پاکستان میں سیاسی تقسیم اتنی گہری ہو چکی ہے کہ سیاسی جماعتیں اور ان کے قائدین سیاست او رمعیشت کے تلخ حقائق کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ ہر سیاسی جماعت کی قیادت نے محدود جماعتی مفادات اور انا پرستی کی آڑمیں اپنے اپنے خود ساختہ سچ گھڑ رکھے ہیں۔وہ اپنی سیاسی کوتاہیوں اور معاشی بگاڑ کو غیر ملکی سازشوں سے منسوب کر دیتے ہیں یا ان کا سارا ملبہ اپنے سیاسی حریفوں کی حکومتوں کے سرپر ڈال دیتے ہیں۔ہر سیاسی جماعت اور اس کی قیادت قومی مقاصد سے مخلص ہونے اور عوام کی فلاح وبہبود کے لیے کام کرنے کی دعویدار ہے۔ اپنے سیاسی حریفوں کو ملک دشمن‘غیر ملکی ایجنٹ اور ہر برائی کی جڑ قرار دے دیا جاتا ہے۔
سندھ میں دوسرے مرحلے کے بلدیاتی الیکشن کے دوران جنم لینے والے تنازعات متحارب سیاسی جماعتوں میں پائے جانے والے عدم اعتماد کی بھرپور عکاسی کرتے ہیں۔ان تنازعات نے نہ صرف الیکشن کے نتائج پر سوالیہ نشان لگا دیا ہے بلکہ ہمیں خبردار بھی کر دیا ہے کہ بلدیاتی یا وفاقی سطح پر ہونے والے الیکشن کے دوران کیسے کیسے ایشوز کھڑے ہو سکتے ہیں۔ اسی طرح پنجاب میں نگران وزیر اعلیٰ کی تقرری پر کھڑے ہونے والے تنازعے سے بھی ثابت ہوتا ہے کہ کسی بھی مسئلے کا غیر جانبدارانہ حل اتنا آسان نہیں ہوتا۔ان دونوں واقعات سے پتہ چلتا ہے کہ متحارب سیاسی جماعتوںمیں کس طرح کی سیاسی تقسیم اور عدم اعتماد کی فضا پائی جاتی ہے‘ایسے سنگین شکوک و شبہات کی موجودگی میں کیا ایسے الیکشن کا انعقاد ممکن ہے جس پر تمام سیاسی جماعتوں کو صاف شفاف اور آزادانہ ہونے کا یقین ہوسکے؟ ہمارے ہاں سیاسی عمل اتنی تیزی سے انحطاط پذیر ہے کہ اس کی پائیداری کا یقین کرنا بھی مشکل ہو چکا ہے۔
پاکستان کی موجودہ سیاست جمہوریت کے لیے سازگار ہے نہ یہ ہمارے جاری معاشی مسائل کے حل کی سکت او رصلاحیت رکھتی ہے۔ جمہوری سیاست کے بارے میں دعویٰ کیا جاتا ہے کہ یہ ایک ایسا طریقہ کار ہے جس میں پیچیدہ اور سنگین مسائل کوبھی مشاورتی عمل سے حل کیا جاسکتا ہے۔ جمہوریت برداشت‘سیاسی رواداری اور متنازع ایشوز پر مکالمے سے عبارت ہے۔ حکومت او راپوزیشن مخلص سیاسی کھلاڑی کے طور پر ایک دوسرے پر بھروسا کرتے ہیں اور ان سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ اہم قومی امور پر افہا م و تفہیم کو فروغ دیں گے۔اپنے سیاسی عزائم اور مقاصد میں اختلافات کے باوجود سیاسی قائدین قومی اہمیت کے حامل امور پر مشترکہ اپروچ اپنانے کے لیے ایک دوسرے کے ساتھ رابطے برقرار رکھتے ہیں تاکہ عام آدمی کی زندگی میں بہتری لانے کے لیے اقدامات کیے جا سکیں۔
پاکستانی سیاست جمہوریت کی ان صفات سے محروم ہے اور یہی بات جمہوریت کے لیے انتہائی نقصان دہ ثابت ہوئی ہے۔ حکومت اور اپوزیشن کے دو طرفہ تعلقات اس قدر کشیدہ ہیں کہ وہ کسی بھی متنازع مسئلے پر ایک دوسرے سے بات چیت کے لیے آمادہ نہیں ہیں۔دونوں اطراف کے کئی لیڈر ایک دوسرے کے لیے اخلاق باختہ زبان استعمال کرتے ہیں۔یہ جمہوری اصولوں کو اسی حد تک قبول کرتے ہیں جہاں تک وہ ان کے ذاتی یا گروہی مفادات کی تکمیل کرتے ہیں۔سیاسی رہنمائوں کے باہمی اختلافات او رکشیدگی نے پارلیمنٹ کے کردار پر بھی منفی اثرات مرتب کیے ہیں۔پارلیمان کے اجلاس اکثر ہلڑ بازی‘ بدزبانی اور ہنگامہ آرائی کی نذ ر ہوجاتے ہیں؛ چنانچہ پارلیمان جو سیاسی تنازعات کے حل کے لیے ایک موزوں ترین ادارہ سمجھا جاتاہے بے وقعت ہو کر رہ گیا ہے۔
پاکستان میں پائی جانے والی جمہوریت دراصل جاگیرداری اور موروثی بادشاہت کا امتزاج ہے۔ ایسے نظام میں حکمران محض خیرات کے طورپر عوام کی فلاح کے لیے چند ایک اقدامات کر دیتے ہیں۔ اشرافیہ کے درمیان جاری سیاست اور اقتدارکے اس کھیل کا اصل مقصد ریاستی مشینری او روسائل پر اپنی اجارہ داری برقرار رکھنا ہو تا ہے۔ اشرافیہ کا ہر گروہ اپنے ذاتی مقاصد کی تکمیل کے لیے بہرصورت اقتدار پر قابض رہنا چاہتا ہے؛ تاہم اپنے مفادات کے حصول کے لیے اشرافیہ کبھی کبھار عوام کو بھی اس کھیل میں شریک کرلیتی ہے اور ان خدما ت کے عوض اُن کی جھولی میں بھی کچھ نہ کچھ ڈال دیا جاتا ہے۔ تاہم ہمارا یہ سیاسی نظام مکمل طورپر اشرافیہ کے قبضے میں ہے۔ریاستی مشینری پر اشرافیہ کا قبضہ اور ناقص گورننس اس معاشی بحران سے نبرد آزما ہونے میں مددگار ثابت نہیں ہورہے۔ گورننس کی ساری توجہ اس امر پر مرکوز ہے کہ اقتدار پر بہر صورت اپنا قبضہ برقرار رکھا جائے اور ریاستی وسائل کو پوری جانبداری سے استعمال کیا جائے۔
پاکستانی معیشت اس وقت سنگین مشکلات سے دوچار ہے۔ اس کے تمام اشاریے منفی ہیں اور پاکستان اپنے داخلی وسائل سے غیر ملکی قرضے واپس کرنے سے قاصر ہے۔ پاکستان کے زر مبادلہ کے ذخائر اس حد تک کم ہو چکے ہیں کہ وہ اب اپنی صنعتوں اور بجلی کی پیداوار کے لیے مطلوبہ خام مال اور دیگر اشیائے ضروریہ درآمد کرنے کی سکت بھی نہیں رکھتا۔طرفہ تماشا یہ کہ بجٹ خسارہ اورافراطِ زر بے قابو ہیں۔ اشیائے ضروریہ کی قیمتیں آسمان سے باتیں کررہی ہیں۔ان چیلنجز سے صرف اسی صورت نمٹنا ممکن ہے اگر ملک میں جاری سیاسی کشیدگی میں کمی لائی جائے‘حکومت او راپوزیشن کے درمیان ورکنگ ریلیشن شپ میں بہتری لائی جائے۔متحارب سیاسی رہنمائوں کے درمیان افہام وتفہیم پیدا کی جائے کہ موجودہ معاشی بحران سے کیسے نکلنا ہے۔
اس آرٹیکل میں پاکستانی سیاست کی جو حالتِ زار بیا ن کی گئی ہے اس سے ایسا کوئی امکان نظر نہیں آتا کہ باہم دست و گریباں اشرافیہ کے درمیان کم از کم سطح پر تعاون کی فضا قائم کی جاسکتی ہے۔ ملکی معیشت میں اسی صورت بہتری ممکن ہے اگر پیشہ ورانہ تقاضوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے سخت فیصلہ سازی کی جائے‘ مگر ایک کمزور سیاسی حکومت اور سنگین محاذ آرائی کے سیاسی ماحول میں ایسا ناممکن نظر آتا ہے۔دو صوبائی اسمبلیوں کی تحلیل سے سیاسی بے یقینی اور سیاسی نظام میں پائی جانے والی محاذآرائی میں اضافہ ہوگیا ہے۔ اس بے یقینی میں مزید اضافہ اس وقت ہو گیا جب قومی اسمبلی کے سپیکر نے جانبداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے پی ٹی آئی کے 123 ارکان کے استعفے ٰ قبول کرلیے اور اپنے سابقہ مؤقف کو بھی ملحوظ خاطر نہ رکھا کہ وہ یہ استعفے ٰ صرف اسی صورت میں قبول کریں گے جب استعفیٰ دینے والا رکن اسمبلی طے شدہ قانونی تقاضے پورے کرے گا۔ سپیکر کے اس فیصلے اور دو صوبائی اسمبلیوں کی تحلیل سے قبل وفاق میں پی ڈی ایم کی مخلوط حکومت اپنی رہی سہی ساکھ سے بھی محروم ہو گئی۔یہ کہاں کی دانشمندی ہوگی کہ پہلے مارچ اپریل میں قومی اسمبلی کی 33 اوردو صوبائی اسمبلیوں کی تمام نشستوں پر الیکشن کرائے جائیں اور ستمبر میں پھر قومی اسمبلی او ردو صوبائی اسمبلیوں کے الیکشن کرائے جائیں؟یوں اکتوبر تک بے یقینی کی یہ فضا اسی طرح برقرار رہے گی۔اس طرح دو مراحل میں الیکشن کرانے سے انتخابی اخراجات دو‘ تین گنا بڑھ جائیں گے۔اگر الیکشن مختلف مراحل میں کرائے جائیں تو نگران حکومتوں کا نظام بھی موثر انداز میں کام نہیں کرسکے گا۔پاکستان کے دیرینہ معاشی بحران اور سیاسی بے یقینی کا تقاضا ہے کہ جس قدر جلد ممکن ہو تمام انتخابات بیک وقت کرادیے جائیں۔شاید اس سال مئی کے مہینے میں الیکشن کاانعقادممکن ہو سکے۔
اگر پاکستان میں سیاسی او رمعاشی حالات اسی طرح جاری رہے تو وفاقی سطح پر گورننس سسٹم آئندہ تین چار ماہ میں ہی تباہی کے کنارے پہنچ جائے گا خاص طور پر جب حکومت آئی ایم ایف سے فنڈز لینے کے لیے نئے ٹیکس نافذ کرنے کے علاوہ ایندھن‘گیس او ربجلی کی قیمتوں میں اضافہ کرے گی۔