایک مقصد افغانستان سے امریکی فوجیوں کی بتدریج واپسی اور کابل حکومت اور طالبان کے مابین افغانستان میں داخلی سیاسی معاملات بہتر بنانا اور مستقل امن کے قیام کی راہ ہموار کرنا ہے۔ دوحہ معاہدے کی ایک اہم شق یہ تھی کہ فریقین دس مارچ تک ایک دوسرے کے قیدی رہا کر دیں گے جس کے بعد بین الافغان بات چیت کا سلسلہ شروع ہو گا۔ معاہدے کے فریق طے کی گئی ڈیڈ لائن کی پاسداری نہ کر سکے۔ بہرحال توقع ہے کہ قیدیوں کا معاملہ جلد نمٹا لیا جائے گا اور کابل حکومت اور افغان طالبان کے مابین بات چیت کا آغاز ماہ رواں میں ہو جائے گا۔
29 فروری کو دوحہ معاہدہ طے پا جانے کے باوجود افغانستان میں پُرتشدد واقعات کا سلسلہ جاری رہا ہے۔ طالبان کی جانب سے حکومتی تنصیبات اور فورسز کے ساتھ ساتھ عام لوگوں کو بھی نشانہ بنایا جاتا رہا۔ کابل حکومت اور امریکی فوجی‘ دونوں ان حملوں کا جواب افغان طالبان پر حملے کرکے دیتے ہیں۔ اسی باعث دونوں جانب تلخی پائی جاتی ہے اور فریقین ایک دوسرے کو ان پُرتشدد واقعات کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں۔ اگر ان حملوں کی اوسط نکالی جائے تو یہ طالبان کی جانب سے زیادہ ہو رہے ہیں۔
افغان حکومت اور افغان طالبان کے مابین بامقصد مذاکرات کے لئے فریقین کو جنگ بندی پر متفق ہونا پڑے گا۔ اگر مسلح حملوں کا سلسلہ کنٹرول نہیں ہوتا تو بات چیت کا معاملہ آگے نہیں بڑھے گا؛ چنانچہ دونوں اطراف کو ایک دوسرے کے لئے گنجائش پیدا کرنا ہو گی۔
یہ واضح ہے کہ طالبان اپنے اس پُرانے نظام کی جانب نہیں لوٹ سکتے جو انہوں نے افغانستان میں 1996 تا 2001 نافذ کئے رکھا تھا۔ طالبان کے کچھ رہنمائوں کے بیانات سے بھی اشارہ ملا ہے کہ وہ پُرانے سسٹم کی طرف نہیں جانا چاہتے؛ تاہم وہ افغانستان کے موجودہ سیاسی نظام میں کچھ تبدیلیاں چاہتے ہیں تاکہ اس کو زیادہ سے زیادہ اسلامی بنایا جا سکے۔ کابل حکومت کو یہ توقع بھی نہیں رکھنی چاہئے کہ افغان طالبان موجودہ افغان آئین کو اسی حالت میں قبول کر لیں گے جیسا یہ اس وقت ہے۔ یہ معاملہ فریقین کے لئے ایک بڑے چیلنج کی حیثیت رکھتا ہے۔ طالبان افغانستان کی موجودہ حکومت کے کچھ حکام کو تبدیل کرنے کی خواہش کا اظہار بھی کر سکتے ہیں۔ اس مطالبے میں صدر اشرف غنی اور ان کے کچھ قریبی ساتھیوں کی تبدیلی بھی شامل ہو سکتی ہے۔ اگر ایسا ہوا تو کابل حکومت میں تبدیلیاں مراحل میں ہوں گے یعنی پہلے ایک عبوری حکومت آئے گی اور پھر ایک باقاعدہ حکومت؛ تاہم یہ سب کرنے کیلئے فریقین کو پیچیدہ مذاکرات کے ساتھ ساتھ تحمل کا مظاہرہ اور ایک دوسرے کے لئے سیاسی گنجائش بھی پیدا کرنا ہو گی۔
طالبان کے کچھ دھڑے مذاکرات کے اس عمل کو سبوتاژ کرنا چاہیں گے۔ داعش ایک ایسا گروپ ہے جو کابل حکومت کو برداشت کرنے کے بالکل حق میں نہیں ہے۔ اسی طرح کابل حکومت سے باہر بھی کچھ ایسے افراد اور گروپ موجود ہیں جو طالبان کو کوئی راستہ دینے کے حق میں نہیں ہیں؛ چنانچہ انٹرا افغان ڈائیلاگ فریقین کیلئے ایک مشکل امتحان اور غیر یقینی معاملہ ثابت ہو سکتا ہے۔
اس معاملے کا ایک بڑا مثبت پہلو یہ ہے کہ چین‘ روس اور ایران مذاکرات اور افغانستان میں ایک سیاسی تصفیے کے حامی ہیں۔ چین اور روس نے تو گزشتہ دو برسوں میں طالبان کی لیڈرشپ کے ساتھ الگ الگ کئی مرتبہ بات چیت بھی کی ہے۔ پاکستان بھی بین الافغان مذاکرات کی حمایت کر رہا ہے۔ ماضی میں پاکستان نے دوحہ مذاکرات شروع کرانے میں بھی کردار ادا کیا تھا۔ پاکستان نے ہی افغان طالبان کو اس بات پر آمادہ کیا تھا کہ ان مذاکرات کا حصہ بننا ان کے لئے مفید ہو گا۔ اب پاکستان بین الافغان مذاکرات کا بھی حامی ہے؛ تاہم وہ افغان طالبان کو اس مسئلے کا کوئی حل قبول کرنے پر مجبور نہیں کر سکتا۔
واحد ملک جو انٹرا افغان ڈائیلاگ کے بارے میں تحفظات کا شکار ہے‘ بھارت ہے کیونکہ اسے یہ بات پسند نہیں کہ افغان طالبان کابل حکومت کے ساتھ اقتدار کا حصہ بنیں۔ روایتی طور پر افغان طالبان بھارت کو دوستانہ نظر سے نہیں دیکھتے۔ 1979-80 میں بھارت نے افغانستان پر سوویت حملے اور وہاں ببرک کارمل کی حکومت کی حمایت اور افغانوں کی جانب سے اس حملے کے خلاف مزاحمت کی مخالفت کی تھی۔ بعد ازاں جب طالبان افغانستان میں برسرِ اقتدار آ گئے تو بھارت نے ان کی حکومت کی مخالفت کی تھی۔ اب بھارت اشرف غنی کی کابل حکومت کے ساتھ قریبی طور کام کر رہی ہے اور خاموشی سے کابل حکومت کی ہلہ شیری کر رہی ہے کہ وہ طالبان کے ساتھ مذاکرات میں سخت رویہ اختیار کرے۔ 
امریکہ کی ان مذاکرات میں دلچسپی یہ ہے کہ وہ افغانستان میں امن کا خواہش مند ہے تاکہ اس کے لئے وہاں سے اپنے فوجی نکالنے کی راہ ہموار ہو جائے۔ افغانسان میں امریکی فوجیوں کی تعداد پہلے ہی خاصی کم کی جا چکی ہے۔ امریکہ میں صدارتی الیکشن سے پہلے مزید فوجی واپس بلا لئے جائیں گے؛ تاہم امریکی فوجیوں کا مکمل انخلا انٹرا افغان ڈائیلاگ کی کامیابی کے بعد ہی ممکن ہو سکے گا۔ بین الافغان معاہدے کو افغانستان کے تمام ہمسایہ ممالک‘ امریکہ‘ چین‘ روس اور یورپی یونین کی مکمل حمایت حاصل ہو گی۔ یہ حمایت افغانستان میں پائیدار امن کے قیام اور سیاسی استحکام کو یقینی بنائے گی۔ اب یہ افغان طالبان اور کابل کی لیڈرشپ پر ہے کہ وہ بین الاقوامی سیاست کی حرکیات کو سمجھیں اور اپنے داخلی مسائل حل کریں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں