پاکستان کا آئین پارلیمانی نظامِ حکمرانی فراہم کرتا ہے اور اس کے مطلوبہ ادارے‘ اور طریق کار‘ پاکستان میں کام کر رہے ہیں؛ تاہم سیاسی جماعتیں اکثر حکمران جماعت کو چیلنج کرنے اور اپنے سیاسی ایجنڈوں کو آگے بڑھانے کے لیے پارلیمنٹ کے باہر سیاسی دباؤ کا استعمال کرتی ہیں۔ پارلیمنٹ کے باہر ہونے والی سیاسی پیش رفت نے اکثر ملک میں اہم تبدیلیاں رونما کی ہیں۔ پاکستان میں عام سیاسی طریقوں میں میڈیا پر سخت اور غیر مہذب بیانات‘ اعلیٰ قیادت کی طرف سے عوامی ریلیوں سے خطاب‘ سیاسی مارچ اور دھرنے شامل ہیں۔ مرکزی دھارے میں شامل زیادہ تر سیاسی اور مذہبی جماعتوں نے کسی نہ کسی وقت ان طریقوں کا سہارا ضرور لیا ہے۔کثرت سے ہونے والے جلسوں‘ سیاسی مارچوں اور دھرنوں کا ایک دفاع یہ کیا جاتا ہے کہ اس طرح کی سرگرمیوں میں حصہ لینا ہر پارٹی کا جمہوری حق ہے بشرطیکہ یہ قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے پُرامن اور منظم طریقے سے کی جائیں‘ اور یہ کہ ایسی سرگرمیاں ظاہر کرتی ہیں کہ جمہوریت کام کر رہی ہے۔ عوامی ریلیوں کا اہتمام اور مارچ کرنا کسی فرد اور کسی گروہ کا بنیادی حق ہو سکتا ہے۔ اہم سوال یہ ہے کہ ایسی سیاسی سرگرمیاں ان ممالک میں کیوں نہیں ہوتیں جن کے بارے میں تصور کیا جاتا ہے کہ وہاں پارلیمانی نظام آئینی اصولوں اور جمہوری روایات کی اصل روح کے مطابق رائج ہے۔ برطانیہ میں ہاؤس آف کامنز میں قائدِ حزب اختلاف نے کتنی بار مختلف شہروں میں جلسے کیے اور کتنی بار دوسرے شہروں سے لندن تک مارچ کی قیادت کی؟ برطانوی وزیر اعظم نے گزشتہ دو سال میں کتنے عوامی جلسوں سے خطاب کیا؟ اسی طرح جرمنی میں اپوزیشن لیڈر نے اب تک جرمنی کے مختلف حصوں سے اپنے حامیوں کے دارالحکومت برلن تک مارچ کی قیادت کیوں نہیں کی؟ جرمن چانسلر کتنی بار بڑے جلسوں سے خطاب کرتے ہیں؟ایک اور اہم اور قابلِ غور سوال یہ ہے کہ یورپ میں پارلیمانی نظام میں حکومتوں نے کتنی بار جمہوریت کے نام پر جابرانہ طریقے اختیار کیے جیسا کہ پاکستان کی حکومت نے 24‘25 مئی کو کیا؟ پاکستان میں جس قسم کی سیاسی سرگرمیاں اور حکومتی جبر مشاہدے میں آتا ہے‘ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہاں جمہوریت اور آئین پسندی کے حوالے سے سنگین مسائل موجود ہیں۔ اس سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ پاکستان میں جو چیز اہم ہے‘ وہ ایک دوسرے کا مقابلہ کرنے والے سیاسی رہنماؤں کی انا‘ کسی بھی طریقے سے اقتدار پر قبضہ کرنے یا قبضہ برقرار رکھنے کی خواہش‘ اور اگر ممکن ہو تو سیاسی مخالف کو سیاسی میدان سے باہر کر دینا ہے۔ یہ سب پارلیمانی جمہوریت کی روح کے خلاف ہے۔
ایک کامیاب پارلیمانی نظام کے لیے سماجی سطح پر جمہوری کلچر کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ سیاسی قائدین ہی ہیں جو اپنے سیاسی طرزِ عمل سے لوگوں کو جمہوری کلچر اپنانے کی ترغیب دیتے ہیں۔ جمہوریت کا بنیادی ثقافتی مفروضہ یہ ہے کہ ایک دوسرے کا مقابلہ کرنے والے سیاسی رہنما مشکل مسائل کے قابلِ عمل اور وسیع پیمانے پر قابلِ قبول حل تیار کرنے کے لیے کام کرتے ہیں۔ جمہوریت سیاسی رہنماؤں کی طرف سے رواداری‘ سیاسی مطابقت پیدا کرنے اور باہمی احترام پر زور دیتی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ پاکستان میں حکمران اور اپوزیشن جماعتوں نے ایک دوسرے کے خلاف سیاسی جنگ کا اعلان کر دیا ہے۔ وہ عملی طور پر ایک دوسرے کو سیاسی میدان سے باہر کرنا چاہتی ہیں اور ہر پارٹی سیاسی عمل اور ریاستی مشینری پر اپنا تسلط قائم کرنا چاہتی ہے۔ مسائل کے حل کا درمیانی راستہ تلاش کرنے کی شاید ہی کوئی کوشش ہوتی ہے۔ موجودہ وفاقی حکومت اور پنجاب حکومت اپوزیشن‘ یعنی پی ٹی آئی کے کردار کو ریاست مخالف قرار دیتی ہے اور دونوں فریق ایک دوسرے کو کسی نہ کسی وقت ریاست کے لیے خطرہ قرار دیتے رہے ہیں۔
سیاسی قائدین کا ایک اور جمہوریت مخالف مزاج ان کا وہ سیاسی محاورہ ہے جو گستاخانہ‘ غیر پارلیمانی اور ایک دوسرے کے بارے میں مخالفانہ تبصروں پر مشتمل ہوتا ہے۔ اقتدار میں موجود پارٹی اور اپوزیشن میں موجود پارٹی‘ دونوں کے کچھ کارکنوں نے اپنے سیاسی مخالفین کے لیے منفی عنوانات اور الفاظ استعمال کرنے کی اپنی شہرت حاصل کر رکھی ہے۔ایک دوسرے کے بارے میں اس طرح کے عدم برداشت اور انتہا پسندانہ نقطہ نظر نے پاکستانی سیاست کو اس طرح تقسیم کر دیا ہے کہ سیاسی لحاظ سے اکاموڈیشن کے امکانات محدود دکھائی دیتے ہیں۔ اقتدار میں ہوں یا اپوزیشن میں‘ سیاسی لیڈروں کو ایک دوسرے کو مکمل طور پر مات دینے کے لیے اپنی جابرانہ جدوجہد کی ایک حد کو تسلیم کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ خود کو تباہ کرنے والا طرزِ عمل ہے کیونکہ ایسی صورتحال میں سیاست بنیادی طور پر انسانی فلاح اور سماجی ہم آہنگی پر توجہ نہیں دے پاتی۔ سیاسی حریف کو ناک آؤٹ کرنے کی اس قسم کی سیاست سویلین عمل اور سیاسی اداروں کو کمزور کرتی ہے۔
دائمی لامحدود سیاسی مقابلے بازی نے جمہوریت کے مستقبل کے لیے دو اضافی مسائل پیدا کر دیے ہیں۔ پہلا‘ جمہوریت کے بنیادی آداب اور اقدار‘ سیاست کے لیے رہنما اصول نہیں بن سکے ہیں۔ اس کے معاشرے پر بھی منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں جہاں تحمل اور دوسرے کو برداشت کرنے کی روایت کو ترک کر دیا گیا ہے۔ علاوہ ازیں عام زندگی میں لوگ قانون کا کم ہی احترام کرتے ہیں اور اختلاف پر اکثر ایک دوسرے کو برداشت نہ کرنے کی روش پائی جاتی ہے‘ جبکہ جنگی اور عدم برداشت کی سیاست نہ صرف سیاسی عمل کو نقصان پہنچاتی ہے بلکہ بہت سے لوگوں کے طرزِ عمل پر منفی اثرات بھی مرتب کرتی ہے۔ دوسرا‘ سیاسی رہنماؤں کے درمیان تلخ لڑائی انہیں اس قدر متنازع بنا دیتی ہے کہ کوئی ایک رہنما ملک گیر سطح پر مؤثر اپیل نہیں کر سکتا۔ اگر حکمران جماعت کے رہنما کوئی پالیسی تجویز پیش کرتے ہیں تو اپوزیشن اسے فوراً مسترد کر دیتی ہے۔ اسی طرح اگر اپوزیشن کوئی سیاسی تجویز پیش کرے تو حکمران جماعت میرٹ پر زیرِ غور نہیں لاتی اور اسے مسترد کر دیتی ہے۔ محاذ آرائی کی اس قسم کی سیاست سیاسی اداروں کے لیے اپنی برتری کو یقینی بنانا مشکل بنا دیتی ہے۔ اگر کسی ریاست کا پولیٹکل ہائوس منقسم ہو جائے تو دوسری ریاستیں بھی اپنے فائدے کے لیے اس طرح کے تنازع کا فائدہ اٹھاتی ہیں۔ اگر ملکی سیاست انتہائی منقسم اور بکھری ہوئی ہو تو ریاست کو عالمی سطح پر اپنے مفادات کا دفاع کرنے کی اپنی صلاحیت پر سمجھوتا کرنا پڑتا ہے۔ دائمی تصادم کی سیاست معاشی ترقی کے لیے ضرر رساں ہے۔ پاکستان کا سب سے مشکل چیلنج اس کی لڑکھڑاتی ہوئی معیشت اور عام آدمی کی سطح پر بڑھتی ہوئی غربت اور پسماندگی ہے۔ پاکستان کے معاشی مسائل کو مؤثر طریقے سے حل کیا جا سکتا ہے اگر سیاسی رہنما محاذ آرائی کو کم کریںاور موافق سیاست کی سمت بڑھیں۔ سماجی و اقتصادی مسائل‘بیرونی خطرات اور اندرونی دہشت گردی کے خلاف قومی سلامتی کے مسائل پر متفق ہونے کی اشد ضرورت ہے۔
پاکستان کے پاس خاصی اقتصادی صلاحیت اور تربیت یافتہ افرادی قوت ہے جو معاشی گراوٹ کو روک سکتی ہے۔ اس مقصد کے حصول کے لیے کام کرنے کا سب سے اہم عنصر سیاسی قیادت کی جانب سے دور اندیشی ہے‘ جسے یہ تسلیم کرنے کی ضرورت ہے کہ مسلسل تصادم ہی سیاست کا واحد راستہ نہیں۔ یہ وقت ہے کہ قومی معاملات کو سنبھالنے کے لیے نئی حکمت عملی پر غور کیا جائے۔ یہ حکمت عملی عملاً جمہوری کلچر کو اپنانا ہے۔ اس بات پر زور دینا ہے کہ اپنے سیاسی ایجنڈوں میں اختلافات کے باوجود‘ انہیں اپنی سیاست کو جمہوری ثقافت‘ سیاسی موافقت اور باہمی احترام کے تناظر میں آگے بڑھانے کی ضرورت ہے۔ اس سے وہ دوسرے معاملات پر اپنے اختلافات برقرار رکھتے ہوئے قومی اہمیت کے معاملے پر متفق ہو سکتے ہیں۔ پاکستان کو جنگی سیاست کے بجائے تعاون کی ضرورت ہے۔