ہم اکثر پاکستان اور افغانستان کے مابین صدیوں پرانے تاریخی اور ثقافتی تعلقات کے بارے میں بات کرتے ہیں۔ یہ سچ ہے کہ اس رشتے کی تاریخی جڑیں گہری ہیں لیکن اس سب کے باوجوددونوں ملکوں کے تعلقات پیچیدہ اور دشواری کا شکار ہیں۔ 1947تا1979ء کے دوران پاکستان اور افغانستان کے درمیان تعلقات میں سنگین مسائل تھے جبکہ 1955ء اور 1962ء میں سفارتی تعلقات معطل کر دیے گئے۔ 1979ء کے بعد کا دور بھی مسائل سے پاک نہیں رہا۔ افغانستان سے سوویت فوجیوں کو بے دخل کرنے میں پاکستان نے امریکہ اور عرب ریاستوں کے ساتھ کلیدی کردار ادا کیا۔ پاکستان نے افغانستان میں سوویت فوجی مداخلت کے سالوں میں دسیوں لاکھ افغان مہاجرین کی میزبانی بھی کی اور افغان جنگ کے سابق فوجیوں نے پاکستان میں ''بندوق کی ثقافت‘‘ متعارف کروائی۔ آج بھی تقریباًچودہ لاکھ رجسٹرڈ افغان مہاجرین پاکستان میں مقیم ہیں جبکہ غیر رجسٹرڈ افغان مہاجرین کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ان کی تعداد بھی تقریباًدس لاکھ ہے۔
اگست 2021ء میں جب طالبان نے افغان اور امریکی حکام سے کابل کا قبضہ لیاتو پاکستان میں طالبان کے ہمدردوں‘ خاص طور پر قدامت پسند مذہبی گروہوں نے خوشی کا اظہار کرتے ہوئے یہ استدلال کیا کہ کابل میں پاکستان دوست حکومت قائم ہوئی ہے۔مگر یہ امید پوری نہیں ہوئی۔ افغان طالبان کابل میں اپنی حکومت کے مقابلے میں غیر سرکاری سطح پر پاکستان پر زیادہ تنقید کرتے آ رہے ہیں۔ان کی شکایت ہے کہ پاکستانی حکا م ایک ''حاکم‘‘کی طرح کا برتاؤ کرتے ہیں اور توقع کرتے ہیں کہ طالبان اُن کی ہدایات کی تعمیل کریں گے اور افغانستان میں تضادات کو اُن کے حق میں استعمال کریں گے۔
پاکستان افغانستان میں مقیم پرتشدد گروہوں کی دہشت گردی کی سرگرمیوں کا شکار ہے۔ ٹی ٹی پی اور دولتِ اسلامیہ اور ان سے وابستہ گروہ پاکستان میں دہشت گردی میں سب سے آگے ہیں۔ ان گروہوں کے پاکستان میں بھی ہمدرد ہیں جو انہیں یہاں فوجی اور شہری اہداف کے خلاف دہشت گردی میں مدد فراہم کرتے ہیں، جبکہ بلوچستان میں ٹی ٹی پی کچھ بلوچ گروہوں کے ساتھ کام کرتی ہے۔ پاکستان نے بار بار ٹی ٹی پی اور دیگر گروہوں کی طرف سے پاکستان میں دہشت گردانہ حملوں کیلئے افغان سرزمین کے استعمال کے بارے میں شکایت کی۔دوسری جانب کابل حکومت نے اپنی سرکاری پالیسی کو دہرایا کہ کابل حکومت نے کسی بھی گروپ کو اپنے پڑوسیوں کے خلاف سرگرمیوں کیلئے افغان سرزمین استعمال کرنے کی اجازت نہیں دی۔ جب پاکستان نے وقتاً فوقتاً اپنی شکایت دہرائی تو افغان حکومت کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے پاکستان کے خلاف جوابی الزام عائد کر دیا۔اے ایف پی سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ افغان طالبان حکومت کی سکیورٹی فورسز کو بھی داعش سے وابستہ پاکستانی شہریوں کے دہشت گرد حملوں کا سامنا کرنا پڑا مگر کابل حکومت نے پاکستان سے شکایت نہیں کی‘ لیکن اس نے ان دہشت گردوں کو ختم کردیا۔ انہوں نے پاکستان کو مشورہ دیا کہ وہ ''اپنا گھر درست رکھے‘‘ اور یہ کہ افغانستان کو مورد ِ الزام ٹھہرانے کے بجائے پاکستان کو اپنی داخلی سلامتی کو مضبوط بنانا چاہئے۔
پاکستان ٹی ٹی پی کی پاکستان مخالف سرگرمیوں کے بارے میں افغان طالبان حکومت سے رجوع کرنا جاری رکھ سکتا ہے تاہم اسے یہ توقع نہیں کرنی چاہیے کہ کابل حکومت ٹی ٹی پی اور دیگر گروپوں کو افغانستان سے ہٹائے گی۔ پاکستان نے 2022ء میں ٹی ٹی پی کے ساتھ غیر حتمی بات چیت کی لیکن سکیورٹی حکام نے اب ٹی ٹی پی سے بات نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ انہوں نے اعلان کیا کہ پاکستان صرف کابل میں طالبان حکومت کے ساتھ دہشت گردی سے متعلق معاملات اٹھائے گا۔پاکستان کو افغانستان کے بارے میں اپنے مجموعی نقطہ نظر کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ تاریخی اور ثقافتی تعلقات کی بیان بازی کو چھوڑ کر پاکستان کو افغانستان کے ساتھ صرف ایک پڑوسی ریاست کے طور پر برتاؤ کرنا چاہئے‘ جس کے ساتھ اس کے باہمی مفادات پر مبنی تعلقات ہونے چاہئیں اور اقتصادی تعلقات‘ خاص طور پر تجارت‘ دونوں ممالک کے درمیان سفر اور سرحد سے متعلق اور دیگر دوطرفہ امور پر مشاورت کو پیشہ ورانہ بنیادوں پر نمٹایا جانا چاہئے۔ پاکستان اور افغانستان کے درمیان تجارت کو ہر قسم کی سمگلنگ سے پاک کرنا ہوگا۔ دونوں اطراف کے گروہوں کو سمگلنگ سے فائدہ ہوتا ہے لیکن پاکستانی ریاستوں کو آمدنی کا نقصان ہوتا ہے۔ اگر خیبر پختونخوا اور وفاقی حکومتیں ان گروہوں کے اثر و رسوخ کو ختم کرتی ہیں تو پاکستانی حکام سمگلنگ کو کم سے کم کم کر سکتے ہیں۔
ہم نے پاک افغان سرحد پر باڑ لگانے اور اس کی نگرانی کیلئے نئی سکیورٹی چوکیوں کے قیام کے بارے میں بہت کچھ سنا ہے۔ ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ کابل حکومت اور متشدد گروہ باڑ لگانے کے مخالف ہیں اور ان میں سے کچھ گروہوں نے باڑ کو کچھ نقصان بھی پہنچایا تھا۔مگر سرحد پار لوگوں اور سامان کی غیر قانونی نقل و حرکت کی جانچ پڑتال کیلئے باڑ اور اس کی نگرانی کا نظام مؤثر کیوں نہیں رہا ؟ لوگوں اور سامان کی غیر قانونی نقل و حرکت کیلئے مؤثر سرحدی نگرانی پاکستان میں دہشت گردی کے خلاف ایک اہم حفاظتی حکمت عملی ہے‘ تاہم قانونی چینلز کے ذریعے لوگوں کی قانونی نقل و حرکت اور تجارت کو آسان بنایا جانا چاہئے تاکہ دلچسپی رکھنے والے لوگ غیر قانونی طریقوں کے بارے میں نہ سوچیں۔ سرحد پار خاندانی روابط ہیں ‘ بہت سے لوگ علاج‘ تعلیم اور معاشی سرگرمی کیلئے پاکستان آتے ہیں۔ پاکستانیوں کو افغانستان کے غیر قانونی دوروں‘ اعلیٰ تعلیم یا ملازمتوں کیلئے وہاں جانے والے طلباکی حوصلہ شکنی کرنی چاہئے۔ سرحدی باڑ لگانا صرف اس صورت میں کارآمد ثابت ہو سکتا ہے جب پاکستان کی طرف سے سرحد کی مضبوط نگرانی کی جائے۔ لوگوں کو صرف سرکاری کراسنگ چینلز سے آنے جانے کی اجازت ہونی چاہیے۔ سرحدی باڑ کے اندر اور اس کے آس پاس الیکٹرانک نگرانی کا بھی استعمال کیا جانا چاہئے تاکہ سرحد کے افغان حصے پر دہشت گردوں کی نقل و حرکت ان کے علم میں ہو۔
پاکستان کے اندر ٹی ٹی پی اور دولت اسلامیہ کے روابط کی بھی نگرانی کی جانی چاہئے اور ان سے مؤثر طریقے سے نمٹا جانا چاہئے‘ تاہم صرف تعزیراتی اقدامات اور پابندیاں کافی نہیں ‘ سماجی اور معاشی عوامل جو لوگوں کو پاکستانی ریاست سے ناراض کرتے ہیں یا انہیں انتہا پسند اور مخالف گروہوں کے ساتھ ہاتھ ملانے پر مجبور کرتے ہیں ان سے بھی نمٹا جانا چاہئے۔ سخت سرحدی پالیسیوں کے ساتھ ساتھ بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں غربت اور پسماندگی کے مسائل سے نمٹنے کیلئے مسلسل کوششیں بھی کی جانی چاہئیں۔ نوجوانوں کو یقین دہانی کرانے کی ضرورت ہے کہ پاکستان کے ریاستی نظام کے تحت ان کا مستقبل محفوظ ہے۔ جاری افراطِ زر اور پٹرولیم مصنوعات‘ بجلی‘ گیس اور خوراک کی قیمتوں میں اضافے نے پاکستان میں انسانی عدم تحفظ میں اضافہ کیا ہے۔ غریب علاقوں اور لوگوں کو انتہائی مشکل صورتحال کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے‘ اور حکومت لوگوں کے معاشرتی و معاشی مصائب کو کم کرنے کیلئے کوئی ٹھوس اقدامات نہیں کر رہی۔ یہ مسائل انتہا پسندی اور عدم برداشت کے پھیلاؤ میں معاون ہیں۔خیبر پختونخوا کے قبائلی اضلاع اور زیادہ تر بلوچستان شدید معاشی چیلنجز سے برُی طرح متاثر ہیں۔ یہ حالات لوگوں کو ریاست اور حکومت سے دور کرتے ہیں اور انہیں انتہا پسند گروہوں کے پراپیگنڈے کا شکار بناتے ہیں۔