اٹھارہویں صدی کے وسط میں آنے والے صنعتی انقلاب نے دنیا میں ترقی و برتری کا ایک نیا نظریہ ہی نہیں بلکہ نظام نافذ کر دیا۔ اب برتری و حاکمیت کا انحصار تعداد کے بجائے استعداد‘ یعنی مشین پر ہوگا۔ سب سے پہلی جو صنعت وجود میں آئی وہ کاٹن ٹیکسٹائل کی تھی جبکہ اس صنعتی انقلاب کا مرکز برطانیہ تھا‘ جہاں کپاس کی ایک پھُٹی بھی کاشت نہیں ہوتی تھی۔ ایک اور اہم بات یہ تھی کہ اس انقلاب نے پیداوار اتنی زیادہ کر دی تھی کہ یہ مقامی مارکیٹ سے بہت زیادہ تھی۔ یہ وہ پہلا اور بنیادی نکتہ تھا جس کی وجہ سے یورپی طاقتوں کے ذہن میں مزید علاقوں کو اپنی کالونیاں بنانے کا خیال آیا۔ اگر یہ چاہتے تو صرف تجارت کے ذریعے بھی اپنا کام جاری رکھ سکتے تھے لیکن سرمایہ دارارنہ نظام کے خیال ''زیادہ سے زیادہ اور ہر قیمت پرمنافع‘‘ نے ان طاقتوں کو ایشیا‘ افریقہ اور جنوبی امریکہ کو اپنی کالونیاں بنانے پر اکسایہ۔ ان طاقتوں کی سب سے گہری نظر اس وقت کے برصغیر یعنی جنوبی ایشیا پر تھی۔ اس لیے صرف اس علاقے پر قبضے کے لیے کئی یورپی طاقتوں کے درمیان باہمی جنگی کشمکش بھی پیدا ہوئی‘ جس میں کامیابی برطانیہ کو ملی۔ اس کی کئی وجوہات تھیں‘ جیسا کہ یہ آبادی کے لحاظ سے دنیا کا سب سے بڑا ملک تھا اور ایک خوشحال خطہ ہونے کی وجہ سے یہ ایک امیر مارکیٹ تھی۔ اسی طرح اس خطے میں کپاس کی شکل میں خام مال پیدا کرنے والا یہ دنیا کا سب سے بڑا علاقہ تھا۔ مزید یہ کہ گندم اور چاول کی پیداوار میں بھی یہ دنیا کا سب سے اہم خطہ تھا۔ واضح رہے کہ استعماریت کے وقت یہ علاقہ پوری دنیا کی کل آمدنی کا تقریباً 25 فیصد پیدا کرتا تھا۔ اسی لیے اس علاقے کو بلاشبہ سونے کی چڑیا کہا جاتا تھا۔ سب سے اہم بات یہ تھی کہ یہ علاقہ ہاتھ سے چلنے والی مشین مطلب کھڈی سے کاٹن کا کپڑا بننے والا دنیا کا سب سے بڑا ملک تھا‘ جس کو برطانیہ والے اپنے کپڑے کے لیے ایک خطرہ سمجھتے تھے۔
اس علاقے پر قبضہ کے فوری بعد گورے نے انتہائی ظالمانہ طریقے سے اس علاقے کی کپاس کے کپڑے کی صنعت کو باقاعدہ تباہ کیا۔ اس صنعت سے وابستہ مزدوروں کے ہاتھوں کی انگلیاں تک کاٹ دی گئیں جس سے اتنا خوف و ہراس پھیلا کہ یہ صنعت تقریباً ختم ہو گئی۔ یوں برطانیہ میں بُنے جانے والے کپڑے کی صنعت کو نہ صرف کپاس کا خام مال دستیاب ہو گیا بلکہ ساتھ ہی اپنے ہاں مشینوں پر بنے کپڑے کو بیچنے کے لیے‘ دنیا کی سب سے بڑی مارکیٹ بھی مل گئی۔ گورے نے اس علاقے کے وسائل کو اندھا دھند طریقے سے لوٹا‘ ان میں انسانی وسائل بھی شامل ہیں۔ اس کے علاوہ اس علاقے کے لوگوں کو ایسی نظریاتی‘ لسانی اور عقیدوں کی باہمی جنگوں میں الجھایا کہ یہ آج تک کسی نہ کسی شکل میں موجود ہیں۔ اس علاقے کی قومیتوں میں سب سے خراب اور ظالمانہ نظر مسلمانوں پر تھی۔ تھوڑا غور کریں تو آپ کو بخوبی اندازہ ہو سکتا ہے کہ عالمی سیاست میں برطانیہ کی جگہ اب امریکہ نے لی ہوئی ہے اور یہ دونوں ملک ہر طرح سے ہم خیال ہیں۔ اسی لیے مسلمانوں سے زیادہ عتاب کا شکار پوری دنیا میں کوئی نہیں ہے۔ اب بات ذرا آگے لے جاتے ہیں‘ یعنی اس خطے سے گورے کی بظاہر واپسی کی طرف۔ گورے نے جاتے وقت بھی اس علاقے کی تقسیم میں انتہائی درجے کی بد دیانتی کی‘ جس کا نقصان نہ صرف عین تقسیم کے وقت بھی ہوا بلکہ اس غیر منصفانہ تقسیم کے خمیازے یہ علاقہ آج بھی بھگت رہا ہے اور نہ جانے کتنا عرصہ بھگتے گا۔ اس علاقے پر برطانوی و دیگر طاقتوں کی تا حال منفی مداخلت کی وجہ سے اس علاقے کو جنوبی ایشیا کے بجائے ''نچلا اور جنونی ایشیا‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔ اس خطے کا بڑا بھارت اس جنون کی آگ کو پورے خطے میں بھڑکائے ہوئے ہے۔
اس خطے میں سب سے خراب حالت میں 75برس قبل آزادی حاصل کرنے والا ملک پاکستان ہے۔ آزادی حاصل کرنے کے وقت اس ملک کی حالت اتنی خراب تھی کہ خدشہ ظاہر کیا جا رہا تھا کہ شاید یہ ملک اپنا وجود برقرار نہ رکھ سکے۔ اس ملک کے ساتھ دیگر کئی زیادتیوں کے ساتھ ایک ظلم یہ کیا گیا کہ کشمیر جیسے علاقے کو گورے نے اپنے ہی وضع کردہ اصولوں کے برعکس پاکستان میں شامل نہ ہونے دیا۔ اسی وجہ سے اپنے قیام کے ایک ہی سال بعد اس ملک کو اپنی پہلی جنگ لڑنا پڑ گئی اور اس کی ممکنہ جیت کو دیکھتے ہوئے اس جنگ کو بھی روک دیا گیا۔ کشمیر دنیا کا سب سے زیادہ ظلم سہنے والا علاقہ ہے۔ اس خطے کو بھارت کے سپرد کرنا سخت غیر مناسب تھا کہ بھارت کشمیر کے ایک بڑے حصے کو چین کے ہاتھوں میں جانے سے بھی نہ بچا سکا۔ اس وقت لداخ کے علاوہ ڈیم چونگ اورگیم چونگ کے علاقے چین کے کنڑول میں ہیں۔کشمیر کا وہ علاقہ جہاں سے یہ بھارت سے جڑتا ہے مسلم اکثریتی اضلاع پر مشتمل ہے۔ اس لیے اگر یہ مسلم اکثریتی علاقے پاکستان کو دے دیے جاتے تو کشمیر کبھی بھی بھارت کی دسترس میں نہ جاتا۔ کشمیر کے علاقے کا سپیشل سٹیٹس‘ آرٹیکل 370 ختم کیے ہوئے بھی تین سال گزر چکے ہیں۔ اس تبدیلی کے بعد سے کشمیر ایک کھلی جیل کی حیثیت اختیار کر چکا ہے۔ اس علاقے میں بھارتی فوج کی موجودگی اور مظالم اتنے غیر فطری ہیں کہ وہاں ڈیوٹی پر موجود بھارت فوجی اہلکار دلبرداشتہ ہو کر خود کشی تک کر لیتے ہیں لیکن بھارت کی کوئی بھی سرکار اپنے اس مؤقف سے ٹس سے مس نہیں ہوتی۔
پاکستان کے ساتھ 1965ء کی جنگ میں ایک بار پھر بھارت کو یقینی شکست ہونے جا رہی تھی اور کشمیر آزادی حاصل کرنے کے قریب تھا مگر پھر برطانیہ اور امریکہ نے‘ بھارت کے حق میں‘ مداخلت کرکے ہر ممکن دبائو ڈال کر‘ کشمیر کی یقینی آزادی کو ناممکن بنا دیا۔ پہلے بھی عرض کر چکا ہوں کہ پاکستان میں امریکی سفیر نے یہاں تک کہہ دیا تھا کہ جس رفتار سے پاکستانی فوج آگے بڑھ رہی ہے‘ اس طرح تو یہ دہلی تک پہنچ جائے گی۔ اس کے بعد امریکہ اور روس (اس وقت کی عالمی طاقت) کی ایجنسیوں نے مشرقی پاکستان میں ہر طرح کی مداخلت کرکے اسے بھارت کی مدد سے علیحدہ کر دیا تھا۔
پاکستان کی تاریخ میں کتنے ہی حکمرانوں کو عالمی اسٹیبلشمنٹ نے اُن کی مرضی کے برعکس ہونے کے شبے پر ہمیشہ کے لیے راستے سے ہٹا دیا۔ یہ سلسلہ لیاقت علی خان سے ہی شروع ہو گیا تھا اور اس کی سب سے بڑی اور آخری مثالیں‘ ذولفقار علی بھٹو اور ضیاء الحق تھے۔ آپ تھوڑا سا بھی غیر جانب دار ہو کر سوچیں تو آپ کو یقین ہوجاتا ہے کہ پاکستان میں موجودہ ''رجیم چینج‘‘ بحر حال امریکہ کے کہنے پر ہی ہوا ہے۔ اب بات بہت واضح ہے کہ یہ مغربی طاقتیں کسی صورت نہیں چاہتیں کہ اس علاقے میں ''گیم چینج‘‘ ہو۔ قسمت اور وقت کے کھیل نے اس علاقے کے لیے ایک موقع چین کی صورت میں پیدا کیا ہے مگر! بھارت کی شکل میں ایک مفید اور مہلک احمق اب بھی امریکہ کو میسر ہے جو چین کے ترقیاتی منصوبوں کے سمندر نما موقع سے مستفید ہونے کے بجائے تا حال ان منصوبوں کو سبو تاژ کرنے پر تلا ہوا ہے۔ ایسا کرنے کے لیے بھارت کوئی بھی جواز پیش کرنے سے قاصر ہے۔ سب سے بڑھ کر جنونی بھارت یہ تک سمجھنے کو تیار نہیں کہ فرانس اور جرمنی سمیت یورپ کے کتنے ہی ممالک چین کے ساتھ تجارت کر رہے ہیں۔ یہاں سب سے اہم بات یہ ہے کہ بھارت کی چین کے ساتھ لگنے والی تقریباً تمام سرحد متنازعہ ہے‘ جس پر چین گاہے گاہے بھارتی فوج کی شرمناک مرمت بھی کرتا رہتا ہے۔ اب ایک ہی صورت نظر آتی ہے کہ جیسے ہی چین کی عالمی دسترس امریکہ سے زیادہ ہوگی تو پھر وہ اپنی مرضی کی گیم چینج کرے گا‘ جس میں بھارت کے مزید حصے چین کے حصے میں آئیں گے۔