بین الاقوامی سطح پر یہ وسیع مشترک رائے ہے کہ جمہوریت دستیاب بہترین سیاسی نظام ہے۔ یہاں تک کہ مطلق العنان حکمران بھی جمہوریت کا لیبل استعمال کرکے اپنی حکمرانی کو معمول کے مطابق بنانا چاہتے ہیں؛ تاہم جمہوری نظام کی تفصیلات ہر ملک میں مختلف ہوتی ہیں۔ جمہوریت کے نظریے‘ اور اس کے اصولوں کا زمینی حقائق کے مطابق نفاذ‘ دونوں کا جائزہ لینا ضروری ہے۔ کئی بار کوئی ملک جمہوریت کے اصولوں کا خاکہ پیش کرنے میں مضبوط ہوتا ہے لیکن عملی طور پر ان اصولوں کی خلاف ورزی کرتا ہے۔ جمہوریت ایک سیاسی عمل ہے جو بتدریج ارتقا پذیر ہوتا ہے۔ یہ تصور کرنا غلط ہے کہ مثالی جمہوریت سے کم کا مطلب یہ ہے کہ جمہوریت بالکل نہیں۔ بے عیب جمہوری نظام کوئی نہیں ہو سکتا۔ یہ ایک سیاسی عمل ہے، اور اسے مضبوط بنانے کیلئے اس پر کام کرنا پڑتا ہے۔ آپ اس کے معیار کو بہتر بنانے کیلئے اس کے اصولوں کو ان کی حقیقی روح میں نافذ کرتے ہیں۔ اس کے فروغ کو معمولی نہیں سمجھنا چاہئے کیونکہ یہ الٹی سمت میں بھی جا سکتی ہے۔ آپ کو اس پر کام کرنا ہوتا ہے اور درمیان میں اس کی اصلاح کرنا ہوتی ہے تاکہ اس کو آگے بڑھایا جا سکے۔ سب سے زیادہ توجہ طلب معاملہ اس سوال کا جواب تلاش کرنا ہے کہ وقت کے ساتھ جمہوریت فروغ پذیر ہے یا زوال پذیر؟ اس کی ترقی کا انحصار معاشرے کے تمام طبقات کی جانب سے مسلسل کوششوں پر ہے تاکہ ریاستی اداروں اور پروسیسز میں جمہوریت کے اصولوں اور ان اصولوں کی روح کے اظہار کو یقینی بنایا جا سکے۔
جمہوریت میں ایک بڑی کمزوری یہ ہے کہ جمہوریت کی روح کو تباہ کرنے کے لیے جمہوری طریقے ہی استعمال کیے جا سکتے ہیں۔ کچھ لیڈروں کا خیال ہے کہ ان کی انتخابی جیت نے انہیں ریاستی امور کو اپنی پسند کے مطابق چلانے کا لائسنس دے دیا ہے‘ اور یہ کہ ان کی طاقت کی کوئی حد نہیں۔ جب اکثریتی حکمران آمرانہ حکمرانی قائم کرتا ہے اور اپوزیشن کو ریاستی طاقت سے دباتا ہے تو اسے ''اکثریت کا جبر‘‘ کہا جاتا ہے۔ کوئی لیڈر عوامی نعرے لگا کر، جذباتی اپیلیں کرکے، اور عوام کے عدم تحفظ کے نام پر کھیل کر یا نسلی اور فرقہ وارانہ نعرے لگا کر الیکشن میں سویپ تو کر سکتا ہے لیکن وہ معاشرے میں تقسیم کو بڑھاتا ہے۔ ایسے حکمران غیرجمہوری سیاسی نظام وضع کرتے ہیں یا پھر وعدے پورے کرنے میں ناکام رہتے ہیں‘ لہٰذا، جمہوریت میں ایسی صورتحال کا سامنا ہو سکتا ہے جہاں کوئی لیڈر مقبولیت کھونے کے باوجود حکمران رہے کیونکہ وہ انتخابات جیت چکا ہوتا ہے اور اس کی حمایت کیلئے پارلیمانی اکثریت موجود ہوتی ہے۔ اپوزیشن منقسم ہو‘ سیاست و معیشت کا متبادل نظریہ نہ رکھتی ہو تو غیرمقبول بھی حکومت جاری رکھ سکتا ہے۔
جمہوریت معاشی طور پر ان غالب طبقوں اور حکمران اشرافیہ کے ہاتھوں میں ایک آلہ بن سکتی ہے جو خود کو لوگوں کی فلاح و بہبود سے وابستہ ظاہر کرتے ہیں لیکن وہ جمہوریت کو خود کو برقرار رکھنے کیلئے استعمال کرتے ہیں اور دولت جمع کرنے اور اپنی حمایت بڑھانے کیلئے ریاستی مشینری اور وسائل کو انتہائی متعصبانہ انداز میں نہایت بے ایمانی کے ساتھ استعمال کرتے ہیں۔ ایسا جمہوری نظام خاندانی حکمرانی اور ارسٹوکریسی میں تبدیل ہو جاتا ہے اور اختلاف کو دبانے کے لیے آمرانہ طریقے استعمال کرتا ہے۔
جمہوریت معاشرے میں جڑیں پکڑ سکتی ہے اگر غالب اشرافیہ پالیسی سازی کیلئے وسیع پیمانے پر مشترک نقطہ نظر تیار کرنے کے لیے رواداری، سیاسی برداشت‘ متنازعہ مسائل پر مشاورت کے جمہوری کلچر کو اپنائے اور اس پر عمل کرے۔ جب تک جمہوریت میں مقابل سیاسی قوتیں ایک دوسرے کا احترام کرنا نہیں سیکھیں گی اور باہمی تعامل میں جمہوری اور پارلیمانی اصولوں کی پاسداری نہیں کریں گی جمہوریت کا معیار خراب رہے گا۔ پاکستان جیسے ملک میں جمہوریت کے معیار کو جانچنے کے لیے یہاں سات نکاتی کسوٹی پیش کی جا رہی ہے۔ حقیقی جمہوریت کیلئے پہلا بڑا معیار باقاعدہ وقفوں کے بعد انتخابات کا انعقاد ہے جنہیں حریف سیاسی جماعتوں کی اکثریت منصفانہ، آزادانہ اور شفاف تصور کریں۔ دوسرا، جمہوریت لبرل آئینی نظام کے تصور پر مبنی ہے۔ اس کا مطلب بہتر انداز میں وضع کردہ آئینی اور قانونی نظام ہے جو لوگوں کے شہری اور سیاسی حقوق، قانون کی حکمرانی کو تسلیم کرتا ہو اور جو مذہب، نسل، زبان، ذات، علاقہ اور جنس سے قطع نظر تمام شہریوں کی مساوات کا حامی ہو۔ جمہوریت ایک آزاد عدلیہ کے قیام کا بھی مطالبہ کرتی ہے۔ شہری اور سیاسی حقوق حکومت کی زیادتیوں کے خلاف تحفظ فراہم کرتے ہیں اور ان طاقتور یا انتہا پسند سماجی گروپوں کے خلاف بھی جو تشدد کا سہارا لیتے ہیں یا افراد اور کسی خاص کمیونٹی کے خلاف تشدد کے استعمال کی دھمکی دیتے ہیں۔
جمہوریت کی تیسری بڑی ضرورت حکمرانوں، ان کے افراد خانہ اور ان کے قریبی ساتھیوں کے احتساب کیلئے قوانین اور ادارہ جاتی انتظامات کی موجودگی ہے۔ انہیں سرکاری طاقت اور اختیار کے غلط استعمال، اقربا پروری اور سرکاری عہدے سے پیسہ بنانے اور فرائض میں شدید غفلت پر جوابدہ ٹھہرایا جا سکتا ہے۔ اعلیٰ ریاستی دفاتر کے حامل افراد جیسے صدر، وزرائے اعظم، گورنرز، وزرائے اعلیٰ اور وفاقی و صوبائی کابینہ کے ارکان اور دیگر اعلیٰ سرکاری خدمات سرانجام دینے والے افراد‘ براہ راست یا بالواسطہ طور پر کاروباری اور تجارتی سرگرمیوں میں حصہ نہیں لے سکتے۔
اچھی جمہوریت کا چوتھا معیار یہ ہے کہ حکومت کا مالیاتی لین دین، جیسے ریاستی مالی وسائل، ترقیاتی اور فلاحی منصوبے، سرکاری ٹھیکے اور تعمیرومرمت کے کام اور اشیائے صرف و خدمات کی فراہمی‘ شفاف ہونا چاہیے اور یہ کہ ان کاموں کیلئے مقابلہ کرنے والوں کو یکساں مواقع فراہم ہونے چاہئیں۔ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے تمام مالیاتی امور معیاری آپریٹنگ پروسیجرز اور آڈٹ کی ضرورت کے مطابق چلائے جانے چاہئیں۔ پانچواں معیار: اگر منتخب حکومت عام لوگوں کو بنیادی خدمات اور شہری سہولیات فراہم نہیں کرتی تو جمہوریت عوامی حمایت برقرار نہیں رکھ سکتی۔ وہ بنیادی کام جن کی منتخب حکومت سے توقع کی جاتی ہے‘ ان میں تعلیم، صحت کی دیکھ بھال، سماجی تحفظ، پینے کا صاف پانی، روزگار کے مواقع، شہری سہولیات اور وبائی امراض و قدرتی آفات سے تحفظ شامل ہیں۔ منتخب حکومت کو لوگوں کیلئے بہتر مستقبل کی امید کیساتھ پرامن اور محفوظ زندگی گزارنا ممکن بنانا چاہیے۔
چھٹا معیار: ریاستی پالیسیوں کو معاشرے میں سماجی و اقتصادی عدم مساوات میں اضافے اور غربت و پسماندگی کے بڑھنے کے خلاف تحفظ فراہم کرنا چاہئے۔ ایک جمہوری ریاست کو فلاحی ریاست ہونا چاہیے اور اسے آبادی کے غیر مراعات یافتہ اور پسماندہ طبقات کا خیال رکھنا چاہیے۔
ساتواں: منصفانہ اور آزادانہ انتخابات جمہوریت کو پرکھنے کا ایک معیار ہے۔ 'دو انتخابات کے درمیان کیا ہوتا ہے‘ یہ کم اہم نہیں۔ منتخب حکومت کو بھی شہریوں کیلئے غیر امتیازی بنیادوں پر مذکورہ بالا کاموں کو انجام دے کر کارکردگی کے معیار پر پورا اترنا چاہیے۔ منتخب حکومت کی کارکردگی حکومت اور جمہوری عمل کے لیے عوام کی حمایت کی کلید رکھتی ہے۔ سویلین حکومت اور سویلین لیڈروں کی اصل طاقت عوامی حمایت ہوتی ہے جو عام لوگوں کی فلاح و بہبود کے لیے کام کیے بغیر نہیں مل سکتی۔
جمہوریت برقرار اور پھل پھول سکتی ہے اگر منتخب حکومت ان اہداف کے حصول کیلئے کام کر رہی ہے اور اگر عوام اپنے تجربے سے سیکھیں کہ حکومت حقیقی طور پر ان کے معیار زندگی کو بہتر بنانے کے لیے کام کر رہی ہے۔ اگر منتخب حکومت کارکردگی پر ڈٹ جائے تو یہ اس کے سیاسی مستقبل کو خطرے میں ڈالنے کے ساتھ ساتھ جمہوریت پر عوام کا اعتماد بھی کمزور کر دیتی ہے۔