11 دسمبر کوچیف جسٹس کی سربراہی میں بھارتی سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ نے آئین کے آرٹیکل 370 ‘ جس نے مقبوضہ کشمیر کو خصوصی خود مختار حیثیت دی تھی‘کو ختم کرنے کے حکومتِ ہند کے فیصلے کو برقرار رکھا۔بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ کشمیر کو مرکز کے زیر انتظام دو علاقوں میں تقسیم کرنے پر خاموشی اختیار کی‘ جبکہ فیصلے میں آرٹیکل 370 کو ''عبوری مقصد‘‘ کی تکمیل کیلئے ''عارضی حل‘‘ کے طور پر بیان کیا گیا ہے۔ سپریم کورٹ نے بھارتی حکومت سے جموں و کشمیر میں 30 ستمبر 2024ء تک انتخابات کرانے کا مطالبہ بھی کیا ہے۔ مقبوضہ جموں و کشمیر میں آخری اسمبلی انتخابات نومبر‘ دسمبر 2014ء میں ہوئے تھے۔ جون 2018ء میں وزارتی بحران کی وجہ سے گورنر راج نافذ کر دیا گیا تھا۔ نومبر 2018ء میں ریاستی اسمبلی کو تحلیل کر دیا گیا اور دسمبر 2018ء میں صدر راج نافذ کر دیا گیا۔ یہ اسمبلی اس وقت ختم ہوئی جب 2019ء میں کشمیر کو ایک یونین ٹیریٹری کی سطح پر ڈاؤن گریڈ کر دیا گیا۔
بھارتی حکومت نے مقبوضہ کشمیر کے بارے میں پانچ اگست 2019ء کو تین فیصلے کیے۔ (i): آرٹیکل 370 کو ختم کرکے بھارت کے آئینی نظام میں کشمیر کو خصوصی حیثیت سے محروم کیا ۔ (ii): آرٹیکل 35 اے کو ہٹایا‘ جو 1954ء میں صدارتی حکم کے ذریعے بھارتی آئین میں شامل کیا گیا تھا جس نے کشمیر کے مقننہ کو ''مستقل ساکنان‘‘ کی تشریح کرنے اور بھارت کی دیگر ریاستوں کے باشندوں کے مقابلے میں ان کی مراعات کا تعین کرنے کا اختیار دیا تھا۔ (iii): مقبوضہ کشمیر کی حیثیت کو ''بھارتی ریاست‘‘ کے طور پر ختم کردیا گیا تھا اور اسے مرکز کے زیر انتظام دو علاقوں‘ جموں و کشمیر اور لداخ میں تقسیم کردیا گیا۔ 31 اکتوبر2019ء کو پارلیمانی قانون سازی کے ذریعے اس تبدیلی کی توثیق کی گئی۔
بھارتی سپریم کورٹ کے فیصلے نے نریندر مودی کی حکومت کو تقویت دی ہے‘ جس نے ہندو سخت گیر قوم پرست ایجنڈے کے ایک حصے کے طور پر کشمیر کی حیثیت کو تبدیل کیا۔ نریندر مودی کی قیادت میں بی جے پی نے 2014ء میں انتخابی مہم کے دوران کشمیر کے مکمل انضمام کی بات کی تھی۔ مودی حکومت نے اپنی پہلی مدت (2014-2019ء) کے دوران اس سلسلے میں کوئی قدم نہیں اٹھایا لیکن اگست 2014ء میں کشمیر سمیت متنازع مسائل پر پاکستان کے ساتھ بات چیت معطل کردی ۔ جب 2019ء کے انتخابات کی مہم شروع ہوئی تو آرٹیکل 370 اور 35 اے کا خاتمہ بی جے پی کی انتخابی مہم کا حصہ تھا۔ بی جے پی کی قیادت کشمیر کی حیثیت کو تبدیل کرنے اور کشمیر میں بی جے پی کو مضبوط بنانے کے معاملے میں واضح تھی۔ بی جے پی نے 2019ء کے انتخابات میں آسانی سے کامیابی حاصل کر لی اور مودی نے مئی میں اپنی دوسری مدت کا آغاز کیا۔ دریں اثنا چین پر قابو پانے کی امریکی خواہش کے تناظر میں امریکہ کے ساتھ بھارت کے تعلقات میں بہتری نے مودی حکومت کو زیادہ اعتماد دیا۔ اس نے صحیح طور پر یہ نتیجہ اخذ کیا تھا کہ کشمیر کی آئینی حیثیت میں کسی بھی تبدیلی سے امریکہ اور دیگر مغربی ممالک کی طرف سے کوئی منفی رد عمل نہیں آئے گا۔
پاکستان نے نہ صرف 5 اگست 2019ء کے اقدام کے خلاف احتجاج کیا بلکہ اس نے بھارت کے ساتھ تجارت بھی معطل کردی اور دونوں ممالک نے اپنے ہائی کمشنرز کو واپس بلا کر اپنے سفارتی تعلقات کو کم کردیا‘ لیکن سفارت خانے کام کرتے رہے۔ وزٹ ویزوں کے اجراکو بھی کم سے کم کر دیا گیا اور لاہور اوردہلی کے درمیان ریل گاڑی اور بس سروس اور براہ راست فضائی سروس بھی معطل کر دی گئی۔ دونوں ممالک کے درمیان پوسٹل میل سروس بھی اب کام نہیں کر رہی۔
پاکستان نے کشمیر کی حیثیت سے متعلق بھارتی سپریم کورٹ کے فیصلے کو مسترد کیا ہے اور سرکاری اور غیر سرکاری حلقوں کی جانب سے کہا گیا ہے کہ بھارت کی سپریم کورٹ مودی حکومت کے سیاسی ایجنڈے سے مغلوب ہے۔تاہم حکومت پاکستان نے مؤقف اختیار کیا ہے کہ اس فیصلے سے کشمیر کی متنازع نوعیت تبدیل نہیں ہوئی اور مسئلہ کشمیر کا حل 1948-49 ء کی اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کے نفاذ پر منحصر ہے ‘جنہوں نے کشمیر میں اقوام متحدہ کے زیر انتظام رائے شماری کے تحت کشمیری عوام کے حقِ خود ارادیت کو تسلیم کیا ہے۔
اقوام متحدہ کے پانچ ارکان کشمیر پر پاکستان کی مکمل حمایت کرتے ہیں۔ ان میں چین‘ سعودی عرب‘ ترکی‘ آذربائیجان اور ایران شامل ہیں۔ زیادہ تر دیگر ریاستیں‘ خاص طور پر بڑی طاقتیں‘ یا تو لاتعلق ہیں یا کشمیر پر ایک پیچیدہ مؤقف رکھتی ہیں۔ یہ ریاستیں کشمیر کو بھارت اور پاکستان کے درمیان ایک متنازع علاقہ کے طور پر دیکھتی ہیں‘ تاہم وہ کشمیر سے متعلق اقوام متحدہ کی قراردادوں کے یکطرفہ نفاذ کی حامی نہیں۔ بڑی طاقتیں چاہتی ہیں کہ بھارت اور پاکستان مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے ایک فارمولے پر متفق ہوں۔ اگر وہ مسئلہ کشمیر کے حل پر متفق ہو جاتے ہیں تو بڑی طاقتیں اس طرح کے حل کو نافذ کرنے میں مدد کریں گی۔ وہ بھارت اور پاکستان کو مشورہ دیتی ہیں کہ جنگ سے گریز کریں اور پرامن ذرائع اور دوطرفہ مذاکرات کے ذریعے اپنے مسائل حل کریں۔ دوطرفہ مذاکرات سے مسئلہ کشمیر کو حل کرنے کیلئے عالمی برادری کے زور نے کشمیر کے سوال کو عملی طور پر روک دیا ہے کیونکہ مودی حکومت کشمیر اور دیگر مسائل پر پاکستان کے ساتھ بات چیت سے انکاری ہے۔ ماضی میں‘ خاص طور پر 2004-2007ء کے دوران‘ دونوں ممالک کے مابین مسائل کے پرامن حل کیلئے کی جانے والی کوششیں پاکستان کے بارے میں مودی حکومت کی پالیسی کے پیش نظر‘ افادیت کھو چکی ہیں۔ سخت گیر ہندو قوم پرستی بھارت کی داخلی پالیسیوں اور پاکستان کے بارے میں اس کے مزاج کیلئے نظریاتی فریم ورک فراہم کرتی ہے اور مسلم مخالف اور پاکستان مخالف مزاج کی نشاندہی کرتی ہے۔ محدود جنگ‘ کولڈ سٹارٹ‘ سرجیکل سٹرائیک اور پاکستان کو بدنام کرنے کیلئے جدید میڈیا کے استعمال کے تصورات سے کھلواڑ کرنے کے بعد مودی حکومت نے پاکستان کی سفارتی طور پر نظر انداز کرنے کی پالیسی اپنائی ہے اور چین کی معاشی روابط کی پالیسی کا مقابلہ کرنے کی امریکی پالیسی کے ساتھ خود کو ہم آہنگ کیا ہے۔ بھارت اب چین کے عروج کو روکنے اور خاص طور پر ایشیا بحر الکاہل کے خطے میں اس کے اثر و رسوخ کو بے اثر کرنے کیلئے امریکہ‘ برطانیہ‘ آسٹریلیا‘ جاپان اور کچھ دیگر ریاستوں کی عالمی کوششوں کا ایک حصہ ہے۔ خود کو چین کے خلاف ایک دیوار کے طور پر پیش کرتے ہوئے‘ مودی حکومت اسے عالمی اور علاقائی سیاست کو وسیع تر فریم ورک میں کھیلنے کے موقع کے طور پر دیکھتی ہے جو بھارت کی سفارتی حیثیت کو بلند کرے گی۔ اس کا یہ بھی خیال تھا کہ اس سے ان اور دیگر ریاستوں کو بھارت کے ساتھ اپنے مسائل میں پاکستان کی حمایت سے روک دیا جائے گا۔ بھارت کے ساتھ ان کے سکیورٹی اور معاشی تعلقات انہیں پاکستان کی طرف بہت زیادہ جھکاؤ سے روکیں گے۔
پاکستان کو موجودہ عالمی اور علاقائی سیاست کی ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے باقی دنیا کے ساتھ مؤثر معاشی‘ سفارتی اور معاشرتی رابطے کو فروغ دینے کیلئے کام کرتے ہوئے کشمیر اور بھارت کے بارے میں اپنی روایتی پالیسی کو اَپ ڈیٹ کرنے کی ضرورت ہے۔ پالیسی سازوں کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اندرونی سیاسی‘ معاشی اور معاشرتی قوت باقی دنیا کے ساتھ پرُاعتماد تعامل کیلئے ایک مضبوط صلاحیت پیدا کرنے کی کلید ہے۔