"HAC" (space) message & send to 7575

مشرقِ وسطیٰ میں امن و استحکام کے امکانات

رواں سال مارچ میں چین نے ایران اور سعودی عرب میں دو طرفہ تعلقات کو نارمل کرانے کیلئے جو معاہدہ کرایا وہ اس امر کا غماز ہے کہ چین مشرقِ وسطیٰ میں کتنا نمایاں کردار ادا کرنے جارہا ہے اور اب مشرقِ وسطیٰ کے دوطرفہ تنازعات میں چین سنٹر سٹیج پر براجمان ہوگا۔ دسمبر 2022ء میں چین کے صدر شی جن پنگ کے دورئہ سعودی عرب اورایران کیساتھ اس معاہدے سے مشرقِ وسطیٰ میں چین کے متحرک کردار کی عکاسی ہوتی ہے جس میں اس کا سارا فوکس مشرقِ وسطیٰ کے تنازعات کو حل کرنے پر ہے۔
اگر ہم دوسری جنگ عظیم کے بعد مشرقِ وسطیٰ کے باہمی تنازعات کا بغور جائزہ لیں تو پتا چلتا ہے کہ ان کے پس پردہ ان ممالک میں باہمی حسد‘ بداعتمادی‘کشیدگی اور ایک دوسرے کی حکومتوں کا تختہ الٹنے جیسے محرکات کار فرما ہیں۔ تاہم مشرقِ وسطیٰ کے اہم ممالک کے موجودہ حکمرانوں کو اس بات کا بخوبی ادراک ہو گیا ہے کہ ان ممالک کے باہمی تنازعا ت کی وجہ سے نہ صرف ان کی ریاستی توانائیاں ضائع ہور ہی ہیں بلکہ خطے کا امن اور استحکام بھی خطرے میں ہے۔اس آرٹیکل میں مشرقِ وسطیٰ میں پائے جانے والے تنازعات اور ان مسائل کا مختصر احوال ملے گا جو باہمی کشیدگی اور بداعتمادی کا باعث ہیں۔ ان تنازعات نے بیرونی طاقتوں کو خطے میں مداخلت کا موقع فراہم کررکھا ہے۔ ان تنازعات کا جائزہ لینے سے یہ امر واضح ہو جاتا ہے کہ اگر یہ ممالک ایران سعودیہ معاہدے کی طرح اپنے علاقائی مسائل حل کرلیں تو اس سے ان سب کو فائدہ ہوگا۔
تاریخی تناظر میں دیکھا جائے تو مشرقِ وسطیٰ اور خلیج کی علاقائی سیاست پیچیدہ اور غیریقینی کا شکار ہے۔ وقت گزرنے کیساتھ مڈل ایسٹ میں دوستیاں اور دشمنیاں بدلتی رہتی ہیں۔ اگر ایک ملک کے خطے کے کسی دوسرے ملک کے ساتھ دوستانہ مراسم ہیں تو کسی اور موقع پر ان کی یہی دوستی کشیدگی میں بھی بدل سکتی ہے۔ تعلقات کی اس بے یقینی کے پیش نظر پاکستان کو چاہئے کہ وہ عرب ممالک کے باہمی تنازعات میں مداخلت سے خو د کو دور رکھے اور انہیں صائب مشورہ دے کہ وہ پُرامن اور سفارتی ذرائع سے اپنے تنازعات طے کریں۔دوسری جنگ عظیم کے بعدعرب ممالک میں باہمی کشیدگی اور تعاون کی ملی جلی فضا مشرقِ وسطیٰ کی سیاست کامستقل اور نمایاں وصف رہا ہے خصوصاً جب جولائی 1952ء میں جمال عبدالناصر سمیت فری آفیسر گروپ کی حمایت سے پہلے جنرل محمدنجیب کی قیاد ت میں بغاوت ہوئی اور ا س کے بعدجب 1954-56ء میں جمال عبدالناصر بذاتِ خودمصر میں اقتدار پر قابض ہوگئے تھے۔
جمال عبدالناصر کے 'عرب قوم پرستی‘کے نعرے نے مشرقِ وسطیٰ کے کئی ممالک میں نئی اور انقلابی سیاسی قوتوں کو متعارف کرایا جس کے نتیجے میں خطے میں ایک نمایا ں سیاسی تقسیم دیکھنے میں آئی۔عرب قوم پرستی کے نعرے نے مشرقِ وسطیٰ میں قدامت پسند‘امریکہ نواز بادشاہتوں کواتنا پریشان کردیاکہ اس سے کئی ممالک متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔1960ء کی دہائی میں مشرقِ وسطیٰ کی سیاست عرب قوم پرستی کے مثبت اور منفی اثرات کی وجہ سے تقسیم ہو گئی۔ستمبر 1970ء میں جمال عبدالناصر کے انتقال کے بعد انورالسادات نے مصر کی صدارت سنبھال لی جنہوں نے اسرائیل کیساتھ دو طرفہ معاملات براہِ راست طے کرنے کی غرض سے نومبر 1977ء میں یروشلم کا دورہ کیا جس نے مشرقِ وسطیٰ کو مزید تقسیم کردیا۔اسرائیل کیساتھ یک طرفہ روابط قائم کرنے کی پاداش میں عرب لیگ نے مصر کی رکنیت معطل کردی۔مصر کی عرب لیگ میں دوبارہ واپسی میں کئی برس لگ گئے۔
2011ء اور اس کے بعد مڈل ایسٹ میں 'عرب سپرنگ‘کی لہر نے ایک نئے سیاسی بحران کو جنم دیا۔ مصر‘شام‘ لیبیا اور یمن جیسے ممالک کو سیاسی ہلچل کا سامنا کرنا پڑا جس پرامریکہ‘یورپی ممالک اور خطے کے کئی ممالک کوان ریاستوں میں سیاسی اور فوجی مداخلت کا بہانہ مل گیا۔مصر کو سیاسی انتشار‘انتخابات اور فوجی بغاوت کے تجربے سے گزرنا پڑا جس کے نتیجے میں وہاں ایک آمرانہ حکومت برسر اقتدار آگئی‘ تاہم مصر میں سیاسی استحکا م لو ٹ آیا۔ لیبیا بھی اُس وقت سیاسی افراتفری کا شکار ہو گیاجب کرنل قذافی کے خلاف بغاوت ہوگئی اور وہ اس میں مارے گئے۔امریکہ او ربعض یورپی ممالک نے لیبیا میں کھلی مداخلت کی اور یوں داخلی گروپوں کو قذافی کاتختہ الٹنے کا موقع مل گیا۔تاہم لیبیا قذافی حکومت کے خاتمے کے بعد بھی مسلسل داخلی انتشار سے دوچار ہے۔
شا م کے صدر بشارالاسد کو 2011ء میں داخلی شورش کا سامنا کرنا پڑا جو گیارہ سال تک جاری رہی۔ قدامت پسندہمسایہ عرب بادشاہتوں اور امریکہ نے شام کے حکومت مخالف عناصر کو سپورٹ کیاجنہوں نے شامی حکومت کے خلاف شدید دبائو پیدا کیا؛ تاہم صدر بشار الاسد اس بحران سے بچ نکلنے میں کامیاب ہوگئے کیونکہ شامی فوج نے بڑے پیمانے پر ان کا ساتھ دیا۔انہیں روس اور ایرا ن سے بھی فوجی اور سیاسی امداد ملتی رہی۔ 2011ء میں عرب لیگ نے شام کی رکنیت اس بنا پر معطل کردی تھی کہ شامی حکومت نے اپنے مخالفین کے خلاف ریاستی جبراور قوت کا اندھادھند استعمال کیا ہے۔2017ء میں قطر اور دیگر ہمسایہ ممالک میں ایک نئی فالٹ لائن بن گئی۔ ان ممالک نے قطر پر الزام عائد کیا کہ وہ خطے میں موجود شدت پسندوں کو سپورٹ کرکے دہشت گردی کو فروغ دے رہا ہے۔ اس بائیکاٹ کی ایک اور وجہ قطر کے ایران کیساتھ قریبی تعلقات تھے جس کیساتھ ان چاروں ممالک کے کشیدہ تعلقات تھے۔ قطر کے ساتھ زمینی‘ فضائی اور بحری رابطے معطل کر دیے گئے۔ یہ کشیدگی جنوری 2021ء میں اس وقت اپنے اختتام کو پہنچی جب سعودی عرب اور دیگر عرب ممالک نے قطر کے ساتھ اپنے تعلقات از سر نومعمول پر لانے کا فیصلہ کرلیا۔
مشرقِ وسطیٰ میں سب سے سنگین فالٹ لائن سعودی عرب اور ایران کے کشیدہ تعلقات کی صورت میں ہے۔ اگرچہ ا س کشید گی کے ڈانڈے ایران میں اسلامی انقلاب کے ابتدائی ایام سے ملتے ہیں جب ایران کی اسلامی حکومت نے یہ انقلاب مشرقِ وسطیٰ کے دیگر ممالک کو بھی برآمد کرنے کی باتیں شروع کردیں۔ ایران کا بڑا ہدف قدامت پسند اور امریکہ نواز بادشاہتیں تھیں۔ایران اور سعودی عرب نے 2016ء میں اپنے سفیروں کی سطح کے تعلقات معطل کردیے تھے۔دونوں ممالک یمن‘شام اور لبنان میں متحارب گروپوں کو سپور ٹ کرکے ایک پراکسی جنگ میں بھی ملوث ہوگئے۔ غزہ کی پٹی میں ایران کی حماس اور لبنان میں حزب اللہ کی سپورٹ کرنے سے دونوں ممالک میں مزید دوری پیدا ہوگئی۔ ایران نے اسرائیل کیساتھ کھلی محاذآرائی شروع کر دی مگر سعودی عرب اسرائیل کیساتھ کشیدگی سے پاک پالیسی پر عمل پیرا رہا۔ سعودی عرب کیلئے تشویش کی ایک بڑی وجہ ایران کا جوہری پروگرام بھی تھا۔جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے 2018ء میں ایران کیساتھ جوہری معاہدہ منسوخ کردیا تو سعودی عرب نے اطمینان کا اظہار کیا۔
چین کے ایما پر ایران او رسعودی عرب کے مابین سفارتی تعلقات معمول پر لانے کا معاہدہ ہونے سے مشرقِ وسطیٰ میں امن و استحکام کا ایک نیادور شروع ہونے کا بھی امکان پیدا ہو گیا ہے۔اب یمن اور شام میں جاری ایران اور سعودی عرب کی پراکسی جنگ ختم ہونے کی توقع بھی کی جاسکتی ہے۔ ایران سعودی تعلقا ت میں بہتری آنے کے بعد پاکستان کے لیے بھی ایران کیساتھ کثیر جہتی اور سرگرم تجارتی او ر معاشی تعلقات فروغ دینے کی راہ ہموا رہو جائے گی۔اس کے بعد ایران پاکستان گیس پائپ لائن بھی مکمل ہو جائے گی اوریوں پاکستان میں صنعتوں او رگھریلو گیس کی قلت بھی دور ہوجائے گی۔ پاک ایران تعلقات میں بہتری آنے کے بعد دونوں ممالک میں باہمی انحصار میں بھی اضافہ ہوگا۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں